آٹھ سال

’’یوم نجات‘‘ زوردار انداز میں منایا گیا۔ حکومت نے استعفیٰ دے دیا تھا


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate November 02, 2015
[email protected]

''یوم نجات'' زوردار انداز میں منایا گیا۔ حکومت نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یقین جانیے منزل تک پہنچنے میں اس کے بعد بھی آٹھ سال لگے۔ آج ہمارے کالم کی گردان آٹھ سال ہوگی۔ قائداعظم، بھٹو، نواز شریف، بے نظیر اور بلاول کی زندگی کے آٹھ برسوں کی بات ہوگی۔ انگریزوں کے دور میں نہرو کی کابینہ نے جنگ عظیم شروع ہونے پر استعفیٰ دیا تھا۔ دو سال کی حکومت نے مسلمانوں پر جو ظلم کیے تھے اس کے جواب میں قائداعظم نے مسلمانوں سے یوم نجات منانے کی اپیل کی۔ نہرو نے اسکولوں میں ''بندے ماترم'' شروع کروانے کے علاوہ کئی ایسے فیصلے کیے جس کے سبب کلمہ گو ایک قائد اور ایک پارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد ہی لاہور میں قرارداد منظور کی گئی۔

کانگریس کے حکومت چھوڑنے اور 14 اگست کے یوم آزادی میں آٹھ سال کا فرق ہے۔ اس میں ''ہندوستان چھوڑو'' کی تحریک شروع ہوئی۔ قائداعظم نے کہا کہ جاؤ ضرور لیکن پہلے تقسیم کرو پھر جاؤ۔ انگریز دوسری جنگ عظیم کے سبب کمزور تر پوزیشن پر تھے۔ ہٹلر نے لندن کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ کانگریس مضبوط تر پوزیشن پر تھی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی طاقت تھی۔ اس کے باوجود بھی انڈین نیشنل کانگریس زور بازو سے انگریزوں سے اپنی بات نہ منواسکی۔ آٹھ برسوں کے اس سفر میں انتخابات میں آتے ہیں جس میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ طاقت بن کر ابھرتی ہے۔ قائداعظم نے نہرو سے زبانی طور پر کہا تھا کہ ہندوستان میں انگریزوں اور کانگریس کے علاوہ مسلمان تیسری طاقت ہیں۔ زبانی بات کو انتخابی نتائج نے عملی طور پر ثابت بھی کردیا۔ قارئین نے حساب لگالیا ہوگا کہ یوم نجات اور یوم آزادی کے بیچ آٹھ سال کا عرصہ ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک ذہین انسان تھے، جاگیردار گھرانے کے ایک پڑھے لکھے شخص۔ ناہید اسکندر اور نصرت بھٹو کی دوستی نے انھیں اقتدار کی غلام گردشوں کے قریب کردیا۔ اسکندر مرزا کے بعد ایوب خان کی نظروں میں بھی بھٹو سما گئے۔ وہ دوسرے وزیروں کی طرح ایک وزیر تھے۔ جب ایوب کنونشن مسلم لیگ کے صدر بنے تو بھٹو اس پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے۔ ایوب کے صدارتی انتخاب میں اگر کوئی ان کا گورننگ امیدوار تھا تو وہ بھٹو تھے۔ یہاں تک بھٹو صرف خواص کے بھٹو تھے۔ جب وہ وزیر خارجہ بنے اور کشمیر پر انھوں نے اقوام متحدہ میں زوردار تقریر کی تو وہ عوامی بھٹو بن گئے۔ تاشقند کے معاہدے پر جب انھوں نے ایوب سے اختلاف کیا تو وہ کابینہ سے نکال دیے گئے۔

اٹھاون سے ایوب کے ساتھ رہنے والے بھٹو آٹھ سال پورے ہونے پر الگ ہوگئے۔ ان آٹھ برسوں کے تجربے نے بھٹو کو ''قائد عوام'' بنایا۔ انھوں نے پیپلز پارٹی بنائی اور پنجاب میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ کیا اہل پنجاب مجیب اور ان کے چھ نکات کے مقابل ایک تجربہ کار، ذہین، پرکشش، متحرک اور پڑھا لکھا سیاستدان پیش کرنا چاہتے تھے؟ تاریخ کے روبرو یہ سوال رکھ کر ہم اب آگے بڑھتے ہیں۔ ستر کے انتخابات نے بھٹو کو مغربی پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر بنادیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ پاکستان کے حکمران بنے۔ اچھے اور برے کاموں کی تاریخ رکھنے والے بھٹو 71 میں حکمرانی لینے کے بعد 79 میں پھانسی پاگئے۔ تخت سے تختے تک جانے کا یہ عرصہ بھی آٹھ سال بنتا ہے۔ پرسکون انداز سے ایوب کے ساتھ آٹھ سال اور خود حکمرانی کرنے کے ہیجان انگیز آٹھ سال تاریخ کے روبرو ہیں۔

نواز شریف کے ساتھ آٹھ سال کا خوب صورت کھیل تاریخ نے بھی کھیلا ہے۔ وہ بھی بھٹو کی طرح ایک دل پسند شخصیت تھے۔ 80 کا عشرہ شریف خاندان کے لیے خوبصورت عشرہ تھا۔ ستر کی دہائی کی خوفناکیوں سے پرے، جب صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر صنعت کاروں کے لیے زندگی کو ڈراؤنے خواب میں بدل دیا گیا تھا۔ درجنوں صوبائی وزرا میں جنرل ضیا کا انتخاب نواز شریف ٹھہرے۔ پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد پنجاب کے لیے وزیراعلیٰ کا مرحلہ طے ہونا تھا۔ اس وقت تک زمیندار گھرانوں کے چشم و چراغ اس عہدے پر فائز رہے تھے سوائے حنیف رامے کے ۔ اب ایک صنعتکار مقابلے پر کھڑا تھا۔ جاگیرداروں کی ''حمیت'' کو یہ گوارا نہ تھا۔ مخالف ہواؤں کا رخ جنرل ضیا کے ایک جملے نے پھیر کر رکھ دیا۔

انھوں نے کہا کہ ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے۔'' تین سال تک غیر جماعتی اسمبلی کے وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد جب جنرل ضیا نے وزیراعظم جونیجو کی حکومت ختم کی تب بھی نواز شریف جنرل ضیا کے ساتھ کھڑے تھے۔ پھر بہاولپور میں طیارے کا حادثہ پیش آیا اور صدر ضیا الحق دنیا میں نہ رہے۔ آٹھ سال تک پنجاب پر حکمرانی کا ابتدائی دور گزر گیا۔ اسی تجربے نے نواز شریف کو ضیا کے بعد پہلے پنجاب کا وزیراعلیٰ، پھر پاکستان کا وزیراعظم، پھر اپوزیشن لیڈر، پھر دوسری مرتبہ وزیراعظم بنایا۔ جنرل پرویز مشرف کی آمد نے اس ''ہنی مون'' کو ختم کیا۔ جیل کا دور صدی کے آخری سال سے شروع ہوا تو پھر جدہ روانگی۔ اس میں نرمی آئی جب آٹھ سال مکمل ہوئے۔ یہ زمانہ گزرنے پر وہ انتخابی سیاست میں مصروف رہے۔ ابتدائی دور میں آٹھ سالہ اقتدار کے سکھ کی طرح جیل و جلاوطنی کے دکھ کی مدت بھی آٹھ سال ہے۔

