نتن یاہو یہود اور ہولو کاسٹ
ویسے تو اسرائیل بذات خود ایک ایسا عجوبہ ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی،
ISLAMABAD:
ویسے تو اسرائیل بذات خود ایک ایسا عجوبہ ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، ویسے ہم حیران ہیں کہ اتنی بڑی عجیب و غریب تخلیق پر یورپ اور امریکا والوں کو نوبل پرائز بلکہ ڈبل پرائز کیوں نہیں دیا گیا ہے لیکن اس کے وزیراعظم نتن یاہو جو بجا طور پر ''فتن یاہو'' کہلانے کا مستحق ہے۔ اس عجوبے کے اندر ایک اور عجوبہ ہے وہ جو کہا جاتا ہے کہ
صندوق میں بندوق ہے بندوق میں گولی
یورپ و امریکا بلکہ صحیح معنوں میں ہٹلر کے خلاف اتحادیوں کو ہم اگر صندوق فرض کریں جس کے اندر اسرائیل نام کی بندوق تھی، اس بندوق سے اب تک جتنی بھی گولیاں نکلی ہیں ان میں ''نتن یاہو'' وہ گولی ہے جو ''دو ڈزی'' کہلانے کی مستحق ہے، اب کے اس بندوق سے جوگولی نکلی ہے، وہ ایک مرحوم کو لگی ہے، مفتی اعظم امین الحسینی کو اس نے قبر میں بھی نہیں چھوڑا ہے ۔
ہٹلر کو یہودیوں کے جلانے کا الزام مرحوم پر دھرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مشورہ مرحوم نے دیا تھا، دراصل یہ ایک ''ہولو کاسٹ'' نامی افسانے سے تعلق رکھنے والی بات ہے حالانکہ ہولو کاسٹ بذات یہودیوں اور امریکیوں کا مشترکہ افسانہ بلکہ یوں کہیے کہ ''کوپروڈکشن'' ہے۔
اب یورپ ہی کے محققین نے دلائل دے کر اور برسر زمین شواہد اکھٹے کر کے ثابت کیا ہے کہ یہودیوں کو بھٹیوں میں جلانے کا یہ واقعہ ہی من گھڑت ہے، اس میں چھ لاکھ یہودیوں کو جلانے کا فرضی قصہ فلموں ڈراموں کتابوں رسائل اور دوسرے ذرایع ابلاغ کے ذریعے اتنا پھیلایا گیا ہے کہ ساری دنیا کو اس پر یقین ہونے لگا تھا لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹ کی عمر بہت کم ہوتی ہے، سب سے بڑا جھوٹ تو یہ ہے کہ اس میں چھ لاکھ یہودیوں کو جلانے کے قصے نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلائے لیکن محققین نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ اس وقت چھ لاکھ یہودی سارے یورپ میں بھی نہیں تھے تو جرمنی میں کہاں سے آگئے۔
ایک فرانسیسی محقق نے ان بھٹیوں میں جا کر باقاعدہ تحقیق کی ہے کہ انسانوں کو اس طرح سے جلانا اس وقت ممکن ہی نہ تھا کیوں کہ پٹرول تو جنگی ضرورتوں کے لیے نہیں مل رہا تھا اور گیس کی بھٹیاں اس کے لیے ممکن نہیں کہ گیس کے لیے خاص قسم کی بھٹیاں درکار ہوتی ہیں جو اس وقت نہ تو ممکن تھیں اور نہ ہی بنائی گئی ہیں اور مفروضہ بھٹیوں میں یہ ناممکن تھا، دراصل یہودی قوم کی یہ بہت پرانی عادت ہے کہ بے طرح اور بے تحاشا چیخنے چلانے سے دنیا کو متاثر کر دیتے ہیں۔
اس کی سب سے پہلی مثال وہ یہودی ہے جس کی حمایت میں حضرت موسیٰ ایک قطبی سے لڑے تھے اور دوسرے دن اس نے دوسری طرح سے چیخ و پکار کر کے حضرت موسیٰ کے ساتھ احسان فراموشی کی مثال قائم کی تھی اور یہ جنگ عظیم دوئم کا ''ہولو کاسٹ'' ڈرامہ بھی اس سے پہلے ایک مرتبہ یروشلم میں اسٹیج کیا گیا تھا، جب حضرت سلیمان ؑ کی حکومت ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رحبعام کو ملی تو یہودیوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ ہم پر سے ٹیکس وغیرہ ختم کیا جائے، اس کے جواب میں رحبعام نے انتہائی سختی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ''میرے باپ نے تم کو کوڑوں سے ٹھیک کیا تھا اور میں تمہیں نیزوں سے سیدھا کروں گا، تم پر بچھو چھوڑؤں گا(سلاطین) '' اس پر نبی اسرائیل کے دس قبائل الگ ہو گئے اور فلسطنیوں کے ساتھ مل کر الگ حکومت اسرائیلہ کے نام سے بنائی، رحبعام کے پاس صرف دو قبیلے رہ گئے۔
ایک ان کا اپنا بن یامین قبیلہ اور دوسرا یہودیہ ۔۔۔ اور ان کی حکومت ''یہودیہ'' کے نام سے الگ ہو گئی، پھر ان دونوں حکومتوں میں چپقلش چلتی رہی اور دونوں ہی بابلی اشوری اور کلدانی حکومتوں کو مدد پر بلا کر ایک دوسرے سے لڑتی رہیں، بابل کی حکومتوں کے اپنے مفادات تھے لیکن یہودی ہر ایک کے ساتھ دغا بازی کے کھیل کھیلتے رہے۔ ایک دو مرتبہ پہلے بھی ان بابلی حکمرانوں نے ان کی سازشوں سے تنگ آکر ان کو تباہ کیا لیکن بابل کے آخری کلدانی بادشاہ بخت نصر (نبوکدنبزر) نے اس خرخشے کو ہمیشہ کے لیے مٹانے کے لیے یروشلم کو تباہ و برباد کیا۔
ان کے ہیکل توڑ ڈالے اور روایت کے مطابق ہزاروں یہودیوں کو پکڑ کر بابل میں قید کر لیا جس محلے میں ان کو قید کیا گیا اسے یہودیوں نے ''تل ابیب'' کا نام دیا جو اسی نام کے ٹیکے سے آباد تھا، یہودیوں نے یروشلم کی تباہی پر بے پناہ نوحے کہے گریے کیے اور ساری دنیا میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا ویسے ہی پیٹا جیسا بعد میں ہٹلر کے خلاف پیٹا گیا اور پیٹا جارہا ہے، وہ بھی جھوٹ تھا اور یہ بھی جھوٹ ہے، بخت نصر صرف ان کے چند سرکردہ لوگوں کو جو سازشی تھے لے گیا، ایک اندازے کے مطابق جرمنی سے اب تک اسرائیلی حکومت اربوں ڈالر وصول کر چکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، حالانکہ غیر جانب دار محققین نے باقاعدہ ان تمام مقامات پر تحقیقات کیں جہاں یہودیوں کو جلانے کے فرضی واقعات بتائے جاتے ہیں۔
ایک بہت بڑے قبرستان میں دفن شدہ لاشوں کی باقیات پر جو تحقیقات ہوئیں ان میں انکشاف ہوا ہے کہ اس میں دفن شدہ مردے ٹائفس بخار کی وجہ سے مرے ہیں پھر ان مفروضہ بھٹیوں کی تعمیر ہی ایسی پائی گئی ہے جن میں اتنے وسیع پیمانے پر لاشیں جلانے کا مہنگا ترین کام کیا جا سکے، جرمنی کے سارے وسائل جنگ میں جھونکے ہوئے تھے کیوں کہ ہٹلر نے یورپ، افریقا اور دوسرے مقام پر جنگ کا میدان اتنا وسیع کر لیا تھا کہ ان کو چولہے جلانے کے لالے پڑے ہوئے تھے، پٹرول کی شدید قلت تھی ،گیس بہت ہی کم تھی اور لوگوں کو جلانے کے لیے ایندھن میسر ہی نہیں تھا لیکن ساری دنیا کی میڈیا پر فلموں ڈراموں رسائل اور کرائے کے مصنفین نے اس تواتر سے پروپیگنڈا کیا کہ بغیر سوچے سمجھے ہولو کاسٹ افسانے پر لوگوں کو یقین آگیا۔
یہ سارا چکر دنیا کی ہمدردی اور جرمنی سے بے پناہ معاوضہ وصول کرنے کے لیے تھا اور چونکہ نتن یاہو اس عجیب اور مکار اداکار قوم کا مکمل نمونہ ہے، اس لیے وہ بھی نئے نئے شوشے چھوڑنے کا ماہر ہے ورنہ مفتی اعظم امین الحسینی مرحوم جیسی بے ضرر اور مرنجا مرنج شخص پر ایسا الزام چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے، اور یہ کم بخت یہودی بھول جاتا ہے کہ جب سے یہ مکار عیار اور دغا باز قوم منصہ شہعود پر آئی ہے۔
اس کی تاریخ میں اس قسم کے بے شمار واقعات کے علاوہ کچھ نہیں ہوا، اس قوم کی فطرت ہے کہ جب طاقت ور ہوتی ہے تو انتہائی ظالم ہوتی ہے لیکن جب کم زور ہوتی ہے تو چیخنے چلانے ٹسوے بہانے اور نالہ و فریاد کے ریکارڈ توڑ دیتی ہے، ان کی تمام کتابیں حالانکہ ان کی اپنی لکھی ہوئی ہیں لیکن ان میں ان کا پورا کردار سامنے آتا ہے اور تو اور یہ خدا تک سے دغا بازی کرنے سے بھی نہیں چوکتی، حضرت موسیٰ ان کو فرعون کے مظالم سے چھڑا لایا تو ان کم بختوں نے طرح طرح کے مطالبے کر کے ان کے ناک میں دم کر دیا اور کہا کہ تم اور تمہارا خدا جا کر دشمنوں سے لڑو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