ایک تھے عمران خان
پاکستانی سیاست میں پہلی بار طلاق نے اپنا رنگ دکھایا ہے
PARIS:
پاکستانی سیاست میں پہلی بار طلاق نے اپنا رنگ دکھایا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں طلاق کو مکروہ ترین بلکہ بدترین حلال عمل کہا جاتا ہے یعنی حلال تو ہے مگر برا اور ناپسندیدہ حلال اور جب یہ حلال پاکستانی سیاست کے کسی نازک موڑ پر سامنے آ جائے تو پھر یہ صرف برا اور ناپسندیدہ حلال ہی نہیں رہتا بلکہ سیاست کے دین میں یہ حرام بھی ہو جاتا ہے اور سیاسی طلاق کو حرام ہوتے ہم نے خود دیکھا ہے اور جن پر یہ طلاق اثر انداز ہوئی ہے انھوں نے بھگتی بھی ہے یعنی طلاق والی پارٹی کے کارکن اور لیڈر اس طلاق کی زد میں بہت نقصان میں رہے ہیں یعنی عین الیکشن کے موقع پر پارٹی لیڈر نے اپنی تازہ ترین بیوی کو طلاق دے دی اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی کہ کارکن مطمئن ہو جاتے اور اس طلاق کا دفاع کر سکتے۔
سب کچھ پارٹی اور کارکنوں سے بالا بالا ہو گیا اور وہ بھی عوام کی طرح اس حادثے میں پھنس گئے۔ یہ پہلی ایسی طلاق ہے جس نے طلاق دینے والے سیاستدان کو بظاہر نہیں اندر سے پریشان کر دیا ہو اور ووٹ اس کے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہوں۔ پاکستانی سیاست میں اس سے بڑی سیاسی حماقت نہیں دیکھی کہ الیکشن جاری ہو اور اس میں طلاق وغیرہ میں ملوث جماعت بہت بلکہ بہت اچھی پوزیشن میں ہو اور وہ طلاق کے خود ساختہ سکینڈل میں خوامخواہ ملوث ہو جائے اور اپنا الیکشن گنوا دے اور صرف یہی کہا جا سکے کہ وہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہی تھی۔
ثقہ پاکستانی اور سنجیدہ سیاستدان پہلے ہی عمران خان سے بدکے ہوئے تھے۔ عمران لاکھ پاکستانی سہی لیکن اس کا کلچر غیر پاکستانی یا نیم پاکستانی تھا۔ میانوالی کے بے تکلف خطے کے عمران خان نیازی نے پہلے تو برطانیہ کے ایک نیم شاہی خاندان پر ہاتھ مارا اور ان کی بیٹی عقد میں لے لی۔ برطانیہ کے رئیس ترین یہودی گولڈ اسمتھ کی بیٹی بڑے صبر کے ساتھ ایک قطعاً نامانوس کلچر میں شادی گزارتی رہی لیکن کب تک۔ وہ اپنے ہاتھ کی میل سے عمران خان کو پاکستان کے ایک اونچے اور پوش علاقے میں آباد کر کے واپس چلی گئی، اپنے دو بیٹوں کے ساتھ۔ جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی رہیں گے اور پاکستانی خاندان کے ساتھ تعلق بھی نبھائیں گے، یہ دونوں برطانوی شہریت کے ساتھ اپنے ننھیال میں مقیم ہیں اور بے حد آسودہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
عمران خان ان سے اور وہ عمران خان سے ملتے جلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ان کی ماں کو بھی طلاق ہو گئی تھی۔ عمران نے بعد میں ایک برطانوی پاکستانی خاتون سے شادی کر لی جو سابقہ شوہر سے اگرچہ بچوں کی ماں تھی لیکن اپنی بہتر شکل و صورت کی وجہ سے برطانیہ میں وقت بسر کر رہی تھی۔ اس کی سابقہ شوہر سے بھی جو اولاد تھی اس کے پاس تھی۔
عمران خان کی یہ پوری اسٹائل کی شادی زیادہ دیر نہ چلی اور عین ایسے وقت طلاق ہوئی جس پر گماں گزرتا ہے کہ اس میں کسی حریف سیاسی جماعت کا بھی ہاتھ تھا جو عمران کا الیکشن ختم یا کمزور کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس میں کامیاب رہی۔ بات صرف الیکشن کی نہیں عمران خان بذات خود سیاست میں دخل کے باوجود بے دخل رہے البتہ سیاست کی دنیا میں قحط الرجال نے ان کو زندہ کیا اور وہ ایک قومی لیڈر بن کر سامنے آئے۔ وہ ایک سیاسی قوت بن کر سیاست میں نمودار ہوئے۔
یہ خوش قسمت پاکستانی کرکٹ میں بڑا نام پیدا کرنے میں کامیاب رہا اور اب جب سیاست میں آیا تو یہاں بھی وہ ایک خطرناک باؤلر بن کر سیاست کرنے لگا۔ سیاسی مخالفین کو اس نے خاصا پریشان کیا لیکن ایک تو اس کا ہردم بدلنے والا مزاج اور دوسرے کسی بزرگ سے محرومی نے اسے ٹھوس سیاست دان نہ بننے دیا اور اس نے ایک 'عورت' پر اپنی سیاست قربان کر دی۔ عمران تین بہنوں کے اکلوتے بھائی اور گھر کے اکلوتے بیٹے میں جتنی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں وہ سب عمران میں موجود رہیں اور علاوہ ازیں تجربہ کار معاصر سیاستدان جو اس نئے حریف سے پریشان تھے لیکن صبر کے ساتھ حالات کا جائزہ لے سکتے تھے۔
عمران کا انتظار کرتے رہے۔ عمران کے مقابلے میں سوائے خود عمران خان کے اور کوئی نہ تھا۔ پنجاب میں اسے میاں صاحبان کا مقابلہ تھا لیکن دونوں ایک دوسرے سے گھبرائے ہوئے تھے۔ عمران اگر ہمت کرتے تو ملک بھر میں اپنا سیاسی مقام بنا سکتے تھے اور صوبائی نہیں قومی قیادت بھی حاصل کر سکتے تھے لیکن جب ان کے کچھ کرنے کا وقت آیا تو انھوں نے ایک برطانوی پاپولر خاتون سے شادی کر لی۔ میں اس خاتون کو کسی حد تک جانتا ہوں جب سنا کہ عمران کو اپنی زلف کا اسیر کر لیا ہے تو سیاسی عمران خان کے نام پر لکیر لگا دی۔ کہاں برطانیہ کی ایک نیم شاہی خاندان کی جمائما اور کہاں لیکن چھوڑیے خدا سب کو خوش رکھے اور پاکستانیوں کو بھی جو کسی لیڈر کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