سفری مشاہدات
کسی بزرگ کا قول ہے ’’سفر وسیلہ ظفر ہے‘‘۔ یعنی کامیابی حاصل کرنے کے لیے سفر کا راز پنہاں ہے۔
KARACHI:
زمانہ طالب علمی میں ریڈیو پاکستان لاہور سے طلباء و طالبات کی تعلیمی اور علمی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں نشر ہونے والا مقبول ترین پروگرام ''یونیورسٹی میگزین'' کے نام سے نشر (براڈکاسٹ) کیا جاتا تھا جس میں شہر کے مختلف کالجز اور یونیورسٹی کے تمام تعلیمی شعبہ جات سے متعلق طلبا و طالبات کے درمیان ذہنی آزمائش (کوئز) کے مقابلے منعقد کرائے جاتے تھے اور شریک طلبا و طالبات کو پروگرام کے اختتام پر کچھ انعامی رقم سے بھی نوازا جاتا تھا۔ اسی طرح سے دوسرا پروگرام ''اسکول براڈ کاسٹ'' کے نام سے نشر کیا جاتا تھا جس میں سیکنڈری اسکول کے طلبا و طالبات ترتیب دیے گئے مختلف پروگرامز میں ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے۔ ہم جیسے متوسط درجہ طالب علم کو بھی اپنے کالج (ایم اے او کالج) کی طرف سے اس پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ مباحثے کا عنوان تھا ''مسافروں سے کہو رات سے شکست نہ کھائیں''۔
کسی بزرگ کا قول ہے ''سفر وسیلہ ظفر ہے''۔ یعنی کامیابی حاصل کرنے کے لیے سفر کا راز پنہاں ہے۔ لفظ سفر اپنے اندر وسعتوں کا ایک وسیع پہاڑ رکھتا ہے۔ کسی نے خوب گایا ہے ''چلیں تو کٹ ہی جائے گا سفر، آہستہ آہستہ''۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سفر اور سیاحت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سفر دوسروں کے لیے ذریعہ آمدنی اور ذریعہ روزگار بھی ہے۔ سفر قومی اور بین الاقوامی تجارت کا سب سے بڑا سبب بھی ہے۔ سفر ذہنی ارتقا، شہر شہر، ملک ملک کا مطالعاتی دورہ بھی سفر کے زمرہ میں آتے ہیں۔ سفر باہمی انسانی میل ملاپ اور تعلقات استوار کرنے کا دوسرا نام ہے۔ دوران سفر تاریخی، تفریحی، خوبصورت قدرتی مناظر سیاح/ مسافر اپنے ذہن اور آنکھوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جذب کرلیتا ہے۔ بلاشبہ کراچی اور لاہور کے درمیان ایک طویل مسافت کا سفر ایسا صبر آزما سفر ہے جس میں انسان تھک کر بیزاری محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس سفر کی قسم خواہ آرام دہ ہو یا کسی تیسرے درجے کی قسم کا سفر۔ سفر تو سفر ہی ہے۔ بلاشبہ اپنے گھر میں جو انسان راحت و سکون محسوس کرتا ہے اس کا نعم البدل سفر میں طلب کرنا قطعاً ناممکن ہے۔ ''لارڈ بیلنس فیلڈ'' کا خطاب حاصل کرنے والا برطانوی یہودی سیاست دان اور معروف عالمی ناول نگار بنجمن ڈزرائیلی (Benjamin Disraeli) نے خوب کہا ہے ''سفر رواداری اور برداشت سکھاتا ہے''۔
کہتے ہیں ہر تکلیف کے بعد راحت ہے۔ انسان کی زندگی کی ساری رونق، تمام حسن، دلکشی، رعنائی، حرکت و عمل اور جدوجہد میں پوشیدہ ہے۔ مطلوبہ منزل مقصود تک رسائی اسی صورت ممکن ہے جب آپ مستقل مزاجی کے ساتھ سفر کے دوران پیش آنے والی تکالیف کو نظر اندازکرتے ہوئے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ کیونکہ انسانی زندگی جدوجہد، کوشش اور حرکت میں پنہاں ہے۔ دنیا میں ہر زندہ شے حرکت پذیر ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ ساکت زندگی انسان کو بیکار بنا دیتی ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی میں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا بھی خواہاں ہے۔ اس تبدیلی کا حصول مسلسل جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سفر حصول علم اور کامیابیوں کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ ہمارے پیارے نبی آنحضرت ﷺ نے سفر کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تم علم حاصل کرو خواہ تمہیں اس کے لیے چین جانا پڑے۔ قدیم زمانہ میں سفر بذریعہ اونٹ، گھوڑے، خچر یا پیدل کیا جاتا تھا، جوں جوں پہیہ ایجاد ہوا فاصلوں کی رفتار میں تیزی کے ساتھ وقت میں بھی کمی رونما ہوئی۔ یورپ اور امریکا کے لوگ سیرو سیاحت کو زندگی کا لازمی جزو تصور کرتے ہیں۔ چونکہ سفر مشاہدات کا روشن باب ہے، اسی مناسبت سے حالیہ سفر کے دوران جن مشاہدات کے مرحلے سے ہمیں گزرنا پڑا ان کو یہاں زیر قلم لانا بے حد ضروری ہے۔
