’’ تاریخی فیصلہ‘‘
ربّ میرے زیادہ نزدیک ہے یا طاقتور کا وہ مُکاّ جو میرے منہ پر پڑنے ہی والا ہے۔
قومی اسمبلی کی پریس گیلری کی طرف جاتے ہوئے میں اپنی گاڑی عامیوں کے لیے بنائی پارکنگ میں کھڑی کر کے گیٹ نمبر 5 سے داخل ہونے کے بعد سیڑھیاں چڑھتا ہوا پارلیمان کی دوسری منزل پر پہنچتا ہوں۔
ہمارے نمایندگان لفٹوں سے برآمد ہو کر اسی فلور سے اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے ایوان میں داخل ہوتے ہیں۔ لفٹوں سے نکلتے ہی آپ کو اپنے دائیں اور بائیں جانب دیواروں پر انگریزی اور اُردو زبان میں سنگ مرمر پر کنندہ سپریم کورٹ کا وہ ''تاریخی'' فیصلہ نظر آتا ہے جس کے ذریعے عزت مآب جسٹس نسیم حسن شاہ اور ان کے برادر ججوں نے فل بنچ کے ذریعے نواز شریف کی ''پہلی'' حکومت اور 1990 کے انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی قومی اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس حکومت اور اسمبلی کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن اور نا اہلی کے سنگین الزامات لگا کر اپریل 1993میں برطرف کیا تھا۔ اس وقت کی قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب گوہر ایوب خان اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے۔
خالد انور نام کے ایک وکیل نے ان کی طرف سے مقدمہ لڑا۔ خالد صاحب اس مقدمے میں پیش ہونے سے پہلے کاروباری اور دیوانی معاملات کے ماہر وکیل مانے جاتے تھے۔ اگرچہ وہ ماضی کے ایک وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے فرزند بھی تھے، مگر اس مقدمے سے پہلے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں شہرت پھیلانے والے ''آئینی مقدمات'' کے حوالے سے ان کا کبھی ذکر تک نہ ہوا تھا۔ پھر بھی نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی کی بحالی کے لیے انھوں نے جو دلائل پیش کیے انھوں نے دنیا کو حیران و متاثر کر دیا۔ اسی مقدمے کی سماعت کے دوران ایک معتبر جج، جسٹس شفیع الرحمن، ایک فقرہ بڑی ہذیانی کیفیت میں بار بار دہراتے رہے جس کا مفہوم یہ تھا کہ کرپشن کے الزامات صدر یا کسی اور ادارے کو ایک منتخب حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار فراہم نہیں کرتے۔
جب 1990 کے انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی قومی اسمبلی بحال ہو گئی تو اسپیکر گوہر ایوب خان نے فیصلہ کیا کہ نواز شریف کی حکومت کو بحال کرنے والا ''تاریخی فیصلہ'' قومی اسمبلی کی دیواروں پر کنندہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے انھیں ایمان کی حد تک یقین تھا کہ اس ''تاریخی فیصلے'' کے بعد کوئی طالع آزماء آیندہ کسی منتخب حکومت یا اسمبلی کو گھر بھیجنے کی جرأت نہ کر پائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلے کے آ جانے کے چند ہی ہفتوں بعد میاں صاحب نے اپنے ہاتھوں سے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحید کاکڑ کو اپنا استعفیٰ لکھ کر دے دیا۔ اس شرط کے ساتھ کہ غلام اسحاق سے بھی استعفیٰ لو اور نئے انتخابات کا بندوبست کرو۔ یہ سب کچھ تو ہو گیا مگر نئے انتخابات کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔
ان کی دوسری حکومت کو ان ہی کے بنائے صدر فاروق لغاری نے برطرف کیا۔ مگر سپریم کورٹ کو اس ضمن میں اپنا ہی دیا گیا ایک ''تاریخی فیصلہ'' بھول گیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اس وقت سجاد علی شاہ صاحب ہمارے چیف جسٹس تھے اور یہ وہ واحد جج تھے جنہوں نے نواز شریف کی حکومت کی بحالی والے فیصلے پر ''اختلافی نوٹ'' لکھا تھا جس میں اس بات پر تاسف کا اظہار کیا گیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ صرف ''پنجابی حکمرانوں'' کو انصاف فراہم کیا کرتی ہے۔ بھٹو اور بے نظیر جیسے سندھیوں کے ساتھ ایسی کرم فرمائیاں نہیں ہوا کرتیں۔بہر حال اپنے ہی اختلافی نوٹ کو بھلا کر شاہ صاحب نے فاروق لغاری کے فیصلے کی تصدیق کر دی۔ نئے انتخابات ہوئے اور نواز شریف صاحب ''بھاری مینڈیٹ'' کے ساتھ دوبارہ وزیر اعظم بن گئے۔
