کیا صوبائی حکومت جانے والی ہے

گورنر بلوچستان کا الیکشن کی سیاست سے علیحدگی کا فیصلہ

پروپیگنڈہ کرنے والےغلط فہمی میں نہ رہیں,وزیراعلیٰ بلوچستان فوٹو : فائل

بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں آج کل تبدیلی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ گورنر راج کا نفاذ اور بعض کا خیال ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے اندر سے تبدیلی آئے گی تاہم بعض حلقے ان دونوں تجاویز سے اختلاف کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب حکومت کے پاس کم عرصہ رہ گیا ہے اس لئے تبدیلی ممکن نہیں۔

گزشتہ دنوں بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی نے صحافیوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے عبوری حکم پر حکم امتناعی لے لے اور نظر ثانی کی اپیل دائر کرے کیونکہ آگے چل کر صورتحال انتہائی خراب ہوسکتی ہے جس کے نتائج سنگین برآمد ہونگے۔ گورنر بلوچستان نواب مگسی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اُنہوں نے صوبائی حکومت کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ گورنر بلوچستان نواب مگسی نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ الیکشن کی سیاست سے ریٹائرڈ ہورہے ہیں تاکہ نئے آنے والوں کو موقع ملے۔

لیکن اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ بعض سینئر سیاستدانوں پر مشتمل ہم خیال گروپ کی سرپرستی کرتے رہیں گے۔ گورنر بلوچستان نواب مگسی نے نگران وزیراعظم بننے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اخباری خبریں ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں آزادی کی اصطلاع سمجھ نہیں آئی، بلوچستان کے تمام قبائل کسی نہ کسی صورت میں آج بھی حکومت میں شامل ہیں ، تاہم اُنہوں نے صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے ناراض رہنمائوں کو منانے کیلئے ٹاسک دیئے جانے کی خبر کی بھی تردید کردی۔ گورنر نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ آئندہ الیکشن میں صوبے میں خون خرابہ ہوگا۔ صوبے میں الیکشن کیلئے فضاء سازگار ہے۔

گورنر بلوچستان نواب مگسی کی جانب سے الیکشن کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کو سیاسی حلقوں میں بڑی حیرانی سے دیکھا جارہا ہے، بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ گورنر بلوچستان نواب مگسی کو شاید بیرون ملک ان کی خواہش پر مستقبل میں سفیر بنایا جائے، تاہم یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا ۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں آئندہ ایک دو ہفتے انتہائی اہم ہیں، ہو سکتا ہے بلوچستان اسمبلی میں پی پی پی کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق) یا جمعیت علماء اسلام (ف) دونوں میں سے کوئی ایک اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کرے، بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام (ف) نے فیصلہ بھی کرلیا ہے۔


کیونکہ20 ویں ترمیم کے بعد صوبے میں وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے نگران سیٹ اپ تشکیل پائے گا اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر آئندہ نگران سیٹ اپ میں بھی اپنے لوگوں کو کھپا سکے، اس حوالے سے جمعیت کی قیادت نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی سے بھی ملاقات کی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی قیادت بھی اس حوالے سے مشاورت میں لگی ہوئی ہے۔

کیونکہ (ق) لیگ کے بعض ارکان وزارتیں چھوڑ کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر خزانہ میر عاصم کرد گیلو نے اسلام آباد میں پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل سید مشاہد حسین سے بھی ملاقات کی اور اس حوالے سے مشاورت کی ہے جبکہ (ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین نے سابق وفاقی وزیر اور رکن صوبائی اسمبلی سردار یار محمد رند سے بھی ملاقات کی۔ سیاسی رابطوں میں تیزی اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ بلوچستان میں آئندہ چند ہفتے انتہائی اہم ہیں اور کوئی بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔

گورنر بلوچستان نواب مگسی کے چھوٹے بھائی نوابزادہ طارق مگسی جو کہ بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں نے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کیلئے باقاعدہ درخواست دے دی ہے جو کہ بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ کو موصول ہوگئی ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ نوابزادہ طارق مگسی آزاد حیثیت سے الیکشن میں کامیاب ہوکر آئے تھے ان کی ہمدردیاں (ق) لیگ کے ساتھ ہیں۔

بعض حلقے وزیراعلیٰ اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے درمیان کشیدگی کو بھی اہم سمجھ رہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ اسپیکر کے خلاف بھی حکومتی سطح پر تحریک عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے جبکہ پی پی پی کے صوبائی صدر اور صوبائی وزیر میر صادق عمرانی بھی موجودہ صوبائی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے اس کی فوری برطرفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق صادق عمرانی پی پی پی کے پرانے جیالے ہیں اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں پارٹی کے مقتدر لوگوں کی آشیر باد حاصل ہوسکتی ہے اس لئے وہ اپنی ہی مخلوط صوبائی حکومت کے خلاف بیان بازی کررہے ہیں اور اس کی برطرفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے نام نہاد سیاسی جماعتوں کے سیاستدان اور قبائلی افراد اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ انہیں سیاست سے دور کردیں گے، میں نے اپنے عوام کے حقوق کیلئے ہمیشہ جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا، اس لئے مجھے کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں اگر مجھ پر بدعنوانی کے الزامات ثابت ہوجائیں تو پھانسی کیلئے تیار ہوں۔ اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں عوام کی خدمت سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔
Load Next Story