ملازمت نہ رہے تو۔۔۔
ملازمت پیشہ افراد مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اوراگر ملازمت ہی ختم ہو جائے توزندگی دوراہے پر آکھڑی ہوتی ہے
ملازمت پیشہ افراد منہگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اگر خدانخواستہ ملازمت ہی ختم ہو جائے، تو گویا پوری زندگی ایک دوراہے پر آکھڑی ہوتی ہے۔
بات اگر ایسی خواتین کی ہو، جو معاش کے میدان میں اپنے خاندان کی معاون ہیں، تو وہ بھی ایسے مسئلے میں شدید متاثر ہوتی ہیں، کیوں کہ بہت سے گھرانوں میں میاں، بیوی مل کر گھریلو اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ یعنی بہت سی خواتین صرف شوقیہ نہیں، بلکہ ضرورت کے تحت بھی ملازمتیں کر رہی ہیں۔ ایسے میں اگر گھر میں ایک شخص کی تنخواہ آنا بند ہو جائے، تو یہ پریشان کن بات ہے، لیکن صرف پریشانی مسائل کا حل نہیں ہوتی، بلکہ حد درجہ پریشانی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کر کے مایوسی و یاسیت کا شکار کر دیتی ہے۔ لہٰذا مثبت طرز فکر زندگی کو کام یابی کی جانب گام زن کرتا ہے اور آگے بڑھنے کی جانب راہ نمائی کرتا ہے۔ خدانخواستہ جب کسی خاتون یا اس کے شوہر کی ملازمت ختم ہو جائے، تو اس کو ان نکات پر عمل کر کے اپنے مستقبل میں کام یابی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
٭سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ دونوں کی ملازمت کے نشیب وفراز آپ کے گھریلو ماحول اور ازدواجی زندگی پر اثر انداز نہ ہوں۔ بہت سے گھرانوں میں یہ خواتین کی ملازمت کے مسائل براہ راست گھر پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر اس کے نتائج خاصے تلخ نکلتے ہیں۔
٭ اگر یہ مشکل وقت آپ کے شوہر پر آیا ہے، تو اپنے نصف بہتر کو زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پہلے سے زیادہ مضبوط ساتھ کا بھرپور یقین دلائیے۔ کسی بھی سطح پر شوہر کو یہ شکایت نہ ہو کہ آپ اُن کے کی مشکلات کو نہیں سمجھ رہیں، یا پھر آپ کے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی ہے۔
٭ملازمت جانے کے بعد پریشانی اور محض سوچتے رہنے سے مسائل حل ہونے کے بہ جائے مزید گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے پرسکون ہو کر آگے کا لائحہ عمل تیار کریں۔ ملازمت کا ختم ہو جانا، یقیناً ایک بڑے کرب سے کم نہیں ہوتا، پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی معمول کے اخراجات، فیسیں، بجلی و گیس کے بل کی فکر لاحق ہو جائے۔ ایسی صورت حال میں بدحواسی اور افسردگی کے بہ جائے، خود کو نئی ملازمت کے لیے پرسکون بنائیے۔ اگر شوہر اس مرحلے سے گزر رہے ہیں تو ان کی غم گسار بنیے۔ ہر ملازمت بہترین کارکردگی کی متلاشی ہوتی ہے اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے، جب ہم مکمل طور پر پُراعتماد اور پرسکون ہوں۔ اگر فوری طور پر آپ کے شعبے سے متعلق کوئی ملازمت نہیں مل رہی، تو گزارہ کرنے کے لیے دیگر شعبوں کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے۔ کوئی ایسا کام یا شعبہ، جو آپ کرنا چاہتی تھیں، لیکن نہیں کر پائیں، اس کے لیے یہ بہترین وقت ہے کہ ان شعبوں میں قسمت آزمائی کی جائے۔
٭نئی ملازمت کی تلاش کے دوران اگر مطلوبہ معیار کی ملازمت نہ ملے، تو صرف تلاش میں وقت ضایع کرنے کے بہ جائے کوئی عارضی اور جزوقتی ملازمت کا امکان بھی روشن رکھیں، تاوقتے کہ مطلوبہ معیار یا اپنے رجحان کے مطابق ملازمت نہ مل جائے۔ درحقیقت ملازمت کُل وقتی ہو یا جزقتی، ہر تجربہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
