یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے…
متعدد لوگوں کی زندگی کے چراغ گل کرکے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہل مرحلہ ختم ہوا،
متعدد لوگوں کی زندگی کے چراغ گل کرکے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا پہل مرحلہ ختم ہوا، ان پہلے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشنوں نے کئی گھروں کو لہو لہوکر دیا، کہیں پی پی کے کارکن قتل ہوئے تو کہیں تحریک انصاف کے اور کہیں ن لیگ و دیگر جماعتوں کے۔ لیکن شکر ہے ''قومی لیڈروں'' پر آنچ بھی نہیں آئی۔
جب سے بلدیاتی انتخابات کی مہم کا آغاز ہوا ہے، روزانہ کی بنیاد پر پارٹی کارکن ہلاک ہوئے اور الیکشن کے دن کارکنوں کی لاشوں پر پی پی اور ن لیگ نے انتخابات کی جیت کی خوشی منائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ موروثی سیاست میں یہ کارکن ٹیشو پیپر کی طرح استعمال بھی ہوئے، انھیں پارٹیوں کی جانب سے ''پارٹی کاز'' پر مر مٹنے جیسے 'رہنما اصول' سکھائے گئے، لیکن انھیں کبھی اقتدار کے زینوں تک نہ جانے دیا گیا بلکہ اقتدار ہمیشہ ان پارٹی لیڈروں کے خاندان تک ہی رہا یا سرمایہ داروں کے حصے میں آیا۔
غریب کارکن اور جیالے سالوں سال نہ صرف بھٹو زندہ آباد، شیر آیا شیر آیا، جئے اسفند یار، تبدیلی کا نام عمران خان، جئے الطاف اور جئے فضل الرحمن کے نعرے لگاتے ہیں بلکہ سال کے 365 دن اپنی جماعت اور پارٹی کو فعال بنانے کے لیے شب و روز تگ و دو بھی کرتے ہیں۔ لیکن اچھے وقت انھیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ان پارٹیوں کے لیڈر سیاست کی بدولت ملک کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے لگے جب کہ کارکن اذیت ناک زندگی کی طرف گامزن ہوگئے، آج زرداری ملک کا دوسرا بڑا امیر ترین شخص جب کہ نواز شریف پاکستان کی چوتھے امیر ترین شخصیت ہیں، دوسرے قومی لیڈر بھی کسی سے پیچھے نہیں، اسفند یارولی، فضل الرحمن، عمران خان اور دیگر کئی قومی لیڈر ملک میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کو یہ یاد نہیں وہ جن کارکنوں کے خون کے عوض وہ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ان کا خاندان کس حال میں ہے۔۔۔ میرے خیال میں تو ہمارے لیڈرز کو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ کس کارکن نے کب اس کی پارٹی کے لیے جام شہادت نوش کیا۔۔۔ پیپلز پارٹی کو تو 1969ء میں وہ ٹیکنالوجی کالج کا طالب علم بھی یاد نہیں ہوگا جس نے آمریت کے خلاف جنگ لڑنے میں پولیس تشدد کے باعث جان دے دی اور انھی شہیدوں کے خون سے اپنے آپ کو رنگ کر بھٹو کو سیاست میں عروج ملا، پھر 70کی دہائی کے شہداء بھی کسی کو یاد نہیں ہوں گے جو روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے سر پر کفن باندھ کر نکلے۔
تحریک نظام مصطفیٰ 1977ء میں جس طرح ریاست نے کارکنوں اور عام لوگوں کو خون میں نہلایا گیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، پھر بعد میں انھی کی لاشوں پر پاؤں رکھ کر اپوزیشن لیڈروںنے ضیاء الحق سے وزارتیں حاصل کیں اور جو کارکن شہید ہوئے ان کا آج تک کسی فورم پر اس طرح سے ذکر نہیں کیا گیا۔ پھر1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرنے والے بے شمار کارکنوںکو قتل کر دیا گیا، بہت سوں نے خود کو زندہ جلا ڈالا اور موت کو گلے لگا لیا، افسوس بینظیر بھٹو اور بعد میں آنے والی قیادت نے کبھی اُن جیالوں کا ذکر بھی نہیں کیا، عمران خان نے ملتان کے جلسے میں اپنی تقریر جاری رکھی جب کہ بھگدڑ کی وجہ سے اُن کے سات کارکن ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے، ابھی چند ماہ قبل وفات پانے والے کارکن شیخ عتیق احمد جو پیپلزپارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل شیخ رفیق احمد کے بڑے صاحبزادے تھے، جنرل ضیاالحق کی ڈکٹیٹر شپ کے دور کے خلاف جدو جہد میں انھیں جیل میں ڈالا گیا اور ان پر بے تحاشہ تشدد کیا گیا، جب کہ ان کے چھوٹے بھائی توثیق احمد کو 1983ء میں شاہی قلعہ لاہور میں 4 ماہ تک تشدد سہنا پڑا جس سے ان کی بینائی متاثر ہوئی۔ ان کے علاوہ حاجی مہابت اعوان جیسے کئی کارکنوں نے تحریک انصاف کے لیے قربانیاں دیں، لیکن انھیں سب بھول گئے۔ حاجی مہابت اعوان کی تحریک انصاف میں جو عزت تھی اس کو اس سے کہیں زیادہ ن لیگ میں شمولیت کے بعد ملی اور یہ ملنی بھی تھی کیونکہ مخلص کارکن اور جیالے کبھی ضایع نہیں ہوتے۔ حاجی مہابت اعوان کا تو کچھ نہیں بگڑا مگر تحریک انصاف ایک مخلص رہنما وکارکن اورعمران خان ایک جانثار ساتھی سے ضرور محروم ہوئے۔
ہزار وں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا
سانحہ کارساز میں جو کارکن موت کے منہ میں چلے گئے ان کے خاندانوں کا کیا بنا؟ بے نظیر بھٹو کے شہید ہونے کے وقت جو 27 جیالے موت کی وادی میں اُتر گئے ان کا آج تک کسی نے ذکر تک نہیں کیا۔ پھر جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کراچی گئے وہاں سیاسی کارکنوں اور وکلاء کو موت کی نیند سلا دیا گیا ان کے خاندانوں کا کیا بنا؟ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سیاسی شہداء کو کیا ملا؟ ان سب کے علاوہ ہر الیکشن میں سیکڑوں مرنے والے کارکنوں کو کیا ملتا رہا؟ صرف اور صرف 2، 3 یا 5لاکھ روپے معاوضہ؟ حیرت کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب جو پارٹیاں اقتدار میں آنے کے لیے اپنے کارکنوں کا سہارا لیتی ہیں اقتدار میں آنے کے بعد ان سے منہ پھیر لیتی ہیں۔
افسوس از حد افسوس یہ کہ کسی جماعت کے منشور میں یہ بات نہیں ہے کہ اس کی جماعت کے شہید ہونے والے کارکنوں کے ساتھ کیا 'سلوک' کیا جائے گا۔ حالانکہ ان کی لاشوں کے زینے بنا کر لیڈر وزارتیں حاصل کرتے آئے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو آگے بڑھانے میں اُس کے کارکن سب سے زیادہ کردار ادا کرتے ہیں یوں سمجھ لیں کہ ایک پرندہ اگر اڑتا ہے تو اپنے پروں کی وجہ سے، اگر اُسکے پر کاٹ دیے جائیں تو پھر وہ اڑنے کے قابل نہیں رہتا، یہ ہی حال کسی بھی سیاسی جماعت اور اُس کے رہنما کا ہے کہ اُس کی جماعت کے کارکن ہی اُس کو آگے بڑھاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی پارٹی کے کارکنوں کوصرف اپنے مقاصد کے لیے استمال کرتے ہیں اور وقت آنے پر پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔
یہ غریب کارکن اور جیالے تو من، تن اور دھن پارٹی کے لیے قربان کر دیتے ہیں لیکن ان غریب کارکنوں اور جیالوں کو پارٹی کے سرمایہ دار، جاگیردار لیڈر ان قربانیوں کا جو صلہ دیتے ہیں وہ دیکھ کر رو نگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت اس ملک کے لیڈروں کے ہاں سیاسی کارکنوں اور جیالوں کی قدر و قیمت ٹشو پیپر سے کچھ زیادہ نہیں جب ان سے مقصد اور مفاد پورا ہوا دیوار سے لگا دیا یا ہوا میں اڑا دیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی جماعت کے منشور میں شہداء اور معذور ہونے والے کارکنوں اور ان کے خاندانوں کے مداوا کے لیے کوئی ونگ قائم نہیں اور نہ ہی اس کا ذکر ہے جو ایک قابل شرم بات ہے۔
بہر کیف پاکستان میں جمہوریت ایک مقدس گائے بن چکی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ سیاسی کارکنوں کے لیے ایک ایسا ادارہ بنائے جس میں شہید کارکنوں کے خاندانوں کی کفالت کی جاسکے، نہتے عوام کے مرنے یا شہید ہونے پر لواحقین کے منہ بند کروانے کے لیے حکومت 5لاکھ روپے فی کس معاوضہ دیتی ہے اس کے بعد اس خاندان کا کیا بنا کسی کو علم نہیں ہوتا بلکہ اسے معاشرے میں بھکاری بنا کر چھوڑ دیتی ہے نہ اس ''شہید'' کے لیے کہیں گھر ملتا ہے نہ اس کے بچوں کی پڑھائی کا خرچہ برداشت کیا جاتا ہے اور نہ ہی کہیں اس کے بچوں کی نوکری کا بندوبست کیا جاتا ہے بلکہ بقول حبیب جالب دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے