ہم کسی فرد کے نہیں قانون کے تابع ہیں چیف جسٹس آف پاکستان

ریاست کا تصورسیاسی مفاہمت پراستوار ہے اس لئے حکومت کو ملنے والے مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے، جسٹس انورظہیرجمالی


ویب ڈیسک November 03, 2015
ریاست کا تصورسیاسی مفاہمت پراستوار ہے اس لئے حکومت کو ملنے والے مینڈیٹ کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے، جسٹس انورظہیرجمالی. فوٹو:پی آئی ڈی

KARACHI: چیف جسٹس آف پاكستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے كہا ہے كہ آئین میں تمام شہریوں كو یكساں حقوق دیئے گئے ہیں اور ہم كسی فرد كے نہیں بلكہ قانون كے تابع ہیں جب کہ ملك كا مستقبل عدلیہ كی آزادی اور قانون كی بالادستی میں ہے اور قانون كی بالادستی موجودہ دور كی ناگزیر ضرورت ہے۔

https://img.express.pk/media/images/q33/q33.webp

چیرمین سینیٹ كی دعوت پر سینیٹ كے ایوان كی كمیٹی سے خصوصی خطاب كے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے نے قانون كی بالادستی ناگزیر قرار دیتے ہوئے سفارشات پارلیمنٹ كے سامنے پیش كردیں جب کہ اس موقع پر چیف جسٹس آف پاكستان نے اپنے خطاب میں كہا كہ ریاست كا تصور سیاسی و سماجی اصولوں پر استوار ہے، آئین پاكستان اداروں اور عہدوں كے اختیارات كا تعین كرتا ہے، آئین میں تمام شہریوں كو یكساں حقوق دیئے گئے ہیں اور ہم سب كسی فرد كے نہیں بلكہ قانون كے تابع ہیں، قانون كی حكمرانی كے بغیر پائیدار ترقی كا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسكتا۔

https://img.express.pk/media/images/q43/q43.webp

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ منتخب نمائندے عوام كو جوابدہ ہیں، ریاست كی پالیسی عوام كی امنگوں كے مطابق ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اپنی كاركردگی جانچنے كا كوئی نظام موجود نہیں، اس وقت ایسے قانونی ڈھانچے كی ضرورت ہے جو عوام كو بااختیار بنائے، ریاست كے باشندوں كو نظر آنا چاہیے كہ كوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، بدعنوانی كا كلچر لاقانونیت كے فروغ كی وجہ بنتا ہے اور یہی وجہ ہے كہ ہمیں قانون کی بالادستی كے لیے قومی سوچ اپنانے كی ضرورت ہے۔ انہوں نے كہا كہ افسوس كی بات ہے كہ ہم مینڈیٹ كے تقاضے پورے كرنے میں ناكام رہے، 80 فیصد تنازعات كا تصفیہ جرگے اور دیگر نظام كے ذریعے كیا جا رہا ہے كیونكہ ہمیں قوانین پر عملدرآمد كے سلسلے میں بحران كا سامنا ہے۔

https://img.express.pk/media/images/q52/q52.webp

چیف جسٹس کا کہنا تھا كہ آئین كے تحت ریاستی ڈھانچے میں عوام كو اختیارات كا منبع قرار دیا گیا ہے، عوام اپنے اختیارات پارلیمنٹ كو تفویض كرتے ہیں اس طرح پارلیمنٹ اور ریاستی ڈھانچے عوام كو جوابدہ ہیں۔ انہوں نے كہا كہ آئین میں اختیارات كی تقسیم كا توازن برقرار ركھا گیا ہے، برادری اور مساوات منصفانہ معاشرے كے لیے بہت ضروری ہے، جب عوام خود كو معاشرے كا مساوی فرد تصور نہیں كرتے تو ایسے میں حكومت اور ریاست كے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے، ریاست ایک نازک احساس پر استوار ہوتی ہے جسے اداروں كے درمیان كہتے ہیں۔ انہوں نے كہا كہ آئین پاكستان میں ریاستی اداروں اور منتخب نمائندوں كے اختیارات بہت واضح ہیں، تاریخ كے اس نازک موڑ پر ہمیں سنجیدگی سے ان عوامل پر سوچنا ہوگا كہ كس طرح ہم معاشرے كو طاقتور بناسكتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین پاكستان كے تناظر میں تمام اداروں كو ساتھ مل كرسنجیدگی سے كام كرنا ہو گا، ہمیں ایمانداری سے آئینی تقاضے پورے كرتے ہوئے اپنے فرائض كی انجام دہی كو جانچنا ہو گا۔

https://img.express.pk/media/images/q62/q62.webp

جسٹس انور ظہیر جمالی نے كہا كہ قوانین پر عملدرآمد میں كمزوری كا ایک نتیجہ قانون كے دائرے سے اخراج بھی ہے، ہم آئین پاكستان كے تناظر میں ایک جدید اور روشن خیال پاكستان كے قیام كے لیے ان تمام ریاستی اداروں كے ساتھ مل كر مكمل ہم آہنگی كے ساتھ كام كرنے كا عزم ركھتے ہیں، لااینڈ جسٹس كمیشن كو یہ فریضہ سونپا گیا ہے كہ وہ مفاد عامہ كے تحفظ كے لیے پاكستان میں قانون كی بالادستی كو ممكن بنانے كی خاطر ایک قومی لائحہ عمل تشكیل دے تاكہ اس عزم كی تكمیل ہوسكے جس كا نام پاكستان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں