امریکا یاترائیں

سیر و سیاحت ہمارے سربراہان مملکت و حکومت کا محبوب و مرغوب ترین مشغلہ رہا ہے۔


Shakeel Farooqi November 03, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: سیر و سیاحت ہمارے سربراہان مملکت و حکومت کا محبوب و مرغوب ترین مشغلہ رہا ہے۔ تمام اختلافات کے باوجود یہ سارے کے سارے اس نکتہ پر ہمیشہ متفق رہے ہیں کہ:

سیر کرو دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

مزے کی بات یہ ہے کہ مقدر کے ان سکندروں کو یہ زبردست سہولت اپنی جیب سے ایک پھوٹی کوڑی خرچ کیے بغیر سرکاری خزانے سے بالکل مفت میسر آتی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس معاملے میں ان سے کوئی باز پرس بھی کرسکے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ یہ غیر ملکی دورے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان غیر ملکی دوروں میں امریکا کے دورے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے جس کی داغ بیل پاکستان کے سب سے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے ڈالی تھی۔ تب سے لے کر آج تک یہ روایت برقرار ہے اور ہمارے تمام سربراہان مملکت خواہ اور کسی معاملے میں اپنے پیش رو وزیراعظم لیاقت علی خان کی پیروی کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں امریکا نوازی میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں ضرور سرگرم اور پیش پیش ہیں۔

رہی بات ہمارے موجودہ وزیراعظم کی تو وہ اپنے ذوق سیاحت کا لوہا منوانے کے لیے پوری طرح تلے ہیں اور کوئی عجب نہیں کہ وہ اس سلسلے میں عالمی ریکارڈ بھی قائم کردیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک تشریف لے گئے تھے۔ گستاخی معاف امریکا کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے سے ہماری نفسیاتی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ گویا امریکا ہمارا مائی باپ ہے۔ امریکا کے حوالے سے ہمارا حال یہ ہے کہ بقول میر:

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے لیے
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

امریکا کا یہ رویہ اگرچہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ وہ اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے وقت ہم سے دوستی گانٹھتا ہے اور پھر اس کے بعد ہمیں یکسر فراموش کردیتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمراں اس کے ابرو کے ایک اشارے پر جان چھڑکنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ امریکا ہمارے روایتی اور ازلی دشمن بھارت پر اتنا مہربان ہوگیا کہ اس کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ بھی کرلیا جب کہ اس معاملے میں وہ ہمیں گھاس بھی ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ہماری خواہش کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا رہا ہے۔

ہم نے امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، حتیٰ کہ افغانستان میں سوویت یونین کے ساتھ ٹکر لے کر اپنے وجود تک کو خطرے میں ڈال دیا مگر اس عظیم خدمت کے عوض امریکیوں کی جانب سے ہمیں محض مونگ پھلی کے چند دانوں کے سوائے بھلا اور کیا ملا؟ وہ ایسا نازک وقت تھا جب امریکا کی جنگ لڑنے کے صلے میں ہمیں ایف 16 ہوائی جہاز مفت ملنے چاہیے تھے۔ پھر جیسے ہی افغان جہاد ختم ہوا اور امریکا کا کام نکل گیا تو امریکا نے حسب عادت اپنی اوقات دکھادی اور ذرا سا بھی وقت ضایع کیے بغیر ہمارے ایٹمی پروگرام کو بہانہ بناتے ہوئے ہمارے وطن عزیز پر معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ ادھر ہمارا یہ حال تھا کہ:

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

کے مصداق ہم امریکا سے خریدے گئے ایف 16لڑاکا ہوائی جہازوں کی قیمت ادا کرتے رہے حالانکہ ابھی ان کی ترسیل بھی نہیں ہوئی تھی۔

اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کا دور حکمرانی آیا اور 9/11 کے سانحے کے بعد امریکا کی محض ایک ٹیلی فون کال پر ہم نے اپنی گردن جھکادی اور عرض کیا کہ:

سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

ہم امریکا کو خوش کرنے کے لیے اس مرتبہ اس حد تک فرشِ راہ بن گئے کہ ہم نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے اسے نہ صرف اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے دی بلکہ اپنے ہوائی اڈے بھی مفت فراہم کردیے۔ گویا:

تُو مشقِ نازک خونِ دو عالم میری گردن پر

ہمیں ڈرایا گیا کہ اگر ہم نے امریکا کا کہا نہ مانا تو ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا اور ہماری قیادت نے اس گیدڑ بھبکی کے آگے فوراً گھٹنے ٹیک دیے حالانکہ ہمارے سامنے امریکا کے آڑے وقت میں اس سے اپنے سخت مطالبات منوانے کی دو بین الاقوامی تاریخی مثالیں موجود تھیں۔ نمبر ایک پہلی خلیجی جنگ کے موقع پر امریکیوں کا ساتھ دینے کے عوض مصر کے حکمران حسنی مبارک کا مصر کے تمام قرضے معاف کرنے کا مطالبہ اور عراق پر امریکی حملے کے موقر پر ترکی سے لاجسٹک اور فضائی مدد طلب کرنے پر ترکی کی پارلیمان کی جانب سے 25 بلین ڈالر کا زرِ تعاون کی طلبی کا مطالبہ جس سے انکار کے بعد ترقی پر امریکا نے نہ صرف کوئی قیامت نہیں ڈھائی بلکہ وہ آج بھی ترکی کا دوست ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا کے اختتام پر جاری ہونے والا طویل مشترکہ اعلانیہ دراصل لفاظی کا شاہکار اور بے وزن الفاظ کا گورکھ دھندا ہے جس میں تنازعہ کشمیر جیسے انتہائی بنیادی مسئلے کا صرف رعایت کی حد تک تذکرہ ہے اور اس بات کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، یعنی کشمیر کا ذکر کرکے پاکستان کو خوش بھی کردیا جائے اور ایسی کوئی بات بھی نہ کہی جائے جس سے امریکیوں کے بھارتی دوست خفا ہوں۔

پاکستان اور امریکا کے تعلقات زیادہ تر سیکیورٹی معاملات تک ہی محدود ہیں اور وزیر اعظم پاکستان کی حالیہ امریکا یاترا سے بھی اس خیال کو تقویت حاصل ہوئی ہے کیونکہ صدر اوباما کا سارا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان کو افغانی طالبان کو کسی نہ کسی طرح مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے۔ امریکی خارجہ پالیسی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ خارجہ امور کو زیادہ تر پینٹا گون میں ہی طے کیا جاتا ہے اور امریکا کے جن ممالک کے ساتھ تعلقات سیکیورٹی کے حوالے سے ہوتے ہیں ان کے فیصلے پینٹا گون میں ہی کیے جاتے ہیں۔ سو حالیہ دورہ امریکا میں وزیر اعظم پاکستان کو پینٹا گون بھی لے جایا گیا جس سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔

اگرچہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا حالیہ دور امریکا کوئی خاص یا بڑے نتائج حاصل نہیں کرسکا تاہم اسے بے مقصد یا ناکام کہنا بھی سراسر زیادتی ہوگی۔ اس دورے کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور بلاشبہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ دونوں ممالک کے درمیان زیادہ اہم اور دوررس فیصلے تب ہوں گے جب پاکستان کی عسکری قیادت اس ملک کا دورہ کرے گی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت کا پلہ بہت بھاری ہے کیونکہ اس نے ضرب عضب کی صورت میں دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا ہے اور ان کے خلاف ایسا زبردست اور کامیاب آپریشن کیا ہے جو امریکی گزشتہ چودہ سال میں افغانستان میں کرکے نہیں دکھا سکے۔

چنانچہ اہل پاکستان ہی کی نہیں بلکہ امریکیوں اور پوری دنیا کی نظریں میاں نواز شریف سے زیادہ اب جنرل راحیل شریف کی امریکا یاترا پر مرکوز ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