مقامی انتخابات کے نتائج اور سیاسی جماعتوں کے لیے سبق
پیپلزپارٹی سندھ اور مسلم لیگ)ن(پنجاب کی صوبائی سیاسی جماعتیں بن گئی ہیں۔
مقامی حکومتوں کے پہلے مرحلے کے حالیہ انتخابات کے نتائج نے سیاست کو ایک دفعہ پھر دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(کی کورٹ میں ڈال دیا ہے ۔دونوں بڑی جماعتوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی مضبوط ووٹ بینک رکھتی ہیں اور ان کے مخالفین ان کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے آپ کو قومی سیاست کے دھارے سے نکال کر صوبائی سیاست تک محدود کردیا ہے ۔
پیپلزپارٹی سندھ اور مسلم لیگ)ن(پنجاب کی صوبائی سیاسی جماعتیں بن گئی ہیں۔ اگرچہ دونوں جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے مینڈیٹ کے خاتمہ کا نعرہ لگانے والوں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔دو بڑی قومی سیاسی جماعتوں کا علاقائی یا صوبائی سیاست تک محدود ہونا قومی جمہوری سیاست کے مفاد میں نہیں ۔اگر ان دونوں جماعتوں نے اپنا دائرہ کار صوبائی سیاست سے نکال کر قومی سیاست کی طرف تبدیل نہ کیا تو دیگر صوبوں میں ان کی سیاست کا نام لینے والا کوئی نہیں بچے گا ۔
دونوں بڑی جماعتوں نے ایک قومی مفاہمت کے نام پر ایک دوسرے کے صوبے میں سیاست نہ کرنے کا عہد کرکے اقتدار کو تو مضبوط کرلیا , لیکن اپنی اپنی جماعتوں کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اس پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(عددی برتری میں اپنے مخالفین کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں لیکن دلچسپ تجزیہ یہ ہے کہ ان دونوں صوبوں میں کئی سو پر مشتمل آزاد ارکان کا جیت کر بڑی سیاسی جماعتوں کو شکست دینا خود ان بڑی جماعتوں کے لیے لحمہ فکریہ ہے ۔
دونوں بڑی جماعتوں نے واضح عددی برتری حاصل کرلی ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو آزاد ارکان کی بولیاں ہمیں دیکھنے کو ملتیں اور یہ آزاد طبقہ ہر طرح سے صوبائی حکومتوں کو بلیک میل کرتا۔سندھ اور پنجاب کے بعض اضلاع میں آزاد امیدوار پہلے نمبر پر رہے ہیں ۔اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کا جیتنا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل منصفانہ اور میرٹ پر مبنی نہیں تھا ۔ دوئم ان میں بیشتر آزاد امیدوار بڑی جماعتوں کے لوگوں کو شکست دے کر آئے ہیں ۔لیکن روایت کے طور پر یہ آزاد امیدوار اب حکومتی جماعت میں شامل ہوکر پہلے سے موجود مقامی قیادت اور جماعت کی سیاست میں بھی نئے مسائل کو جنم دیں گے ۔ بہت سے آزاد امیدوار وہ تھے جو پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے کے باعث انتخابی میدان میں کودے تھے اور بہت سے ایسے حلقے بھی تھے جہاں پارٹی ٹکٹوں کے فیصلے نہ ہونے کے باعث ان کو سیاسی جماعتوں نے اوپن چھوڑ دیا تھا ۔
دونوں بڑی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ ان کے مقابلے میں25 فیصد آزاد امیدواروں کو کامیابی ملی جو ان کے بھی تنظیمی بحران کو نمایاں کرتا ہے ۔ جماعت اسلامی جس نے پنجاب میں کہیں تحریک انصاف اور کہیں مسلم لیگ)ن(سے اتحاد کیا ، اس کی وہ حکمت عملی بھی موثر نہ ہوسکی اور بدترین شکست سے دوچار ہوئی ۔
جو کچٖھ پنجاب میں جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا ہے، خدشہ ہے کہ اسے کراچی اور حیدرآباد کے انتخابات میں کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے سیاسی ذمے داران کو اب زیادہ سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے کہ وہ انتخابی سیاست میں کیونکر غیر اہم ہوئے ہیں اور کیا ان کا انتخابی سیاست میں سیاسی تشخص بحال ہوسکتا ہے ۔یہ ہی حال ہمیں مسلم لیگ)ق(کا بھی نظر آیا جو محض گجرات کے علاقوں تک محدود نظر آئی اور پنجاب میں عوامی تحریک بھی کوئی اثر نہیں دکھا سکی ۔
ہمیں بدستور الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو بھی سامنے رکھنا ہوگا اور جو انتظامی امور میں خامیاں دیکھنے کو ملیں جس میں انتخابی عمل کا بروقت شروع نہ ہونا , عملے کا نہ پہنچنا, انتخابی مواد کی عدم فراہمی , بیلٹ پیپرز کی غلط اشاعت, ووٹر فہرستوں کی عدم درستگی سمیت بہت سے معاملات دیکھنے کو ملے۔اس سے قبل عام انتخابات اور ضمنی انتخابات میں بھی انتظامی کوتاہیوں اور بدانتظامیوں کی مثالیں دیکھنے کو ملی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن میں شفافیت کے حوالے سے بڑے فیصلے کرنے ہونگے ۔فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے بھی اپنی رپورٹ میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارا مسئلہ ایک مضبوط , خود مختار اور آزادانہ بنیادوں پر الیکشن کمیشن کی طرف پیش قدمی ہونا چاہیے۔
دوسری جانب سیکریٹری الیکشن کمیشن کی مدت ملازمت میں توسیع بھی ظاہر کرتی ہے کہ معاملات کو سیاسی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر الیکشن میں ہونے والی بدانتظامی اور کوتاہی نئے انتخابات میں نہ دہرائی جائے لیکن ہم انھی پرانی غلطیاں پر بدستور قائم ہیں۔یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ پنجاب میں ایسے امیدوار بھی انتخاب جیتے ہیں جو باقاعدہ مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ رہے ہیں اور قانون کے مجرم ہیں ۔
وہ کیسے انتخابی سکروٹنی میں کامیاب ہوئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔پہلے مرحلے کے انتخابی نتائج کو سامنے رکھیں تو اس سے ہمیں دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابی نتائج کی جھلک کو سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ عمومی رائے یہ ہی ہے کہ جو نتائج پہلے مرحلے میں نظر آئے ہیں اس ہی کی جھلک ہمیں دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابی نتائج میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔
البتہ اس دوسرے مرحلے کے انتخابات سے قبل پنجاب میں تحریک انصاف کو اپنے آپ کو جھنجھوڑنے کا موقع ملا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ پہلے مرحلے کے تجربے سے دوسرے مرحلے میں کیا سبق حاصل کرتی ہے ۔ اسی طرح کراچی اور حیدر آباد کے مراحل میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کس حد تک ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کو کم کرتی ہیں , وہ بھی اہم پہلو ہوگا۔ عمومی خیال یہ ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں مجموعی برتری ایم کیو ایم کو ہی حاصل ہوگی ۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ پنجاب میں دوسرے بلدیاتی مرحلے کا منظر نامہ آزاد امیدواروں کی اہمیت کو بڑھائے گا اور وہ بڑی تعداد میں جیت کر سامنے آئیں گے ۔