خیبر پختونخواہ میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر

جب سے ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا اس کے بعد سے ہر طرف سے شمالی وزیرستان آپریشن ہی کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں


Shahid Hameed October 23, 2012
مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کے بعد ملاکنڈ ڈویژن میں آپریشن شروع کیا گیا فوٹو: پی پی آئی

حکومت اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے اب تک کوئی ایسا اعلان نہیں کیا گیا۔جس میں کہا گیا ہو کہ وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے جارہے ہیں بلکہ اب تک معاملہ مشاورت اور سوچ وبچار کی سطح پر ہی ہے۔

جب سے ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا اس کے بعد سے ہر طرف سے شمالی وزیرستان آپریشن ہی کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں ،بعض حلقے اس کے ڈانڈے سوات آپریشن کے آغاز سے ملارہے ہیں جہاں ایک خاتون کو گرین چوک پر قتل کرنے اور ایک کو کوڑے لگانے کی ویڈیو کی ریلیز کے بعد صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوئی اور جب صوبائی کابینہ نے اپنے اجلاس میں پاس کی جانے والی ایک قرارداد کے ذریعے باقاعدہ طور پر سیکورٹی اداروں اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن میں حقیقی آپریشن شروع کیاجائے ۔

مولانا فضل الرحمٰن نے طالبان کے مارگلہ کی پہاڑیوں تک پہنچنے کا ذکر کیا تو اس کے بعد سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے کئی اضلاع میں آپریشن شروع کردیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں پر عسکریت پسندی کو کنٹرول کرلیا گیا اور اب شمالی وزیرستان آپریشن شروع کرنے اور نہ کرنے کے حوالے سے مطالبات اور بیانات کا سلسلہ ایک خاتون ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہی سے شروع ہوا جس کے ساتھ ہی صوبائی حکومت کے عہدیدار بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کی باتیں کررہے ہیں ۔

تمام قبائلی ایجنسیوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیاں اور آپریشن کیے گئے اور ملاکنڈ ڈویژن میں بھی آپریشن ہوا تو پھر ایسے میں شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے اتنا شورکیوں مچا ہوا ہے ؟اس کا جواب تو سکیورٹی اداروں اور اس آپریشن کی مخالفت کرنے والوں ہی کے پاس ہوگا۔ تاہم وہ لوگ جو اس سے قبل دیگر علاقوں میں کاروائیوں سے متاثر ہوئے وہ یقینی طور پر خواہش رکھتے ہیں کہ اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے سے حالات میں سدھار آسکتا ہے تو وہاں پر کاروائی ضرور ہونی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ سیاسی معاملات کو سمجھنے والے یہ بھی چاہتے ہیںکہ اب قبائلی علاقہ جات میں سیاسی ڈائیلاگ اور عمل شرو ع ہونا چاہیے جو یقینی طور پر وقت کی ضرورت ہے ،قبائلی علاقہ جات براہ راست مرکز کے تحت ہیں اور صدر کے ایجنٹ کے طور پر گورنر خیبرپختونخوا قبائلی علاقوں کا انتظام وانصرام سنبھالتے ہیں اور فاٹا سے متعلق تمام امور کی نگرانی بھی گورنر ہی کی ذمہ داری ہے ۔

جب بیرسٹر مسعود کوثر کو گورنر خیبرپختونخوا تعینا ت کیا گیا تو اس کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ وہ قبائلی علاقہ جات میں سیاسی عمل کو شروع کرتے ہوئے حالات کا رخ عسکریت پسندی سے سیاست کی طرف موڑیں گے تاہم یہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل قبائلی علاقوں کو ڈیل کرنے کے لیے ڈپٹی گورنر کی تعیناتی کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی اور گورنر کی تبدیلی کی بھی تاہم اس حوالے سے فی الحال کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید سیاسی ڈائیلاگ شروع کرنے سے قبل مزید کاروائیاں ہونا باقی ہیں ۔

مرکز اب تک انہی حالات کی وجہ سے فاٹا کے مستقبل کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکا حالانکہ یہ شنید تھی کہ موجودہ حکومت ہی کے دور میں قبائلی علاقہ جات کے مستقبل کے حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کیاجائے گا ، تاہم فاٹا میں امن کا قیام نہ ہونے کی وجہ سے ان تینوں آپشنز پر عمل درآمد بھی مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے فیصلے ہونے اور نظاموں کا ڈھانچہ تیار ہونے کے باوجود عملی طور پر قبائلی علاقوں میں ا ن کا نفاذ نہیں ہوسکا ۔

قبائلی علاقوں تک پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو توسیع دینے کا مقصد یہی تھا کہ وہاں پر سیاسی جماعتیں اپنی تنظیموں کو مضبوط کریں اورسیاسی سرگرمیاں شروع کریں تاکہ تبدیلی کا عمل شروع ہوسکے، تاہم ایک جانب تو سیاسی جماعتیں اس حوالے سے کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہیں تو دوسری جانب فاٹا کی پسماندگی اور مسائل کو دور کرنے کے لیے مختص کیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کا استعمال واضح طور پر نظر نہ آنے کی وجہ سے فاٹا کی صورت حال جوں کی توں ہے اور وہ اندازے اور توقعات کہ فاٹا میں سیاسی عمل شرو ع اور اصلاحات کو نافذ کرتے ہوئے حالات کو کنٹرو ل کرلیا جائے گا، غلط ثابت ہورہے ہیں اور اس وقت پہلی ترجیح قبائلی علاقوں میں امن کا قیام ہی ہے جس کے لیے حکومت کو سیاسی عمل شروع کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کے مختلف گروپوں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ کسی نہ کسی طور شرو ع کرنا ہی ہوگا تاکہ حالات مزید بگاڑ کی بجائے سدھار کی جانب جاسکیں ۔

سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد شیر پائو نے اپنی پارٹی کا نام تبدیل کرلیا ہے اور اب پیپلز پارٹی شیر پائو ،قومی وطن پارٹی بن چکی ہے جس کا منشور اور جھنڈا بھی تبدیل ہوگیا ہے تاہم انتخابی نشان وہی چراغ رہے گا ،آفتاب احمد شیر پائو ایک عرصہ سے اس سوچ میں تھے کہ وہ پیپلز پارٹی کے نام سے چھٹکارا حاصل کریں کیونکہ اس طریقہ سے ان کی پارٹی الگ پارٹی کی بجائے پیپلز پارٹی ہی کا ایک دھڑا لگتا تھا اسی وجہ سے انہوں نے پارٹی کا نام تبدیل کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر قوم پرست لیڈر کے طور پر میدان میں قدم رکھا ہے اور اس خطہ میں قوم پرستانہ سیاست کرنے والی اے این پی کی جانب دست تعاون بھی بڑھایا ہے، تاہم اے این پی کے بعض حلقے آفتاب شیر پائو کی نئی پارٹی کے قیام اور قوم پرستانہ سیاست کے باقاعدہ آغاز سے خوش نہیں ہیں۔

جن کے ذہنوں میں ممکنہ طور پر یہ بات ہوسکتی ہے کہ اے این پی چونکہ اقتدار میں ہے اور اقتدار میں موجود پارٹی سے کئی لوگوں کی ناراضگی اور گلے شکوے بھی ہوتے ہیں اس لیے کہیں اس ناراض ووٹ کو قومی وطن پارٹی اپنی جانب کھینچ نہ لے جائے کیونکہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ دس سالہ سیاست پر یا تو مذہبی جماعتیں نظر آتی ہیں یا پھر قوم پرست ،گوکہ پیپلز پارٹی نے بھی گزشتہ الیکشن میں نشستیں حاصل کی تھیں تاہم بے نظیر بھٹو کی شہادت سے جو صورت حال بنی تھی اس میں ایسا ہونا لازمی تھا ،انہی حالات کے تناظر میں آفتاب شیر پائو کو بطور قوم پرست لیڈر ،اے این پی کے لیے خطرہ محسوس کیاجارہا ہے تاہم آفتاب شیر پائو ہر جگہ اپنے امیدواروں کو میدان میں لانے کی بجائے مختلف پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی صورت میں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی دونوں ان کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی خواہاں ہیں ۔

جماعت اسلامی ،تحریک انصاف ،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شیر پائو کے عزائم اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے امکانات کو دیکھتے ہوئے ہی اے این پی ،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف)میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ گو کہ ان جماعتوں کے آپس میں اتحاد کے امکانات تو نہیں ہیں تاہم انھیں مختلف اضلاع میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جانب جانا چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں