ڈزاسٹر اور پھر دکانوں کا چمکنا

موسم بدل رہا ہے گرمی رخصت ہوئی ارادہ تو ان کا نہیں لگ رہا تھا مستقل قیام پر آمادہ تھیں

fnakvi@yahoo.com

موسم بدل رہا ہے گرمی رخصت ہوئی ارادہ تو ان کا نہیں لگ رہا تھا مستقل قیام پر آمادہ تھیں مگر جانے والے کو جانا ہی پڑتا ہے۔ آخر سردی نے اپنی جھلک دکھلا ہی دی، موسم خشک و سرد ہونے لگا ہے مگر سردی میں انسان گرمیوں کی طرح آزادانہ نہیں پھر سکتا بلکہ اسے مزید کچھ لوازمات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پرانے باکس اور اسٹور روم کے تالے کھلنے لگتے ہیں اور گرم کپڑوں کو دھوپ لگنا شروع ہو جاتی ہے۔

صاحب حیثیت لوگ تو سال کے سال نت نئے کپڑوں کی خریداری کرتے ہیں اور فیشن اور جیب کے حساب سے خریداری کرتے ہیں۔ کراچی والوں کے لیے تو سردی صرف جھلک ہی دکھلاتی ہے مگر ملک کے اکثر حصے سخت سردی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں تو ایسے میں متوسط اور غریب لوگ ایک مخصوص جگہ کا رخ کرتے ہیں جوکہ عرف عام میں لنڈا بازار کہلاتی ہے۔ کم داموں میں یہاں اچھی چیزیں خریدنے میں لوگ کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔

ہماری ایک جاننے والی ہمیشہ سردیوں میں نت نئے ڈیزائن اور فیشن کے مطابق گرم کوٹ، سوئیٹرز وغیرہ پہن کر سب کے دل جلاتی تھیں اور جب پوچھا جاتا کہ ان اشیا کی قیمت کیا ہے تو ناز اور انداز سے سر جھٹک کر کہتیں کہ فلاں انکل یا آنٹی نے لندن سے بھیجا ہے اب تم خود ہی قیمت کا اندازہ کرلو کہ قیمت کیا ہوگی۔

یہ سن کر مخاطب اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال مگر کچھ کہہ نہیں پاتا کہ اتنی استعداد ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی ایسا انکل یا آنٹی دیار غیر میں ہے جو مطلوبہ اشیا بھیج بھیج کر اترانے کا موقعہ فراہم کرتے، سو یہ سلسلہ کچھ عرصے تک چلا مگر پھر اکثریت بھانپ ہی گئی کہ یہ تمام کرامات المعروف لنڈا بازار کی مرہون منت ہیں، لنڈا بازار کی رونقیں سارا سال ہی بحال رہتی ہیں مگر سردیوں میں حال سے بے حال ہوجاتی ہیں۔

لوگ خریداری پر بھی اس طرح جاتے ہیں کہ جیسے چوری کر رہے ہوں کہیں کسی کی نظر نہ پڑ جائے اور مطلوبہ چیز بھی ہاتھ آجائے اور دکان داروں کا بھی یہ حال کہ کوئی گاہک خالی ہاتھ جانے نہ پائے اور ویسے بھی جگہ جگہ ٹھیلے پتھارے گاہکوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں اور ان بازاروں کے ماہر ان ڈھیروں میں سے بھی اپنی مطلوبہ چیز نکال ہی لیتے ہیں اور کوشش یہ کرتے ہیں کہ کم سے کم قیمت میں اچھی سے اچھی چیز حاصل کرلیں۔ پہلے کبھی یہ حال تھا کہ لنڈا بازار کی مخصوص جگہیں ہوتی تھیں مگر اب جمعہ بازاروں اور بدھ بازاروں نے جگہ جگہ لنڈے کے سامان کو رونق بخش دی ہے۔


ایسے بازاروں میں اب عوام الناس کی جگہ خواص بھی نظر آرہے ہیں۔ جوتے،بیگ اور دوسری اشیا اچھے برانڈ کی یہاں سے دستیاب ہوجاتی ہیں مگر خواص کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے اشیا کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور لگ رہا ہے کہ غریب کی پہنچ سے یہ بازار بھی دور ہوتے جائینگے حالانکہ یہ بازار ایک عام آدمی کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں اگر یہ بازار نہ ہوں تو غریب تو سردی سے ٹھٹھر کر ہی مر جائیں۔ ان بازاروں نے غریبوں کی عزت کا بھرم رکھا ہوا ہے کیونکہ پرانے سامان کی یہ جگہیں نچلے متوسط طبقے کی خواہش کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ وہ برانڈڈ بیگ اور جوتے وغیرہ جوکہ ان کی استطاعت سے باہر ہیں وہ یہیں سے خرید کر اپنے شوق کو پورا کرلیتے ہیں اور دوسروں کے سامنے اپنے معیار زندگی کو بلند ہوتا محسوس کرتے ہیں اکثر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو پیٹ کاٹ کر اچھے انگلش اسکولوں میں پڑھا تو لیتے ہیں مگر وہاں کی دوسری ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو وہ سردیوں کے سوئیٹر اکسفورڈ اسٹائل شوز جوکہ عام حالت میں انتہائی مہنگے ملتے ہیں۔

وہ ان بازاروں سے کم قیمت میں خرید کر اپنی عزت کا بھرم رکھ لیتے ہیں مگر اب لگتا ہے کہ ایسا کرنا بھی مشکل کام بن جائے گا کیونکہ ان بازاروں میں بھی اس قسم کی خریداری میں صاحب حیثیت لوگوں کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ بازار بھی غریب کی پہنچ سے دور ہونیوالے ہیں کیونکہ صاحب حیثیت لوگوں کی خریداری کی وجہ سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے آفس میں ایک صاحب جن کے بچے اچھے اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور وہ اپنے بچوں کے سوئیٹرز اور آکسفورڈ اسٹائل شوز بیلٹ وغیرہ ان بازاروں سے پہلے انتہائی معمولی قیمت پر خرید کر اپنی تنخواہ میں مینیج کرلیتے تھے مگر اب ان کا کہنا ہے کہ اس سال یہ خریداری دشوار ترین مرحلہ ثابت ہوئی ہے۔

کیونکہ جو شوز بڑی شاپ پر 5سے 6 ہزار میں ملتا ہے وہ یہاں سے 5-6 سومیں مل جاتا تھا مگر اب یہ 2 ہزار سے کم نہیں کیونکہ خواص کے لیے تو یہ قیمت کم ہے وہ اس قیمت پر باآسانی اور مول تول کے لے لیتے ہیں مگر ہمارے لیے مشکل پیدا ہو رہی ہے کیونکہ ایک عام آدمی جس کی ماہانہ آمدنی ہی 5 یا 10ہزار ہو وہ کیسے دوہزار کا سامان خرید سکتا ہے وہ بھی لنڈا بازار سے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ان بازاروں میں بھی قیمتیں بڑھتی رہیں گی تو غریب عوام الناس پھر کہاں جائینگے؟

اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ ان بازاروں میں بھی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے تاکہ عوام کے لیے ضروری اشیا کی خریداری مشکل مرحلہ نہ بن جائے کیونکہ سفید پوشوں کی عزت کا بھرم رکھنے کے لیے یہ لنڈا بازار بہت کارآمد ثابت ہوتے تھے اور ہوسکتے ہیں مگر یہاں بھی قیمتوں کا بے تحاشا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ کہیں یہ بازار بھی ان سے دور نہ ہو جائیں اسی طرح اگر صاحب حیثیت لوگ اپنی استعمال شدہ اشیا یا موسم سرما میں سوئیٹر، لحاف، کمبل وغیرہ اپنی ماسیوں (ماسیوں کو ضرور دیں مگر اکثر یہ ماسیاں یہ سامان پھیری والے کو فروخت کردیتی ہیں) کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو دیں جوکہ سفید پوش ہیں مگر سال کے سال آنیوالی سردی سے بچنے کے لیے اپنے بجٹ میں سے رقم نہیں نکال سکتے تو وہ ایسے بچوں اور ان کے گھر والوں کے لیے مفت بازار لگا سکتے ہیں ایسے فلاحی ادارے بھی اس کار خیر میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ مانگنے والا اپنی ضرورت کو مانگ کر پورا کریگا مگر ایسے سفید پوش لوگ جوکہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا باعث شرم محسوس کرتے ہیں اصل میں ہماری ہمدردی اور خیرخواہی کے وہی لوگ مستحق ہوتے ہیں ۔

اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو تاکہ ان کی عزتوں کا بھرم بھی رہ جائے اور وہ موسم کی سختیوں سے نبردآزما ہونے کے قابل ہوجائیں۔ پشاور زلزلے میں شکار اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو منہ سے مانگنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں عزت و خودداری پر اپنی جان بھی دے دیتے ہیں ان کا سب کچھ تباہ ہوگیا ہے بے آسرا بے سروسامان کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں تو ایسے تمام متاثرین کے لیے بے دریغ مدد بھی ہونی چاہیے اور اس میں شفافیت بھی ہونی چاہیے کیونکہ 2005 کے زلزلے میں جس طرح پورے پاکستان کے عوام نے یکجہتی کا ثبوت دیا تھا اور امداد کی اپیل پر لبیک کہا تھا پوری دنیا کے لوگوں نے ہی ہمارا بڑا ساتھ دیا مگر وہاں بھی ہوا یہ کہ آدھی سے زیادہ امداد ایسے ہاتھوں میں پہنچی جو امین نہیں تھے جنھوں نے اپنے پیٹ بھرے اور آج وہ لوگ کروڑ پتی ہیں۔

2005 کا زلزلہ ہو یا 2011 کا سیلاب اور بارشیں، حقدار کو حق نہیں ملتا اور ان کی آڑ میں چاندی ہوجاتی ہے ایسے منافقوں کی جوکہ کسی بھی ڈیزاسٹر کے آنے کی دعائیں کرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ان کی دکانیں چمکنے کا سامان پیدا ہوتا ہے۔
Load Next Story