٭آجر ہمیشہ ان امیدواروں کو ملازمت کے لیے منتخب کرتے ہیں، جو محض اپنی اجرت اور تنخواہ میں دل چسپی نہ رکھتے ہوں، بلکہ ادارے کی ترقی کے بھی خواہاں ہوں، لہٰذا انٹرویو کے لیے ان ہی امیدواروں کو طلب کیا جاتا ہے، جن کی ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست متاثر کن ہوتی ہیں۔ ایک اسامی کے لیے بے شمار امیدوار ہوتے ہیں۔ لہٰذا، ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو منفرد اور واضح انداز میں اس طرح پیش کریں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔
٭فی زمانہ بیش تر ادارے ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست پڑھنے سے پہلے امیدوار کے 'سوشل نیٹ ورکنگ' مثلاً فیس بک، ٹوئٹر یا لنکڈ اِن کے پروفائل کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ آپ کے پروفائل میںکیا موجود ہے اور اس کا کیا تاثر پڑ سکتا ہے۔ اس کا ضرور جائزہ لیں، بلکہ اپنا نام یا ای میل گوگل پر تلاش کر کے بھی ضرور دیکھ لیں۔
٭ملازمت ختم ہو جانے سے نئی ملازمت ملنے تک ایک طرف تفکرات کا سیلاب ہوتا ہے، تو دوسری طرف فارغ وقت ہمیں اور زیادہ مایوسی میں دھکیل دیتا ہے۔ خود کو مثبت سمت لانے کے لیے گھر اور بچوں کو وقت دیں۔ اپنی اس فرصت میں بچوں کی پڑھائی اور دیگر مصروفیات میں دل چسپی لی جائے۔ ملازمت کی تلاش کے ساتھ ساتھ میکے اور سسرال میں ملنے جلنے کے لیے بھی اس وقت کو صرف کیا جا سکتا ہے۔ بزرگوں کی خدمت کر کے دعائیں لی جا سکتی ہیں۔ بہت سی ایسی سہیلیاں جن سے کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی۔ ان سے ملا جا سکتا ہے، بھرپور نیند، پسندیدہ کتب کے مطالعے اور دیگر مشاغل کے ذریعے خود کو مایوسی اور تفکرات کے بھنورمیں پُراعتماد بنایا جا سکتا ہے۔
٭دوران ملازمت مصروفیت، گھر، بچوں کی ذمے داریوں میں الجھ کر اکثر اوقات اپنی صحت سے غفلت برتی جاتی ہے۔ بعض اوقات ورزش اور چہل قدمی کے لیے بھی وقت نہیں مل پاتا۔ اس موقع پر اس غفلت کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔
٭کبھی بھی خود کو یا کسی اور کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں، نہ ہی ہر ایک کے سامنے وضاحتیں پیش کریں۔ کسی کو الزام دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، لہٰذا ہر ایک کے سامنے اپنی ملازمت کی کہانی سنانا چھوڑ دیں۔ خود کو بدقسمت نہ سمجھیں، کیوں کہ یہ تمام رویے ہمیں ماضی کے حصار میں قید رکھتے ہیں۔ ملازمت ختم ہو جانے میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں، ہر شخص کی زندگی میں کسی نہ کسی مقام پر یہ مشکل مراحل آتے ہی ہیں۔ لہٰذا ندامت محسوس کرنے کے بہ جائے یہ سوچیں کہ آپ مزید مضبوط ہو رہی ہیں۔ مسائل و مصائب انسان کو ہمت سے جینے کا ہنر سکھاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔
٭زندگی کے ہر معاملے میں اگر ہمیں کچھ بہتر سمجھ نہیں بھی آرہا ہوتا، درحقیقت اس میں رب کریم کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ شاید اس عارضی پریشانی کے بعد شاندار مستقبل آپ کا منتظر ہو۔
٭جب تک ملازمت نہیں مل جاتی، گھر بیٹھے آن لائن روزگار کے مواقع سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیوشن، کوچنگ کلاسز، کوئی ہنر سکھانا، سلائی کڑھائی، کھانا پکانا، منہدی یا شادی کے جوڑوں کی پیکنگ وغیرہ سے اپنے معاشی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
٭ملازمت پیشہ خواتین ہوں یا مرد، روز اول سے یہ بات گرہ سے باندھ لینی چاہیے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ اس لیے کسی بھی غیر متوقع صورت حال کے لیے آمدن کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ایسے آڑے وقت کے لیے بچا کر رکھیں، تاکہ ایسی مشکلات میں کام آسکے۔
بات اگر ایسی خواتین کی ہو، جو معاش کے میدان میں اپنے خاندان کی معاون ہیں، تو وہ بھی ایسے مسئلے میں شدید متاثر ہوتی ہیں، کیوں کہ بہت سے گھرانوں میں میاں، بیوی مل کر گھریلو اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ یعنی بہت سی خواتین صرف شوقیہ نہیں، بلکہ ضرورت کے تحت بھی ملازمتیں کر رہی ہیں۔ ایسے میں اگر گھر میں ایک شخص کی تنخواہ آنا بند ہو جائے، تو یہ پریشان کن بات ہے، لیکن صرف پریشانی مسائل کا حل نہیں ہوتی، بلکہ حد درجہ پریشانی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کر کے مایوسی و یاسیت کا شکار کر دیتی ہے۔ لہٰذا مثبت طرز فکر زندگی کو کام یابی کی جانب گام زن کرتا ہے اور آگے بڑھنے کی جانب راہ نمائی کرتا ہے۔ خدانخواستہ جب کسی خاتون یا اس کے شوہر کی ملازمت ختم ہو جائے، تو اس کو ان نکات پر عمل کر کے اپنے مستقبل میں کام یابی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
٭سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ دونوں کی ملازمت کے نشیب وفراز آپ کے گھریلو ماحول اور ازدواجی زندگی پر اثر انداز نہ ہوں۔ بہت سے گھرانوں میں یہ خواتین کی ملازمت کے مسائل براہ راست گھر پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر اس کے نتائج خاصے تلخ نکلتے ہیں۔
٭ اگر یہ مشکل وقت آپ کے شوہر پر آیا ہے، تو اپنے نصف بہتر کو زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پہلے سے زیادہ مضبوط ساتھ کا بھرپور یقین دلائیے۔ کسی بھی سطح پر شوہر کو یہ شکایت نہ ہو کہ آپ اُن کے کی مشکلات کو نہیں سمجھ رہیں، یا پھر آپ کے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی ہے۔
٭ملازمت جانے کے بعد پریشانی اور محض سوچتے رہنے سے مسائل حل ہونے کے بہ جائے مزید گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے پرسکون ہو کر آگے کا لائحہ عمل تیار کریں۔ ملازمت کا ختم ہو جانا، یقیناً ایک بڑے کرب سے کم نہیں ہوتا، پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی معمول کے اخراجات، فیسیں، بجلی و گیس کے بل کی فکر لاحق ہو جائے۔ ایسی صورت حال میں بدحواسی اور افسردگی کے بہ جائے، خود کو نئی ملازمت کے لیے پرسکون بنائیے۔ اگر شوہر اس مرحلے سے گزر رہے ہیں تو ان کی غم گسار بنیے۔ ہر ملازمت بہترین کارکردگی کی متلاشی ہوتی ہے اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے، جب ہم مکمل طور پر پُراعتماد اور پرسکون ہوں۔ اگر فوری طور پر آپ کے شعبے سے متعلق کوئی ملازمت نہیں مل رہی، تو گزارہ کرنے کے لیے دیگر شعبوں کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے۔ کوئی ایسا کام یا شعبہ، جو آپ کرنا چاہتی تھیں، لیکن نہیں کر پائیں، اس کے لیے یہ بہترین وقت ہے کہ ان شعبوں میں قسمت آزمائی کی جائے۔
٭نئی ملازمت کی تلاش کے دوران اگر مطلوبہ معیار کی ملازمت نہ ملے، تو صرف تلاش میں وقت ضایع کرنے کے بہ جائے کوئی عارضی اور جزوقتی ملازمت کا امکان بھی روشن رکھیں، تاوقتے کہ مطلوبہ معیار یا اپنے رجحان کے مطابق ملازمت نہ مل جائے۔ درحقیقت ملازمت کُل وقتی ہو یا جزقتی، ہر تجربہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
٭آجر ہمیشہ ان امیدواروں کو ملازمت کے لیے منتخب کرتے ہیں، جو محض اپنی اجرت اور تنخواہ میں دل چسپی نہ رکھتے ہوں، بلکہ ادارے کی ترقی کے بھی خواہاں ہوں، لہٰذا انٹرویو کے لیے ان ہی امیدواروں کو طلب کیا جاتا ہے، جن کی ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست متاثر کن ہوتی ہیں۔ ایک اسامی کے لیے بے شمار امیدوار ہوتے ہیں۔ لہٰذا، ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو منفرد اور واضح انداز میں اس طرح پیش کریں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔
٭فی زمانہ بیش تر ادارے ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست پڑھنے سے پہلے امیدوار کے 'سوشل نیٹ ورکنگ' مثلاً فیس بک، ٹوئٹر یا لنکڈ اِن کے پروفائل کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ آپ کے پروفائل میںکیا موجود ہے اور اس کا کیا تاثر پڑ سکتا ہے۔ اس کا ضرور جائزہ لیں، بلکہ اپنا نام یا ای میل گوگل پر تلاش کر کے بھی ضرور دیکھ لیں۔
٭ملازمت ختم ہو جانے سے نئی ملازمت ملنے تک ایک طرف تفکرات کا سیلاب ہوتا ہے، تو دوسری طرف فارغ وقت ہمیں اور زیادہ مایوسی میں دھکیل دیتا ہے۔ خود کو مثبت سمت لانے کے لیے گھر اور بچوں کو وقت دیں۔ اپنی اس فرصت میں بچوں کی پڑھائی اور دیگر مصروفیات میں دل چسپی لی جائے۔ ملازمت کی تلاش کے ساتھ ساتھ میکے اور سسرال میں ملنے جلنے کے لیے بھی اس وقت کو صرف کیا جا سکتا ہے۔ بزرگوں کی خدمت کر کے دعائیں لی جا سکتی ہیں۔ بہت سی ایسی سہیلیاں جن سے کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی۔ ان سے ملا جا سکتا ہے، بھرپور نیند، پسندیدہ کتب کے مطالعے اور دیگر مشاغل کے ذریعے خود کو مایوسی اور تفکرات کے بھنورمیں پُراعتماد بنایا جا سکتا ہے۔
٭دوران ملازمت مصروفیت، گھر، بچوں کی ذمے داریوں میں الجھ کر اکثر اوقات اپنی صحت سے غفلت برتی جاتی ہے۔ بعض اوقات ورزش اور چہل قدمی کے لیے بھی وقت نہیں مل پاتا۔ اس موقع پر اس غفلت کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔
٭کبھی بھی خود کو یا کسی اور کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں، نہ ہی ہر ایک کے سامنے وضاحتیں پیش کریں۔ کسی کو الزام دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، لہٰذا ہر ایک کے سامنے اپنی ملازمت کی کہانی سنانا چھوڑ دیں۔ خود کو بدقسمت نہ سمجھیں، کیوں کہ یہ تمام رویے ہمیں ماضی کے حصار میں قید رکھتے ہیں۔ ملازمت ختم ہو جانے میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں، ہر شخص کی زندگی میں کسی نہ کسی مقام پر یہ مشکل مراحل آتے ہی ہیں۔ لہٰذا ندامت محسوس کرنے کے بہ جائے یہ سوچیں کہ آپ مزید مضبوط ہو رہی ہیں۔ مسائل و مصائب انسان کو ہمت سے جینے کا ہنر سکھاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔
٭زندگی کے ہر معاملے میں اگر ہمیں کچھ بہتر سمجھ نہیں بھی آرہا ہوتا، درحقیقت اس میں رب کریم کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ شاید اس عارضی پریشانی کے بعد شاندار مستقبل آپ کا منتظر ہو۔
٭جب تک ملازمت نہیں مل جاتی، گھر بیٹھے آن لائن روزگار کے مواقع سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیوشن، کوچنگ کلاسز، کوئی ہنر سکھانا، سلائی کڑھائی، کھانا پکانا، منہدی یا شادی کے جوڑوں کی پیکنگ وغیرہ سے اپنے معاشی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
٭ملازمت پیشہ خواتین ہوں یا مرد، روز اول سے یہ بات گرہ سے باندھ لینی چاہیے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ اس لیے کسی بھی غیر متوقع صورت حال کے لیے آمدن کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ایسے آڑے وقت کے لیے بچا کر رکھیں، تاکہ ایسی مشکلات میں کام آسکے۔