سپریم کورٹ کا فیصلہ اور سیاسی بالغ نظری کا تقاضا
اصغر خان کیس کے مختصر فیصلے نے ایک ایسا دھماکا کیا ہے جس نے سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
9 مارچ 2007 کو جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جرنیل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے پر مجبور کررہے تھے اور چیف جسٹس صاحب کا حرفِ انکار سن کر آتش زیر پا تھے۔
اسی طرح 12 اکتوبر 1999 کو ان کے لیے یہ بات ناقابل فہم تھی کہ ایک منتخب وزیراعظم رائفلوں کے سامنے ڈٹ جائے اور استعفیٰ دینے سے انکار کردے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عوام کے منتخب کیے ہوئے اس وزیراعظم کو درس عبرت بنادیا تھا۔ وہ اس ادارے کے سربراہ تھے جو ملک میںہمیشہ سرچشمہ اقتدار رہا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ عدلیہ جس کی اکثریت 60 برس سے ان کے سامنے منقار زیر پر رہی، اس کا ایک فرد ان کی حکم عدولی کیسے کرسکتا ہے۔ اس شخص کی معزولی کا حکم جاری ہوا اور اسے ''حفاظتی'' حراست میں لے کر اس کے گھر بھیج دیا گیا، جہاں وہ اور اس کے اہل خانہ حبس بے جا میں رکھ دیے گئے۔ عین اس وقت جب آرمی ہائوس میں معزولی کا یہ ڈراما ہورہا تھا، سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس حلف اٹھا رہے تھے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جنھیں اس شخص کا نام یاد ہو جس نے اس روز حلف اٹھایا اور ملک میں ایک ناپسندیدہ فرد بن گیا تھا۔ اس وقت سے 25 مارچ 2009 کے درمیان میں نے 50 کالم لکھے جو پاکستانی عدلیہ کی آزادی کے لیے تھے۔ ان میں ملکی اور بین الاقوامی تاریخ کے حوالے تھے۔ 9 مارچ 2007سے لانگ مارچ 2009 تک اس ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک شاندار لڑائی لڑی گئی جس میں اس ملک کے لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے حصہ لیا۔ وہ لوگ جو عدلیہ کی آزادی کے لیے لڑرہے تھے ان کا ایمان تھا کہ ملک کے کچلے اور پسے ہوئے لوگوں کو انصاف صرف اس وقت مل سکتا ہے جب ملک میں ایک آزاد عدلیہ ہو جو کسی خوف و خطر کے بغیر لوگوںکو انصاف فراہم کرے۔
ملکی تاریخ کا یہ ایک بہت مشکل زمانہ تھا۔ عدلیہ کا ساتھ دینے والے صحافیوں اور کالم نگاروں پر کتنے ہی سنگِ دشنام برسے۔ استہزائیہ انداز میں پوچھا گیا کہ آخر معزول جج حضرات کی بحالی پر اس قدر اصرار کیوں ہے؟ ان کے بغیرکیا ملک بھر کی عدالتوں پر تالے پڑ گئے ہیں؟ کیا معزز اور اہل جج نایاب ہوگئے ہیں جو ان چند معزول ججوں کی جگہ لے سکیں؟ ایسے ہی کتنے اعتراضات تھے جو کیے جاتے تھے۔ افسوس کہ یہ سہرا پیپلز پارٹی کے سر نہ بندھا کہ وہ کسی ہچکچاہٹ اور لیت و لعل کے بغیر ججوں کو بحال کرتی حالانکہ یہ وعدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے چیف جسٹس کے گھر کے سامنے کھڑے ہوکر کیا تھا۔ لیکن سیاستدانوں کی بعض ڈھکی چھپی مجبوریاں ہوتی ہیں جنھیں وہ سرعام بیان نہیں کرسکتے۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین اگر دیانتداری سے حساب لگائیں تو اصغر خان کیس کے فیصلے تک ایسے متعدد فیصلے آئے جن کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچا ہے لیکن آج بھی اس کے بعض اراکین چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے بارے میں افسوس ناک بیانات دینے سے نہیں ہچکچاتے۔
16 اگست کو اصغر خان کیس کا جو مختصر فیصلہ سامنے آیا ہے اس نے ایک ایسا دھماکا کیا ہے جس نے سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ سمجھا یہ جارہا تھا کہ بڑی سیاسی جماعتیں اس مختصر فیصلے میں جو اشارے ہیں ان کو سمجھ کر فوج اور خفیہ ادارے کے سربراہ کی 1990 کے انتخابات میں براہ راست مداخلت اور شرم ناک طور پر کروڑوں روپے کی رشوت کا جو معاملہ سامنے آیا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یک زبان ہوکر یہ سوال اٹھائیں گی کہ ملکی سیاست پر ناجائز طور سے اثر انداز ہونے اور انتخابی نتائج کو چرانے کا حق کس نے مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کو دیا تھا۔ یہ پوچھا جائے گا کہ کیا یہ اقدام 'غداری' کے زمرے میں نہیں آتا۔
مشکل یہ ہے کہ اس ملک کے عوام اور خواص دونوں جانتے ہیں کہ ابتدا سے ہی جو سیاست ہوئی اس نے عسکری اداروں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ 29 جون 2008 کو اپنے کالم 'ایک حکایت یاد آئی' میں لکھا تھا: 'پاکستان میں جب پہلی مرتبہ مارشل لاء محدود سطح پر لگایا گیا تو یقیناً یہ سیاستدانوں کی غلطی تھی جنہوں نے پنجاب میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے پولیس فورس کا استعمال کرنے کے بجائے فوج کو بلانے میں کوئی ہرج نہیں سمجھا تھا اور یہ بھول گئے تھے کہ شیر اگر ایک مرتبہ انسانی خون کا ذائقہ چکھ لے تو پھر نیل گائے، سانبھر یا ہرن کا شکار وہ بہ مجبوری پیٹ بھرنے کے لیے تو کرتا ہے لیکن آدم خوری کی لذت ہی کچھ اور ہے۔ 1953 میں جب پاکستان میں پہلی بار مارشل لاء کا نام سنا گیا اور صوبہ پنجاب میں وہ ''شورش پسندوں سے نمٹنے'' کے نام پر نافذ کیا گیا تو پاکستان کی مرکزی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مرحوم میاں افتخار الدین نے کہا تھا:
''جناب والا! اس موقع پر مجھے ایک حکایت یاد آتی ہے۔ یہ حکایت میراثیوں کے ایک کنبے کی ہے جن کی پَرنانی سو سال سے زائد عمر میں اﷲ کو پیاری ہوگئی۔ کسی شخص نے کنبے کے لوگوں کو روتے پیٹتے دیکھا تو پوچھا کہ '' بڑی بی تو سو سال سے اوپر کی تھیں، پھر اس قدر کیوں روتے ہو؟'' جواب ملا ''ٹھیک ہے ان کی عمر سو سال سے زیادہ تھی لیکن رونا تو اس کا ہے کہ حضرت عزرائیل نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے، اب وہ کسی اور کے لیے بھی آسکتے ہیں۔'' اسی طرح مجھے ڈر یہ ہے کہ ان لوگوں (اس وقت کی صوبائی حکومت) نے مارشل لاء نافذ کرکے اور اس طرح کا طریقہ اختیار کرکے طاقت کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا راستہ دکھا دیا ہے۔'' مرحوم میاں افتخار کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور حکومت کی تبدیلی کا جو راستہ فوجی اشرافیہ کو دکھایا گیا تھا، پھر وہ اسے فراموش نہ کرسکی۔''
آج ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اگر ہمارے سیاسی اکابرین یہ بات مان لیں کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں فوجی آمروں کی خوشنودی حاصل کرکے ہی ان کے لیے سیاست میں قدم بڑھانا ممکن تھا، تو ہمیں ہر وقت گڑے مردے اکھیڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کون یہ نہیں جانتا کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کو ''ڈیڈی'' کہتے تھے اور ایک جلسہ عام میں جب کسی نے انھیں ایوب خان کا چمچہ کہا تھا تو انھوں نے ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ 'میں ان کا چمچہ نہیں کفگیر ہوں'۔ اسی طرح میاں نوازشریف کو جنرل ضیاء الحق اپنا ''فرزند'' کہتے تھے اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو میاں نواز شریف نے کس گریہ و ماتم کے ساتھ ان کی تدفین میں حصہ لیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں واپس آئیں، بھٹو صاحب کی پھانسی کے ذمے داروں میں سے ایک نے اس وقت کے صدر اسحاق خان سے حلف لیا، آصف زرداری ان کی کابینہ میں شامل رہے، محترمہ نے جنرل اسلم بیگ اور ان کے ادارے کو تمغہ جمہوریت سے نوازا۔ زندگی کے آخری دنوں میں یہ جنرل پرویز مشرف تھے جن سے وہ این آر او معاہدہ کرکے ملک واپس آئیں۔
لوگ ابھی نہیں بھولے کہ اس پٹیشن کے محرک اصغر خان نے جنرل ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو، کوہالہ کے پل پر سرعام پھانسی دی جائے۔ چوہدری ظہور الہیٰ نے جنرل ضیاء سے وہ قلم مانگا تھا جس سے جنرل موصوف نے بھٹو صاحب کی موت کے پروانے پر دستخط ثبت کیے تھے۔ عمران خان آئین شکن اور غاصب جنرل مشرف کے حامی تھے اورغیر آئینی ریفرنڈم میں ان کی حمایت کررہے تھے۔ غرض کون سی قابل ذکر سیاسی اور مذہبی جماعت ایسی ہے جس نے غاصب فوجی آمروں کی حمایت اور کاسہ لیسی نہیں کی اور آئین کے غداروں کے شریک کار نہیں رہے۔
پاکستان میں سیاستدانوں کے لیے آگے بڑھنے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے ابتداء سے اتنی کم گنجائش چھوڑی گئی ہے کہ وہ نہایت ناپسندیدہ سمجھوتے کرنے اور ملٹری سول سٹیبلشمنٹ کے سامنے سرجھکانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود انھیں جب بھی موقع ملا ہے وہ جمہوری نظام کے استحکام کے لیے قدم بہ قدم ہی سہی آگے بڑھے ہیں۔ اس میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو اپنی جان سے گئے اور میاں نواز شریف نے طویل جلاوطنی سہی۔ ماضی کے ان ہی تلخ تجربوں نے بالآخر میثاق جمہوریت کو جنم دیا جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے دستخط کیے۔ انھوں نے ماضی کی طرح فوجی سٹیبلشمنٹ سے ساز باز کے ذریعے ایک دوسرے کی حکومتیں ختم نہ کرنے کا عہدکیا اور قوم سے اپنی ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگی۔
سیاسی بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سیاسی عمل میں فوجی مداخلت کے خلاف جو دو ٹوک فیصلہ صادر کیا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منتخب حکومت، ملٹری سول تعلق کے تناظر میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے وسیع تر سیاسی حمایت حاصل کرے۔ اسے مخصوص سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے 1990 کی دہائی کی خطرناک سیاست دوبارہ شروع ہوجائے گی اور جمہوریت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔
اسی طرح 12 اکتوبر 1999 کو ان کے لیے یہ بات ناقابل فہم تھی کہ ایک منتخب وزیراعظم رائفلوں کے سامنے ڈٹ جائے اور استعفیٰ دینے سے انکار کردے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عوام کے منتخب کیے ہوئے اس وزیراعظم کو درس عبرت بنادیا تھا۔ وہ اس ادارے کے سربراہ تھے جو ملک میںہمیشہ سرچشمہ اقتدار رہا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ عدلیہ جس کی اکثریت 60 برس سے ان کے سامنے منقار زیر پر رہی، اس کا ایک فرد ان کی حکم عدولی کیسے کرسکتا ہے۔ اس شخص کی معزولی کا حکم جاری ہوا اور اسے ''حفاظتی'' حراست میں لے کر اس کے گھر بھیج دیا گیا، جہاں وہ اور اس کے اہل خانہ حبس بے جا میں رکھ دیے گئے۔ عین اس وقت جب آرمی ہائوس میں معزولی کا یہ ڈراما ہورہا تھا، سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس حلف اٹھا رہے تھے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جنھیں اس شخص کا نام یاد ہو جس نے اس روز حلف اٹھایا اور ملک میں ایک ناپسندیدہ فرد بن گیا تھا۔ اس وقت سے 25 مارچ 2009 کے درمیان میں نے 50 کالم لکھے جو پاکستانی عدلیہ کی آزادی کے لیے تھے۔ ان میں ملکی اور بین الاقوامی تاریخ کے حوالے تھے۔ 9 مارچ 2007سے لانگ مارچ 2009 تک اس ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک شاندار لڑائی لڑی گئی جس میں اس ملک کے لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے حصہ لیا۔ وہ لوگ جو عدلیہ کی آزادی کے لیے لڑرہے تھے ان کا ایمان تھا کہ ملک کے کچلے اور پسے ہوئے لوگوں کو انصاف صرف اس وقت مل سکتا ہے جب ملک میں ایک آزاد عدلیہ ہو جو کسی خوف و خطر کے بغیر لوگوںکو انصاف فراہم کرے۔
ملکی تاریخ کا یہ ایک بہت مشکل زمانہ تھا۔ عدلیہ کا ساتھ دینے والے صحافیوں اور کالم نگاروں پر کتنے ہی سنگِ دشنام برسے۔ استہزائیہ انداز میں پوچھا گیا کہ آخر معزول جج حضرات کی بحالی پر اس قدر اصرار کیوں ہے؟ ان کے بغیرکیا ملک بھر کی عدالتوں پر تالے پڑ گئے ہیں؟ کیا معزز اور اہل جج نایاب ہوگئے ہیں جو ان چند معزول ججوں کی جگہ لے سکیں؟ ایسے ہی کتنے اعتراضات تھے جو کیے جاتے تھے۔ افسوس کہ یہ سہرا پیپلز پارٹی کے سر نہ بندھا کہ وہ کسی ہچکچاہٹ اور لیت و لعل کے بغیر ججوں کو بحال کرتی حالانکہ یہ وعدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے چیف جسٹس کے گھر کے سامنے کھڑے ہوکر کیا تھا۔ لیکن سیاستدانوں کی بعض ڈھکی چھپی مجبوریاں ہوتی ہیں جنھیں وہ سرعام بیان نہیں کرسکتے۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین اگر دیانتداری سے حساب لگائیں تو اصغر خان کیس کے فیصلے تک ایسے متعدد فیصلے آئے جن کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچا ہے لیکن آج بھی اس کے بعض اراکین چیف جسٹس اور دیگر ججوں کے بارے میں افسوس ناک بیانات دینے سے نہیں ہچکچاتے۔
16 اگست کو اصغر خان کیس کا جو مختصر فیصلہ سامنے آیا ہے اس نے ایک ایسا دھماکا کیا ہے جس نے سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ سمجھا یہ جارہا تھا کہ بڑی سیاسی جماعتیں اس مختصر فیصلے میں جو اشارے ہیں ان کو سمجھ کر فوج اور خفیہ ادارے کے سربراہ کی 1990 کے انتخابات میں براہ راست مداخلت اور شرم ناک طور پر کروڑوں روپے کی رشوت کا جو معاملہ سامنے آیا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یک زبان ہوکر یہ سوال اٹھائیں گی کہ ملکی سیاست پر ناجائز طور سے اثر انداز ہونے اور انتخابی نتائج کو چرانے کا حق کس نے مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کو دیا تھا۔ یہ پوچھا جائے گا کہ کیا یہ اقدام 'غداری' کے زمرے میں نہیں آتا۔
مشکل یہ ہے کہ اس ملک کے عوام اور خواص دونوں جانتے ہیں کہ ابتدا سے ہی جو سیاست ہوئی اس نے عسکری اداروں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ 29 جون 2008 کو اپنے کالم 'ایک حکایت یاد آئی' میں لکھا تھا: 'پاکستان میں جب پہلی مرتبہ مارشل لاء محدود سطح پر لگایا گیا تو یقیناً یہ سیاستدانوں کی غلطی تھی جنہوں نے پنجاب میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے پولیس فورس کا استعمال کرنے کے بجائے فوج کو بلانے میں کوئی ہرج نہیں سمجھا تھا اور یہ بھول گئے تھے کہ شیر اگر ایک مرتبہ انسانی خون کا ذائقہ چکھ لے تو پھر نیل گائے، سانبھر یا ہرن کا شکار وہ بہ مجبوری پیٹ بھرنے کے لیے تو کرتا ہے لیکن آدم خوری کی لذت ہی کچھ اور ہے۔ 1953 میں جب پاکستان میں پہلی بار مارشل لاء کا نام سنا گیا اور صوبہ پنجاب میں وہ ''شورش پسندوں سے نمٹنے'' کے نام پر نافذ کیا گیا تو پاکستان کی مرکزی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مرحوم میاں افتخار الدین نے کہا تھا:
''جناب والا! اس موقع پر مجھے ایک حکایت یاد آتی ہے۔ یہ حکایت میراثیوں کے ایک کنبے کی ہے جن کی پَرنانی سو سال سے زائد عمر میں اﷲ کو پیاری ہوگئی۔ کسی شخص نے کنبے کے لوگوں کو روتے پیٹتے دیکھا تو پوچھا کہ '' بڑی بی تو سو سال سے اوپر کی تھیں، پھر اس قدر کیوں روتے ہو؟'' جواب ملا ''ٹھیک ہے ان کی عمر سو سال سے زیادہ تھی لیکن رونا تو اس کا ہے کہ حضرت عزرائیل نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے، اب وہ کسی اور کے لیے بھی آسکتے ہیں۔'' اسی طرح مجھے ڈر یہ ہے کہ ان لوگوں (اس وقت کی صوبائی حکومت) نے مارشل لاء نافذ کرکے اور اس طرح کا طریقہ اختیار کرکے طاقت کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا راستہ دکھا دیا ہے۔'' مرحوم میاں افتخار کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور حکومت کی تبدیلی کا جو راستہ فوجی اشرافیہ کو دکھایا گیا تھا، پھر وہ اسے فراموش نہ کرسکی۔''
آج ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اگر ہمارے سیاسی اکابرین یہ بات مان لیں کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں فوجی آمروں کی خوشنودی حاصل کرکے ہی ان کے لیے سیاست میں قدم بڑھانا ممکن تھا، تو ہمیں ہر وقت گڑے مردے اکھیڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کون یہ نہیں جانتا کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کو ''ڈیڈی'' کہتے تھے اور ایک جلسہ عام میں جب کسی نے انھیں ایوب خان کا چمچہ کہا تھا تو انھوں نے ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ 'میں ان کا چمچہ نہیں کفگیر ہوں'۔ اسی طرح میاں نوازشریف کو جنرل ضیاء الحق اپنا ''فرزند'' کہتے تھے اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو میاں نواز شریف نے کس گریہ و ماتم کے ساتھ ان کی تدفین میں حصہ لیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں واپس آئیں، بھٹو صاحب کی پھانسی کے ذمے داروں میں سے ایک نے اس وقت کے صدر اسحاق خان سے حلف لیا، آصف زرداری ان کی کابینہ میں شامل رہے، محترمہ نے جنرل اسلم بیگ اور ان کے ادارے کو تمغہ جمہوریت سے نوازا۔ زندگی کے آخری دنوں میں یہ جنرل پرویز مشرف تھے جن سے وہ این آر او معاہدہ کرکے ملک واپس آئیں۔
لوگ ابھی نہیں بھولے کہ اس پٹیشن کے محرک اصغر خان نے جنرل ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو، کوہالہ کے پل پر سرعام پھانسی دی جائے۔ چوہدری ظہور الہیٰ نے جنرل ضیاء سے وہ قلم مانگا تھا جس سے جنرل موصوف نے بھٹو صاحب کی موت کے پروانے پر دستخط ثبت کیے تھے۔ عمران خان آئین شکن اور غاصب جنرل مشرف کے حامی تھے اورغیر آئینی ریفرنڈم میں ان کی حمایت کررہے تھے۔ غرض کون سی قابل ذکر سیاسی اور مذہبی جماعت ایسی ہے جس نے غاصب فوجی آمروں کی حمایت اور کاسہ لیسی نہیں کی اور آئین کے غداروں کے شریک کار نہیں رہے۔
پاکستان میں سیاستدانوں کے لیے آگے بڑھنے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے ابتداء سے اتنی کم گنجائش چھوڑی گئی ہے کہ وہ نہایت ناپسندیدہ سمجھوتے کرنے اور ملٹری سول سٹیبلشمنٹ کے سامنے سرجھکانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود انھیں جب بھی موقع ملا ہے وہ جمہوری نظام کے استحکام کے لیے قدم بہ قدم ہی سہی آگے بڑھے ہیں۔ اس میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو اپنی جان سے گئے اور میاں نواز شریف نے طویل جلاوطنی سہی۔ ماضی کے ان ہی تلخ تجربوں نے بالآخر میثاق جمہوریت کو جنم دیا جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے دستخط کیے۔ انھوں نے ماضی کی طرح فوجی سٹیبلشمنٹ سے ساز باز کے ذریعے ایک دوسرے کی حکومتیں ختم نہ کرنے کا عہدکیا اور قوم سے اپنی ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگی۔
سیاسی بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سیاسی عمل میں فوجی مداخلت کے خلاف جو دو ٹوک فیصلہ صادر کیا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منتخب حکومت، ملٹری سول تعلق کے تناظر میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے وسیع تر سیاسی حمایت حاصل کرے۔ اسے مخصوص سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے 1990 کی دہائی کی خطرناک سیاست دوبارہ شروع ہوجائے گی اور جمہوریت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