عمران خان نے سیاست میں حصہ لیا تو سمجھا جا رہا تھا کہ ہیٹ ٹرک ہونے والی ہے۔ جنرل مشرف کو ایک ابھرتا ہوا سیاستدان چاہیے۔ لگتا تھا کہ بھٹو اور شریف کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے وہ مشرف کے ساتھ چل پڑیں گے۔ ریفرنڈم میں پرویز مشرف کی حمایت اس خیال کو تقویت دیتی تھی۔ پھر دونوں کے راستے الگ ہوگئے۔ آمر کی سرپرستی نہ ہو تو سفر کی مدت دگنی ہوجاتی ہے۔ آٹھ کے بجائے جب سولہ برس عمران کی سیاست کو ہوگئے تو پھر کچھ کامیابی کے آثار دکھائی دیے۔ انوکھی مثال ہے لیکن بھٹوز اور شریفاز کے حوالے سے زیادہ بات کیے بغیر ہم ایک نوجوان کی طرف آتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالے آٹھ سال بیت چکے ہیں۔ 2007 میں بے نظیر کی شہادت کے وقت اٹھارہ سال کا نوجوان اب عمر کی چھبیس ستائیس بہاریں دیکھ چکا ہے۔ ذہین ماں کی تربیت اور اعلیٰ تعلیم نے اسے سمجھدار اور سلجھا ہوا بنا دیا ہے۔ ان آٹھ برسوں میں اس نے کیا سیکھا؟ ایسے مرحلے پر جب پیپلزپارٹی عوامی مقبولیت کھو رہی ہے، اس نوجوان کے ذہن میں کیا ہے؟ لبرل اور سیکولر طبقہ سوچ رہا ہے کہ اب ملک کی پہلی دو مقبول ترین شخصیات دائیں بازو سے متعلق ہیں۔ بائیں بازو کو عمران خان اور نواز شریف اپیل نہیں کرتے۔ شیر اور بلے کے نشان پر ووٹ ڈالنے کے تصور کو وہ ڈراؤنا خواب سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کی حوصلہ افزائی اور عمران کو ریٹائرمنٹ واپس لینے پر مجبور کرنے کا کریڈٹ جنرل ضیا کو جاتا ہے۔ یوں بالواسطہ اور بلاواسطہ آج کی دونوں مقبول ترین شخصیات ''جنرل ضیا کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم ہیں جو سیاسی بت خانے کے بھگوان بنے ہوئے ہیں۔'' ایسے میں بلاول کے لیے ایک طبقہ موجود ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی حمایت پر مجبور ہے۔

2015 میں جب ہم ''آٹھ سال'' نامی کالم لکھ رہے ہیں تو ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ شہباز شریف اور قائم علی شاہ بھی آٹھ آٹھ برسوں سے پنجاب اور سندھ پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اتنا طویل عرصہ پاکستان میں کسی پارٹی کو نہیں ملا۔ آٹھ سال سے آدھی مدت بھی کسی وزیراعلیٰ کو نہیں ملی۔ ایسے میں ایک شریف اور ایک شاہ نے راوی اور مہران کے عوام کو کیا دیا ہے؟ اگر شہباز شریف نے تھوڑا سا گُڑ اور کچھ گُڑ جیسی باتیں دی ہیں تو کیا قائم علی شاہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں؟ بلاول اس حوالے سے کچھ سوچیں گے کہ اب ان کے کزن ذوالفقار جونیئر بھی میدان میں آرہے ہیں۔ بلاول جنھیں اگر کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تو وہ آٹھ سال کی ہونی چاہیے۔ اگر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں اور بلاول پیپلز پارٹی کو بچانے اور منظم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔

2023 کے انتخابات میں آٹھ سال باقی ہیں۔ اس وقت تک بلاول پینتیس سال کے ہوجائیں گے۔ یہی عمر تھی جب بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بنی تھیں۔ ہم نے قائداعظم کی جدوجہد کے آٹھ سال کی بات کی۔ ہم بھٹو اور نواز شریف کی زندگی کے آٹھ برسوں سے ہوتے ہوئے دو صوبائی حکومتوں کی آٹھ سالہ کارکردگی تک آئے۔ آخر میں ہم نے بلاول کے ماضی کے آٹھ برسوں کی بات کی اور اب ان کے مستقبل کے آٹھ سال کا خاکہ سامنے رکھا ہے۔ کیا ہمارے حکمران عوام کے آنسو پونچھنے کی کوشش کریں گے آنے والے آٹھ برسوں میں۔ یقین جانیے بڑے اہم ہیں پاکستانیوں کے لیے آنے والے آٹھ سال۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں