بلدیاتی الیکشن ایک نعمت
انسانی ہی نہیں جانوروں کی زندگی بھی ان کے رکھوالے انسانوں کے ساتھ قدرے چین سے گزر جاتی ہے۔
میں جو ایک سو ایک فی صد دیہاتی ہوں اور وہ بھی پتھریلا اور پہاڑوں کی گود میں پلا ہوا ان دنوں بلدیاتی الیکشن سے بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ ایک تو ان پہاڑوں کی سنی جائے گی اور ان کے درخت کوئی چاہے گا تو محفوظ ہو جائیں گے، کاٹے نہیں جائیں گے۔ یہی درخت ہیں جو پہاڑوں سے بہنے والی مٹی کو روکتے ہیں اور گاؤں کے گھروں کے لیے لکڑی فراہم کرتے ہیں اور سخت سردیوں میں ان لکڑیوں کی آگ بھی۔ اس طرح سردی کا سخت اور بے رحم موسم قابو میں رہتا ہے اور انسانی زندگی بسر ہوتی رہتی ہے۔
انسانی ہی نہیں جانوروں کی زندگی بھی ان کے رکھوالے انسانوں کے ساتھ قدرے چین سے گزر جاتی ہے۔ دیہاتی زندگی جس کا عموماً کوئی پرسان حال نہیں ہوا کرتا، بس ایسے ہی حیلوں بہانوں سے گزر سکتی ہے اور گزر جاتی ہے البتہ اگر کوئی دیہی زندگی کی دیکھ بھال کرنے والا ہو تو یہ زیادہ آسانی اور کسی حد تک ترتیب سے گزر جاتی ہے۔ بلدیاتی منتخب ادارے جب وجود میں آئیں گے تو ان کے ذمے دار لوگ ان عوام کی سب سے پہلے سنیں گے جن کے ووٹوں سے وہ آج منصب دار ہیں اور ان کی ایک حیثیت ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب بارش ہوتی تھی تو پہاڑ کا پانی اور دوسرا مٹی سے بھرا ہوا عام پانی گاؤں کی گلیوں میں پھیل جاتا تھا اس کے بعد ان گلیوں سے گزرنا ایک مہم ہوا کرتی تھی لیکن گزشتہ بلدیاتی الیکشن کے بعد گاؤں کے بڑوں کو سب سے پہلے گلیاں درست کرنے پر لگایا گیا۔
انھوں نے گلیوں پر پتھر بچھا کر انھیں کیچڑ سے محفوظ کر دیا اور کونوں کھدروں میں اینٹیں بھی لگا دیں، اس کے بعد برسات کے موسم گاؤں جانا ہوا تو دل چاہتا تھا، ان نئی گلیوں میں گھومتے پھرتے رہیں، وہ گلیاں جو بھی بند راستے بن گئی تھیں اب کھلے اور آسان راستے بن چکی ہیں جن پر جوتوں سمیت مٹر گشت بھی ہو سکتی تھی اور جوتے صاف رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں کی گاؤں کی گلیاں شہروں کے راستوں سے زیادہ محفوظ اور صاف ستھری تھیں۔
بس یوں سمجھیں کہ گاؤں کی دنیا ہی بدل گئی تھی اور گاؤں کے لوگ اس نئی زندگی کا جشن مناتے تھے۔ نوجوان ان گلیوں میں دوڑتے تھے اور بزرگ ان کو ڈانٹتے تھے۔ یہ سب عیاشی اس لیے تھی ایک الیکشن ہوا جس نے گاؤں کی دنیا ہی بدل دی اور اسے نیا رنگ دے دیا۔ وہ رنگ جس کا خواب میں لاہور کے مال روڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا کرتا تھا بات صرف اتنی ہے کہ کوئی ذمے دار ہو اور ان لوگوں کا خیال کرے جنہوں نے اسے ووٹ دے کر بڑا بنا دیا ہے باقی کام خود بخود ہی ہوتا رہتا ہے۔
گاؤں کو درست کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ایک تو لوگ مکمل تعاون کرتے ہیں، دوسرے تھوڑے سے خرچ کے ساتھ بڑا سا کام ہو جاتا ہے چونکہ جتنا خرچ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے اور اس میں ہیرا پھیری شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے سوائے اس کے کہ بازار سے ہی کوئی چیز مہنگی ملے۔ گاؤں کو درست کرنا اور اسے قابل رہائش بنانا ایک آسان کام ہے۔
ہمارے پہاڑی گاؤں میں کچھ لوگوں نے آگ کے لیے لکڑی کاٹنی شروع کر دی لیکن گاؤں کے بڑے یکدم چونک پڑے بیٹھک ہوئی اور اس میں جنگل سے لکڑی کاٹنے پر مناسب پابندی لگا دی گئی اور وہ بھی ایک خاص لکڑی کی۔ گاؤں میں متفقہ فیصلوں کی خلاف ورزی نہیں ہوا کرتی اور ضروری اشیاء کے نرخ تک قابو میں رہتے ہیں۔ گاؤں کی پیداوار تو ہوتی ہی اپنے اختیار میں ہے البتہ باہر سے لائی گئی اشیا کی قیمت بازار کی ہوتی ہے لیکن خریدار کی نیت درست ہو تو بازار والے بھی رعایت کر دیتے ہیں۔
ہمارے دیہات سبزہ زاروں کا دوسرا نام ہیں۔ کھیتوں میں آباد ہیں اور زراعت ان کی دنیا ہے جسے شہروں کے بابو اپنے الٹ پلٹ فیصلوں سے خراب کرتے رہتے ہیں جب کہ گاؤں والوں کا یہ مطالبہ ہی نہیں درخواست ہوتی ہے کہ انھیں کچھ نہ کہا جائے جو کچھ ان سے لینا ہے لے لیا جائے مگر انھیں اپنی محنت مزدوری سے نہ روکا جائے۔
ایوب خان کے زمانے میں دیہات کے عیش تھے اور یہ ایک آزاد دنیا تھی اوپر تھے نواب کالا باغ جو خود ایک کاشتکار تھے چنانچہ لوگ اس طرح خوشحال ہو گئے کہ ان کی پیداوار ان کے اختیار میں تھی جو چیز گاؤں کی ضرورت سے بچتی تھی وہ باہر جاتی تھی۔ مناسب حد تک زرعی سامان بھی موجود تھے اور ان کو چلانے والے بھی دو تین دیہات میں جمع رہتے تھے یہاں سے وہ ضرورت پڑنے پر آ جاتے تھے۔
فصلوں کا سپرے ہوتا تھا اور فصلوں کی بیماریوں کا علاج بھی لیکن آج کے حکمرانوں سے بات کریں تو وہ تعجب کریں گے کہ گاؤں میں بھی حالات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف بلدیاتی الیکشن مبارک اور اس کے نتائج مثبت نکلیں گے اگر حکمران نیک نیت رہے تو دیہات کی دنیا بدل سکتی ہے اور دیہات بدل جائیں تو شہر خود بخود بدل جاتے ہیں دیہات اور شہروں کو الگ نہیں کیا جا سکتا یہ ایک دوسرے پر زندہ رہتے ہیں ان کے جسم دو مگر جان ایک ہی ہے۔
انسانی ہی نہیں جانوروں کی زندگی بھی ان کے رکھوالے انسانوں کے ساتھ قدرے چین سے گزر جاتی ہے۔ دیہاتی زندگی جس کا عموماً کوئی پرسان حال نہیں ہوا کرتا، بس ایسے ہی حیلوں بہانوں سے گزر سکتی ہے اور گزر جاتی ہے البتہ اگر کوئی دیہی زندگی کی دیکھ بھال کرنے والا ہو تو یہ زیادہ آسانی اور کسی حد تک ترتیب سے گزر جاتی ہے۔ بلدیاتی منتخب ادارے جب وجود میں آئیں گے تو ان کے ذمے دار لوگ ان عوام کی سب سے پہلے سنیں گے جن کے ووٹوں سے وہ آج منصب دار ہیں اور ان کی ایک حیثیت ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب بارش ہوتی تھی تو پہاڑ کا پانی اور دوسرا مٹی سے بھرا ہوا عام پانی گاؤں کی گلیوں میں پھیل جاتا تھا اس کے بعد ان گلیوں سے گزرنا ایک مہم ہوا کرتی تھی لیکن گزشتہ بلدیاتی الیکشن کے بعد گاؤں کے بڑوں کو سب سے پہلے گلیاں درست کرنے پر لگایا گیا۔
انھوں نے گلیوں پر پتھر بچھا کر انھیں کیچڑ سے محفوظ کر دیا اور کونوں کھدروں میں اینٹیں بھی لگا دیں، اس کے بعد برسات کے موسم گاؤں جانا ہوا تو دل چاہتا تھا، ان نئی گلیوں میں گھومتے پھرتے رہیں، وہ گلیاں جو بھی بند راستے بن گئی تھیں اب کھلے اور آسان راستے بن چکی ہیں جن پر جوتوں سمیت مٹر گشت بھی ہو سکتی تھی اور جوتے صاف رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں کی گاؤں کی گلیاں شہروں کے راستوں سے زیادہ محفوظ اور صاف ستھری تھیں۔
