دل والے ٹریفک پولیس اہلکار
پولیس اہلکاروں کی عزت و احترام کا خیال رکھیں اور اپنی کوتاہی کو دور کرکے قانون کی بالادستی میں اپنا کردار ادا کریں۔
کراچی میں ٹریفک پولیس اور شہریوں کے درمیان ایک عجیب قسم کی رسہ کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں شہری پولیس کے حوالے سے اپنے تندوتیز خیالات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں تو کہیں پولیس اہلکار قانون کی عدم پاسداری کا رونا روتے ہیں۔ شہریوں کی پریشانیاں اپنی جگہ اہم اور قابل غور ہوتی ہیں مگر بعض اوقات ٹریفک کنٹرول کرنے والے بھی عجیب مصلحت پسندیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان دونوں صورتحال پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ٹریفک کے اژدھام میں کون کس حد تک قصور وار ہے اور کون بری الزمہ ہے۔
کچھ روز قبل ٹریفک پولیس حوالدار سے دوران بات چیت کچھ باتیں سامنے آئیں، حوالدار نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ لوگوں کی مجبوری دیکھ کر ہمیں بھی ان پر ترس آتا ہے اور ہم ہر کسی کا چالان نہیں کرتے اور اگر کر دیں تو اپنے (آمدنی) سے اسے چالان جمع کرانے کے لئے پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ آئی آئی چند ریگر روڈ پر ٹریفک کے انتظامات سنبھالنے والے اس پولیس حوالدار نے مزید کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہلکاروں نے جس کو روک لیا اس کا چالان ہونا 99 فیصد یقینی ہے۔ میں نے پھر ایک بار حیرت سے پوچھا کہ اگرچہ اس کے پاس تمام چیزیں مکمل ہوں تو بھی؟ اس پر انہوں نے کہا اگرچہ سب کچھ ہو مگر چالان کرنا ہوگا، انہوں نے بڑا عجیب و غریب سا انکشاف کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اگر کسی کا چالان کاٹنا ہو مگر اُس کے پاس تمام ہی سامان پورا ہو تو پھر چالان کاٹنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے اہلکار کے ہاتھ کے اشارے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہنستے ہوئے ان کا یہ انداز شفقت چیمہ کے جیسا لگا تھا۔
اہلکار نے مزید بتایا کہ دن بھر چالان کاٹنے کا ایک ہدف مکمل کرنا ہوتا ہے، بس اُسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہم دن بھر کوشش کرتے ہیں، اگر ہدف حاصل نہ ہو تو پھر افسران بالا مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کہیں ہم نے لین دین نہ کرلیا ہو۔ ٹریفک پولیس اہلکار سے میں نے ایک آخری سوال کیا کہ بچنے کا حل کیا ہے؟ تو انہوں نے سادہ سے انداز میں کہا ''اچھے طریقے سے معذرت کرلیں اور پولیس اہلکاروں کی عزت و احترام کا خیال رکھیں اور اپنی کوتاہی کو دور کرکے قانون کی بالا دستی میں اپنا کردار ادا کریں۔
قریب کی مسجد میں نماز ادا کرکے فارغ ہوئے تو گیٹ پر ایک ٹریفک پولیس سب انسپیکٹر سے ملاقات ہوگئی۔ مہندی کے رنگ میں بھیگی ہوئی خوبصورت سنہری داڑھی والے اہلکار سے کچھ شناسائی سی محسوس ہوئی، بات گھومتے پھرتے ٹریفک قوانین پر آئی تو ان سے سوال ہی کرلیا کہ پولیس اہلکار تنگ کرتے ہیں تو وہ مسکرائے اور کہا تنگ تو عوام ہمیں کرتی ہے، عوام کو چاہئیے کہ اپنی گاڑی کو بہتر دیکھ بھال کے ساتھ درست حالت میں رکھیں اور ساتھ میں ڈرائیونگ لائسنس بھی بنوالیں۔ ان کی باتوں میں یقینًا ایک نصیحت تھی۔ لائسنس کے حوالے سے وہ گویا ہوئے کہ آپ کو لرنگ لائسنس ملے گا، جو کہ ایک سال تک ہوتا ہے اس ایک سال کے دوران آپ اپنا لائسنس بنوالیں۔
روز مرہ کی زندگی میں نہ جانے ہمیں کتنی بار باہر سڑک پر گاڑی لانی پڑتی ہے۔ سفر کی مشکلات تو ہوتی ہیں کہ مگر جب راستے میں کوئی پولیس اہلکار روک کر ہماری گاڑی سے متعلق مختلف مشکل سوالات کی بوچھاڑ کرتا ہے تو اس مشکل سفر میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ٹریفک پولیس کے سینئر افسر کی بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ضرورت ہے قانون کے رکھوالوں سے پنگا لینے کی، اپنے کاغذات مکمل اپنے پاس رکھیں اور اپنی مشکلات کو آسان سے آسان تر بنائیں، مگر ایک عام شہری کے ناطے یہ بات بھی نا قابل برداشت ہے کہ پولیس اہلکار جسے ہاتھ کے اشارے سے روک لے پھر اس شخص کا بچنا محال ہے کہ وہ یا تو چالان کٹوائے یا پھر مبینہ طور پر اہلکار کی جیب گرم کرے۔
گذشتہ دنوں اپنے داخلے کے سلسلے میں نیشنل ہائی وے کی جانب جانا ہوا، میں موٹر سائیکل لے کر بغیر کاغذات کے جب نکلا تو بھینس کالونی موڑ پر 8 اہلکاروں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر فوراً روک لیا، میں نے اپنا تعارف بھی کروایا اور اپنی مجبوری سے بھی آگاہ کیا تاہم وہ ٹس سے مس نہیں ہوا اور آخر کار ایک اہلکار نے میرے پاس صحافتی کارڈ دیکھتے ہوئے کہا ہمارے بھی تعلقات صحافیوں سے ہیں، خرچہ پانی تو دینا پڑے گا، ان کی بات سن کرمجھے ایک دوست کی کہانی یاد آگئی، ایک بار انہیں کسی اہلکار نے روکا تو انہوں نے اپنی جیب سے 50 کا نوٹ نکالا اور ان کے ہاتھ میں تھما کر چلتا بنا، میں حیران ہوا کہ جب سب کچھ مکمل ہے تو یہ کیوں کیا؟ وہ کہنے لگے میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں ان کو اپنے کاغذات دکھانے کے باوجود بھی یہ پیسے دے کر جاتا اس لئے چپ چاپ دیئے اور اپنا وقت بچالیا۔
آخر غلطی کہاں ہورہی ہے؟ یہ بات نہ صرف عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا۔ وہ کس کو روک رہے ہیں اور کسے چھوڑ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی اتنے عرصے تک اپنے کاغذات مکمل نہیں کرواتا؟ کیا قانون کو چکمہ دینا اتنا آسان ہے؟ مذکورہ پولیس سب انسپیکٹر نے ایک اور بات بھی بتائی جسے آخر میں بیان کرنا ضروری ہے کہ کلفٹن کے علاقے میں ایک اچھے پولیس افسر آئے ہیں جن کے بعد وہاں کا عملہ پوری دیانت داری سے کام سر انجام دے رہا ہے اس لئے بہتر ہے کہ وہاں سے اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیا جائے تاکہ جب آپ کے کاغذات مکمل ہوں گے تو آپ قانون کو چکما نہ دیں بلکہ ان کا تعاون کریں گے، اسی طرح لوٹ کھوسٹ میں ملوث اہلکاروں کے بارے میں بھی کوئی مکمل لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ ہماری پولیس کا معیار بلند اور شفاف ہو سکے۔
[poll id="744"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
کچھ روز قبل ٹریفک پولیس حوالدار سے دوران بات چیت کچھ باتیں سامنے آئیں، حوالدار نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ لوگوں کی مجبوری دیکھ کر ہمیں بھی ان پر ترس آتا ہے اور ہم ہر کسی کا چالان نہیں کرتے اور اگر کر دیں تو اپنے (آمدنی) سے اسے چالان جمع کرانے کے لئے پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ آئی آئی چند ریگر روڈ پر ٹریفک کے انتظامات سنبھالنے والے اس پولیس حوالدار نے مزید کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہلکاروں نے جس کو روک لیا اس کا چالان ہونا 99 فیصد یقینی ہے۔ میں نے پھر ایک بار حیرت سے پوچھا کہ اگرچہ اس کے پاس تمام چیزیں مکمل ہوں تو بھی؟ اس پر انہوں نے کہا اگرچہ سب کچھ ہو مگر چالان کرنا ہوگا، انہوں نے بڑا عجیب و غریب سا انکشاف کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اگر کسی کا چالان کاٹنا ہو مگر اُس کے پاس تمام ہی سامان پورا ہو تو پھر چالان کاٹنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے اہلکار کے ہاتھ کے اشارے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہنستے ہوئے ان کا یہ انداز شفقت چیمہ کے جیسا لگا تھا۔
اہلکار نے مزید بتایا کہ دن بھر چالان کاٹنے کا ایک ہدف مکمل کرنا ہوتا ہے، بس اُسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہم دن بھر کوشش کرتے ہیں، اگر ہدف حاصل نہ ہو تو پھر افسران بالا مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کہیں ہم نے لین دین نہ کرلیا ہو۔ ٹریفک پولیس اہلکار سے میں نے ایک آخری سوال کیا کہ بچنے کا حل کیا ہے؟ تو انہوں نے سادہ سے انداز میں کہا ''اچھے طریقے سے معذرت کرلیں اور پولیس اہلکاروں کی عزت و احترام کا خیال رکھیں اور اپنی کوتاہی کو دور کرکے قانون کی بالا دستی میں اپنا کردار ادا کریں۔
قریب کی مسجد میں نماز ادا کرکے فارغ ہوئے تو گیٹ پر ایک ٹریفک پولیس سب انسپیکٹر سے ملاقات ہوگئی۔ مہندی کے رنگ میں بھیگی ہوئی خوبصورت سنہری داڑھی والے اہلکار سے کچھ شناسائی سی محسوس ہوئی، بات گھومتے پھرتے ٹریفک قوانین پر آئی تو ان سے سوال ہی کرلیا کہ پولیس اہلکار تنگ کرتے ہیں تو وہ مسکرائے اور کہا تنگ تو عوام ہمیں کرتی ہے، عوام کو چاہئیے کہ اپنی گاڑی کو بہتر دیکھ بھال کے ساتھ درست حالت میں رکھیں اور ساتھ میں ڈرائیونگ لائسنس بھی بنوالیں۔ ان کی باتوں میں یقینًا ایک نصیحت تھی۔ لائسنس کے حوالے سے وہ گویا ہوئے کہ آپ کو لرنگ لائسنس ملے گا، جو کہ ایک سال تک ہوتا ہے اس ایک سال کے دوران آپ اپنا لائسنس بنوالیں۔
روز مرہ کی زندگی میں نہ جانے ہمیں کتنی بار باہر سڑک پر گاڑی لانی پڑتی ہے۔ سفر کی مشکلات تو ہوتی ہیں کہ مگر جب راستے میں کوئی پولیس اہلکار روک کر ہماری گاڑی سے متعلق مختلف مشکل سوالات کی بوچھاڑ کرتا ہے تو اس مشکل سفر میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ٹریفک پولیس کے سینئر افسر کی بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ضرورت ہے قانون کے رکھوالوں سے پنگا لینے کی، اپنے کاغذات مکمل اپنے پاس رکھیں اور اپنی مشکلات کو آسان سے آسان تر بنائیں، مگر ایک عام شہری کے ناطے یہ بات بھی نا قابل برداشت ہے کہ پولیس اہلکار جسے ہاتھ کے اشارے سے روک لے پھر اس شخص کا بچنا محال ہے کہ وہ یا تو چالان کٹوائے یا پھر مبینہ طور پر اہلکار کی جیب گرم کرے۔
گذشتہ دنوں اپنے داخلے کے سلسلے میں نیشنل ہائی وے کی جانب جانا ہوا، میں موٹر سائیکل لے کر بغیر کاغذات کے جب نکلا تو بھینس کالونی موڑ پر 8 اہلکاروں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر فوراً روک لیا، میں نے اپنا تعارف بھی کروایا اور اپنی مجبوری سے بھی آگاہ کیا تاہم وہ ٹس سے مس نہیں ہوا اور آخر کار ایک اہلکار نے میرے پاس صحافتی کارڈ دیکھتے ہوئے کہا ہمارے بھی تعلقات صحافیوں سے ہیں، خرچہ پانی تو دینا پڑے گا، ان کی بات سن کرمجھے ایک دوست کی کہانی یاد آگئی، ایک بار انہیں کسی اہلکار نے روکا تو انہوں نے اپنی جیب سے 50 کا نوٹ نکالا اور ان کے ہاتھ میں تھما کر چلتا بنا، میں حیران ہوا کہ جب سب کچھ مکمل ہے تو یہ کیوں کیا؟ وہ کہنے لگے میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں ان کو اپنے کاغذات دکھانے کے باوجود بھی یہ پیسے دے کر جاتا اس لئے چپ چاپ دیئے اور اپنا وقت بچالیا۔
آخر غلطی کہاں ہورہی ہے؟ یہ بات نہ صرف عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا۔ وہ کس کو روک رہے ہیں اور کسے چھوڑ رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی اتنے عرصے تک اپنے کاغذات مکمل نہیں کرواتا؟ کیا قانون کو چکمہ دینا اتنا آسان ہے؟ مذکورہ پولیس سب انسپیکٹر نے ایک اور بات بھی بتائی جسے آخر میں بیان کرنا ضروری ہے کہ کلفٹن کے علاقے میں ایک اچھے پولیس افسر آئے ہیں جن کے بعد وہاں کا عملہ پوری دیانت داری سے کام سر انجام دے رہا ہے اس لئے بہتر ہے کہ وہاں سے اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیا جائے تاکہ جب آپ کے کاغذات مکمل ہوں گے تو آپ قانون کو چکما نہ دیں بلکہ ان کا تعاون کریں گے، اسی طرح لوٹ کھوسٹ میں ملوث اہلکاروں کے بارے میں بھی کوئی مکمل لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ ہماری پولیس کا معیار بلند اور شفاف ہو سکے۔
[poll id="744"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس