رسوائی
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ہمیشہ بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے
لاہور:
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بھارت کے طول و عرض میں غاصب ہندوؤں کے ہاتھوں کمزور طبقات کے خون کی جس طرح ہولی کھیلی گئی ہے، سچی بات یہ ہے کہ بھارتی چہرہ گہنا گیا ہے۔ ہمارے ہاں جس طبقے نے بوجوہ بھارت سے اچھی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، انھیں بھی شدید دھچکا لگا ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ہمیشہ بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن بھارتی تعصب نے ہمارے وزیر اعظم کی طرف سے دوستی کے ہاتھوں کو بھی جھٹک دیا ہے۔ یہ بدتمیزی بھی ہے اور عالمی و سفارتی بداخلاقی بھی۔ بھارت میں متعصب اور دہشت گرد ہندوؤں نے نہ صرف بھارتی اقلیتوں پر جینا حرام کر رکھا ہے ۔ چنانچہ وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف نے بجا طور پر گزشتہ ماہ اپنے دورئہ واشنگٹن میں، جب کہ وہ امریکی وزیر دفاع (ایشٹن کارٹر) کے ساتھ پنٹا گان کا دورہ کر رہے تھے، بجا طور پر یہ کہا: ''بھارتی ہندو صورتحال خراب کر رہے ہیں۔'' اور یہ کہ ''بھارت کا رویہ امن پسند نہیں۔'' جناب نواز شریف بھارت پر تنقید کرتے ہوئے عموماً بھارت کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں لیکن پاکستان کے خلاف بھارتی مملکت اور بھارتی ہندوؤں نے اس بے شرمی سے اودھم مچایا ہے کہ میاں صاحب بھی بھارت اور بھارتی بنئے کا نام لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بھارت اپنے پاکستانی خیر خواہوں اور دوستوں سے بھی محروم ہو رہا ہے؟ بھارتی زیادتیوں اور مظالم کے پھیلتے دائرے کا ہی یہ اثر ہے آج بھارت سمیت امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں سکھ بھی متحد اور یک مشت ہو کر بھارت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
''خالصتان'' کے حق میں گونجتے نعرے ایک بار پھر سنائی دے رہے ہیں۔ خالصتانی جھنڈے بھی پھر سے لہراتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ جس بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اندرا گاندھی کی قیادت میں سکھوں کے مقدس ترین مقام (گولڈن ٹیمپل) پر ٹینکوں، جہازوں اور میزائلوں سے حملہ کر کے بے پناہ توہین کا ارتکاب کیا اور خالصتان کے متفقہ لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے ہزاروں جانثار ساتھیوں کو قتل کر کے یہ سمجھا تھا کہ خالصتان کے جذبات ہمیشہ کے لیے دفن کر دیے گئے ہیں، اب ''خالصتان زندہ باد'' کے نعرے پھر سر اٹھانے لگے ہیں۔ اس کی ذمے دار بھی نریندر مودی کی حکومت ہے کہ مشرقی پنجاب میں سکھوں کی مقدس کتاب (گرو گرنتھ صاحب) کے اوراق کی دانستہ بے حرمتی کی گئی ہے۔ بھارتی حکومت مگر پھر بھی مجرمانہ طور پر خاموش ہے۔ مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار پرکاش سنگھ بادل بھی دہلی سرکار کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے احتجاجی سکھوں پر تشدد کر رہے ہیں۔ وسطی لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاجی سکھوں کا دھرنا بہت منظم اور مؤثر تھا۔ کئی سکھ گرفتار بھی ہوئے۔ بھارتی حکومت اور بھارت کے خلاف سکھوں کے احتجاج اسپین تک جا پہنچے ہیں۔
دنیا حیران ہے کہ یہ کس قسم کی ''عظیم جمہوریہ'' ہے جس میں اقلیتوں پر حکام اور اکثریتی ہندوؤں کے مظالم اور استحصال کا سلسلہ رکنے اور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا؟ نوبت ایں جار سید کہ برطانیہ میں نریندر مودی کے خلاف قتل کی ایف آئی آر بھی درج کروا دی گئی ہے۔ اس مقدمے کی کڑیاں بھارتی گجرات، جس کے وزیر اعلیٰ مودی تھے، میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والے مسلمانوں کے قتلِ عام سے منسلک ہیں۔ اس قتلِ عام میں نصف درجن ایسے مسلمان بھی شہید کر دیے گئے تھے جو برطانوی شہری تھے۔ بھارت نے برطانیہ میں اپنے ہائی کمیشن کے توسط سے بہت کوشش کی کہ مودی کے خلاف یہ ایف آئی آر درج نہ ہونے پائے لیکن یہ کوششیں بے ثمر ثابت ہوئیں کہ یہ ملک بھارت نہیں جہاں مقتدر اور نام نہاد اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے خلاف لب کشائی ہو سکتی ہے نہ ان کے قتل کی وارداتوں پر تھانوں میں شنوائی ہوتی ہے۔ یہ منفرد مقدمہ غالباً دنیا کی واحد مثال ہے کہ ایک برسرِ اقتدار بھارتی وزیر اعظم کے خلاف کسی مغربی ملک میں قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی ہو۔ گویا ''عظیم بھارتی جمہوریہ'' کے منہ پر ایک اور کالک مَل دی گئی ہے۔