اپنے اقتدار کو تھوڑا مستحکم کرنے کے بعد انھوں نے فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کی فراغت کے راستے بھی ڈھونڈ لیے۔ بعدازاں ایک چیف آف آرمی اسٹاف سے بھی استعفیٰ لے لیا۔ مگر جنرل پرویز مشرف سے جان چھڑانا چاہی تو ان کا تختہ ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے اس تختے کی قانونی توثیق فرمائی۔ جنرل مشرف کو پورے تین سال پاکستان کو کرپشن سے فارغ کر کے ''حقیقی جمہوریت'' قائم کرنے کی تیاریوں کے لیے بھی دے دیے اور یہ اختیار بھی بخش دیا کہ ''وسیع تر قومی مفاد'' میں وہ آئین میں جو چاہے تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔
''کرپشن سے پاک حقیقی جمہوریت'' کے قیام کے لیے جنرل مشرف نے جب پاکستان مسلم لیگ (ق) کی پشت پناہی شروع کی تو گوہر ایوب خان صاحب لپک کر اس جماعت میں شامل ہو گئے۔ گریجویٹ نہ ہونے کے باعث وہ خود تو قومی اسمبلی میں نہ آ پائے مگر ان کے ہونہار بروا جناب عمر ایوب خان ان کی مانسہرہ والی ''آبائی نشست'' سے منتخب ہوئے اور پورے پانچ سال تک جناب شوکت عزیز کے نائب وزیر خزانہ رہتے ہوئے امور جہاں بانی سیکھتے رہے۔ یہ سب کچھ تو ہو گیا۔ مگر پارلیمان کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ''ہمیشہ کے لیے خود مختار'' بنانے والے ہمارے جمہوری مجاہدوں میں سے کسی ایک میں بھی ابھی تک یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کم از کم قومی اسمبلی کے دوسرے فلور پر لفٹوں سے باہر نکل کر نمایاں نظر آنے والے ''تاریخی فیصلے'' کو دیواروں سے ہٹا دیں۔ مجھے تو شبہ ہے کہ ان میں سے اکثر نے شاید کبھی اس فیصلے کو دیواروں پر نمایاں طور پر کنندہ ہونے کے باوجود دیکھا بھی نہ ہو گا۔
اگر آپ نے میرا یہ کالم یہاں تک پڑھنے کی زحمت کر ہی لی ہے تو یقیناً آپ کے ذہن میں سوال اُٹھ چکا ہو گا کہ میں تاریخ نویسی کے نام پر طوطا مینا کی کہانیاں سنا کر آپ کا وقت کیوں ضایع کر رہا ہوں۔ بڑے ادب سے گزارش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ مجھے ہمارے حالیہ ماضی کی یہ سب باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ اصغر خان کے دائر کردہ 16 سالہ پرانے مقدمے کا بالآخر ایک اور ''تاریخی فیصلہ'' آ گیا ہے۔ اس ملک میں سچی اور دوامی جمہوریت کے خواہاں خواتین و حضرات اس فیصلے پر بہت خوش ہیں۔ پتہ نہیں کیوں دل چاہ رہا ہے کہ انھیں پنجابی کا ایک محاورہ سنائوں جس میں بڑی بے بس سادہ لوحی سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ربّ میرے زیادہ نزدیک ہے یا طاقتور کا وہ مُکاّ جو میرے منہ پر پڑنے ہی والا ہے۔
براہِ مہربانی یہ نہ فرض کر لیجیے گا کہ میں خدا نخواستہ پاکستان میں سچی اور دوامی جمہوریت کا خواہش مند نہیں ہوں۔ بخدا پورے خلوص سے ہوں۔ مگر اب اگر جمہوریت کے خلاف طالع آزمائی نہیں ہو سکتی تو روزانہ کسی نہ کسی چینل پر اکیلا بیٹھا لال حویلی کا مکین ایک ادارے کے سرکردہ لوگوں کو ''ستو پینے'' کے طعنے کیوں دیتا رہتا ہے۔ انگریزی زبان میں ''ضرورت ہو تو حاضر ہیں'' قسم کے مضامین کیوں چھپتے رہتے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوریت گئی بھاڑ میں ''ملک کی معیشت ڈوب چکی ہے'' اور اس کی وجہ سے قومی بقاء کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت درکار ہے جو کم از کم دو سے تین سال تک ''ووٹوں شوٹوں'' کی فضول باتوں میں اُلجھنے کے بجائے ''سخت اور دیرپا فیصلے'' کرے۔ میرے کچھ بہت ہی باخبر لوگ آج کل کچھ ''فہرستوں'' کا ذکر بھی کر رہے ہیں جو ان بدعنوان لوگوں پر مشتمل ہیں جو عبوری حکومت کے آتے ہی اس ملک سے فرار ہونے کی کوشش کریں گے۔ جان کی امان پائوں تو پوچھ سکتا ہوں کہ یہ ''فہرستیں'' کون بنا رہا ہے؟!