بس یوں سمجھیں کہ گاؤں کی دنیا ہی بدل گئی تھی اور گاؤں کے لوگ اس نئی زندگی کا جشن مناتے تھے۔ نوجوان ان گلیوں میں دوڑتے تھے اور بزرگ ان کو ڈانٹتے تھے۔ یہ سب عیاشی اس لیے تھی ایک الیکشن ہوا جس نے گاؤں کی دنیا ہی بدل دی اور اسے نیا رنگ دے دیا۔ وہ رنگ جس کا خواب میں لاہور کے مال روڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا کرتا تھا بات صرف اتنی ہے کہ کوئی ذمے دار ہو اور ان لوگوں کا خیال کرے جنہوں نے اسے ووٹ دے کر بڑا بنا دیا ہے باقی کام خود بخود ہی ہوتا رہتا ہے۔
گاؤں کو درست کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ایک تو لوگ مکمل تعاون کرتے ہیں، دوسرے تھوڑے سے خرچ کے ساتھ بڑا سا کام ہو جاتا ہے چونکہ جتنا خرچ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے اور اس میں ہیرا پھیری شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے سوائے اس کے کہ بازار سے ہی کوئی چیز مہنگی ملے۔ گاؤں کو درست کرنا اور اسے قابل رہائش بنانا ایک آسان کام ہے۔
ہمارے پہاڑی گاؤں میں کچھ لوگوں نے آگ کے لیے لکڑی کاٹنی شروع کر دی لیکن گاؤں کے بڑے یکدم چونک پڑے بیٹھک ہوئی اور اس میں جنگل سے لکڑی کاٹنے پر مناسب پابندی لگا دی گئی اور وہ بھی ایک خاص لکڑی کی۔ گاؤں میں متفقہ فیصلوں کی خلاف ورزی نہیں ہوا کرتی اور ضروری اشیاء کے نرخ تک قابو میں رہتے ہیں۔ گاؤں کی پیداوار تو ہوتی ہی اپنے اختیار میں ہے البتہ باہر سے لائی گئی اشیا کی قیمت بازار کی ہوتی ہے لیکن خریدار کی نیت درست ہو تو بازار والے بھی رعایت کر دیتے ہیں۔
ہمارے دیہات سبزہ زاروں کا دوسرا نام ہیں۔ کھیتوں میں آباد ہیں اور زراعت ان کی دنیا ہے جسے شہروں کے بابو اپنے الٹ پلٹ فیصلوں سے خراب کرتے رہتے ہیں جب کہ گاؤں والوں کا یہ مطالبہ ہی نہیں درخواست ہوتی ہے کہ انھیں کچھ نہ کہا جائے جو کچھ ان سے لینا ہے لے لیا جائے مگر انھیں اپنی محنت مزدوری سے نہ روکا جائے۔
ایوب خان کے زمانے میں دیہات کے عیش تھے اور یہ ایک آزاد دنیا تھی اوپر تھے نواب کالا باغ جو خود ایک کاشتکار تھے چنانچہ لوگ اس طرح خوشحال ہو گئے کہ ان کی پیداوار ان کے اختیار میں تھی جو چیز گاؤں کی ضرورت سے بچتی تھی وہ باہر جاتی تھی۔ مناسب حد تک زرعی سامان بھی موجود تھے اور ان کو چلانے والے بھی دو تین دیہات میں جمع رہتے تھے یہاں سے وہ ضرورت پڑنے پر آ جاتے تھے۔
فصلوں کا سپرے ہوتا تھا اور فصلوں کی بیماریوں کا علاج بھی لیکن آج کے حکمرانوں سے بات کریں تو وہ تعجب کریں گے کہ گاؤں میں بھی حالات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف بلدیاتی الیکشن مبارک اور اس کے نتائج مثبت نکلیں گے اگر حکمران نیک نیت رہے تو دیہات کی دنیا بدل سکتی ہے اور دیہات بدل جائیں تو شہر خود بخود بدل جاتے ہیں دیہات اور شہروں کو الگ نہیں کیا جا سکتا یہ ایک دوسرے پر زندہ رہتے ہیں ان کے جسم دو مگر جان ایک ہی ہے۔