اس سے زیادہ بھارت کے لیے رسوائی کا سامان اور کیا ہو گا کہ چار درجن سے زائد بھارتی ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے حکومتِ ہند کی طرف سے ملنے والے ادبی اعزازات اور ایوارڈز واپس کر دیے ہیں۔ بھارت کے ممتاز ترین سرکاری ادبی ادارے، ساہتیہ اکیڈمی، سب سے زیادہ پریشان ہے کہ اسی کے عطا کردہ اعزازات زیادہ تر واپس کیے گئے ہیں۔ ان اقدامات سے عالمی ادبی حلقوں میں بھارت اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف غم و غصے اور افسوس کی لہریں دوڑ رہی ہیں۔ اس کا موجب بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے ''دادری'' میں ہندوؤں کے ہاتھوں ایک مسلمان (اخلاق سیفی) کا بے دردی سے قتل کیا جانا بنا۔ اخلاق پر بے بنیاد الزام عائد کیا گیا کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا اور فریج میں رکھا تھا۔ اس بہیمانہ قتل پر بھارتی حکومت اور بھارتی وزیر اعظم نے جس طرح خاموشی کا رویہ اختیار کیا، باضمیر بھارتی ادیب اس پر چیخ اٹھے کہ ادیب و شاعر کا کام ہی یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار اور مذہب و مسلک کی عصبیت سے بلند رہ کر انسانیت کی عظمت و تکریم کا محافظ بنا رہے۔ احتجاج میں ایوارڈز واپس کرنے کا آغاز ممتاز بھارتی ادیبہ محترمہ نین تارا سہگل نے کیا۔ یہ بلند ہمت خاتون بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو کی بھانجی، ممتاز بھارتی سیاستدان وجے لکشمی پنڈت کی صاحبزادی اور مقتول وزیر اعظم اندرا گاندھی کی فرسٹ کزن ہیں۔
انگریزی زبان کی عالمی شہرت یافتہ ناول نگار۔ ان کے اس اقدام کے پس منظر میں بھارتی حکمرانوں کے خلاف وہ غصہ بھی تھا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران بھارت میں شدت پسند ہندوؤں کے ہاتھوں اب تک سات ہندو اور مسلمان ادیبوں اور شاعروں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ مثلاً: ایم ایم کلبورگی، گوبند پنساری اور نریندر ڈبھولکر ایسے ادیبوں کا قتل۔ انھیں آزادیٔ اظہار کی سزا دی گئی۔ محترمہ نین تارا سہگل کے ایوارڈ واپس کیے جانے کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ (انھوں نے ساہتیہ اکیڈمی کے سربراہ وشواناتھ پرشاد تیواڑی کی بھی سخت الفاظ میں گوشمالی کی ہے۔ ممتاز بھارتی ادیب اور شاعر وکرم سیٹھ نے بھی ساہتیہ اکیڈمی کی مذمت کرتے ہوئے اسے Mealy Mouth کہا ہے۔) بھارتی ادبی اعزازات واپس کرنے والوں میں انگریزی، پنجابی، گجراتی، ہندی، مراٹھی اور کشمیری زبان میں لکھنے والے شامل ہیں۔ کیا اب بھی متعصب بھارتی حکمرانوں کو شرم و حیا نہیں آرہی ـ؟ نام نہاد اونچی جاتی ہندوؤں کے ہاتھوں دلت بچوں کو جلانے کی شرمناک اور بہیمانہ واردات پر یہ کہنے سے بھی نہیں چُوکتے: ''یہ کتے کی طرح مارے گئے، اس میں ہمارا قصور کوئی نہیں۔''
بھارت کے یونین منسٹر، جو ''خیر سے'' سابق بھارتی آرمی چیف بھی ہیں، کے یہ الفاظ دنیا بھر کے انسانوں کے دلوں پر چھریاں چلا گئے ہیں لیکن یہ شخص ڈھٹائی سے اب بھی نریندر مودی کی کابینہ کا حصہ ہے۔ بھارت بھر اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مظالم جاری ہیں۔ حیرت ہے کہ عالمِ اسلام کے وہ ممالک جو معاشی اعتبار سے نہایت طاقتور ہیں اور جہاں لاکھوں بھارتی ہندو ملازمتیں کر رہے ہیں، بھارت کے خلاف لب کشائی کرنے پر تیار نہیں۔ مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی خاموش ہے۔ اس پیش منظر کے باوجود مسلمان بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور بے حرمتیوں کے خلاف مقدور بھر احتجاج کر کے عالمی ضمیر پر دستک دینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بھرپور انداز میں تازہ ترین دستک کشمیریوں نے دی ہے۔ نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی عمارت کے سامنے ''ملین مین مارچ'' کر کے!! کبھی تو خدا مظلوموں کی آواز بھی سنے گا۔