ٹرین میں سوار ہیں، کیا دیکھتے ہیں کہ واش بیسن پر پانی کی ٹونٹیاں استعمال کے بعد مناسب طریقے سے بند نہیں کی گئیں، جس سے ٹینک میں جمع شدہ پانی ضایع ہونے کا قوی خدشہ ہے، جو مسافروں کے لیے قلت آب کا موجب ہے۔ پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں، کیلے کھا رہے ہیں، چھلکا جہاں کھڑے ہیں وہیں پھینک رہے ہیں، اتنا احساس نہیں کہ صاف ستھرے پلیٹ فارم کے فرش پر نہ صرف گندگی پھیل رہی ہے بلکہ کسی بھی جان کے ضیاع کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ دوسرا قابل غور پہلو بسوں میں سفر کے دوران بالخصوص ائیرکنڈیشن بسوں میں سفر کرنے والے افراد نصب شدہ ائیرکنڈیشنر سوئچز کو بلا ضرورت ہاتھوں سے گھماتے ہیں۔ مفت کا مال ہے جیسا چاہو استعمال کرو۔ مال مفت دل بے رحم۔ اسی لیے بسوں پر ہم نے لکھا ہوا دیکھا ہے ''خرچہ ساڈا نخرے لوکاں دے''۔ یہ ہے ہماری قوم کا مزاج۔ تیسرا قابل غور پہلو جو ہم نے بادشاہی قلعہ لاہور میں سیر کے دوران دیکھا کہ ایک متوسط کلاس فیملی چپس اور بسکٹس کھانے میں مصروف ہے اور چپس اور بسکٹس کے ریپرز قریب رکھے ہوئے ڈسٹ بن میں ڈالنے کے بجائے صاف ستھرے فرش پر پھینکے جارہے ہیں۔ قریب ہی بیٹھے فراش نے دیکھ لیا اور اس فیملی کو ٹوکا کہ کیا آپ کو صفائی پسند نہیں ہے۔
کہنے کو تو یہ باتیں بہت معمولی ہیں مگر ہمارا ذہنی شعور کیا کہتا ہے، جب کہ اس کام میں کسی قسم کی محنت و مشقت، قیمتی وقت، روپیہ پیسہ خرچ نہیں ہوتا، بس ضرورت ہے شعور اور آگہی کی عوامی سطح پر۔ اب آئیے ملکہ کوہسار مری کی طرف جہاں سے لگ بھگ آدھے گھنٹے کی مشکل مسافت پر پیٹریاٹا ہے جو سیاحت کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، یہاں کی خصوصیت بلند ترین پہاڑوں پر بذریعہ چیئرلفٹ اور کیبل کارز کا دلچسپ اور دلفریب سفر ہے۔ یہ لفٹ اور کیبل کار پہاڑوں کے دامن سمیٹتی خوبصورت وحسین قدرتی وادیوں سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر سفر کرتی ہیں۔ اگر ایک نارمل انسان دوران سفر نیچے کی جانب دیکھے تو انسان کی روح کانپ جاتی ہے اور سفر آخرت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے کزن جن کی تاحال پوسٹنگ مری میں ہے، کے پرزور اصرار پر اس میں بیٹھنے پر رضامند ہوگئے۔ مگر ہم نے دیکھا اور محسوس کیا کہ ان چیئرلفٹوں اور کیبل کارز پر ایمرجنسی کی صورت میں کنٹرول روم سے فوری رابطہ کے لیے نہ ہی کوئی انٹرکام نصب ہیں، اور نہ ہی ان لفٹوں پر رابطہ کے کوئی نمبر تحریر ہیں (کہیں کہیں نمبر لکھے ہوئے تو نظر بھی آئے) جب کہ پورے کا پورا آپریشن فیڈرل گورنمنٹ کے زیر اثر خودمختار ادارہ پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے زیر انتظام ہے۔ پاور فیلیئر کی صورت میں متبادل انتظام بے حد ضروری ہے تاکہ اس کا آپریشن بلا کسی تعطل جاری رہ سکے۔
لاہور اور جڑواں شہر راولپنڈی، اسلام آباد میں سفری سہولیات کی مد میں جدید ٹرانسپورٹ سسٹم ''میٹرو'' کا جال بچھایا گیا ہے جس سے بلاشبہ عوام کو حکومت کی طرف سے سفریات کی مد میں ایک مثالی منصوبہ جو ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ اس منصوبہ میں کچھ خامیاں باقی رہ گئی ہیں مثلاً لاہور میں شاہدرہ کی جانب دریائے راوی کے پل کو عبور کرتے وقت پھر گجومتا کی جانب جاتے ہوئے فیروز پور روڈ پر مختلف چوراہوں پر جنگلوں سے باہر ہوجانا، کسی خطرناک حادثہ کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