اس پہلو پر بھی توجہ دیں

بلدیاتی یا مقامی حکومتی نظام کے قیام کے لیے سندھ اور پنجاب میں پہلے مرحلے کے انتخابات ہوگئے


Muqtida Mansoor November 05, 2015
[email protected]

بلدیاتی یا مقامی حکومتی نظام کے قیام کے لیے سندھ اور پنجاب میں پہلے مرحلے کے انتخابات ہوگئے۔ سندھ کے 8 جب کہ پنجاب کے 12 اضلاع میں انتخابات کا یہ مرحلہ مکمل ہوا۔ انتخابات حسب روایت پرتشدد اور خونریز بھی تھے اور حسب معمول ان پر بدترین دھاندلی کے الزامات بھی عائد ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی کمزوریاں بھی سامنے آئیں۔ لیکن یہاں الیکشن کمیشن کے معاملات سے صرف نظر کرتے ہوئے، اپنی توجہ بلدیاتی یا مقامی حکومتی نظام پر مرکوز رکھنا چاہیں گے۔

اس پہلے مرحلے میں دونوں صوبوں میں ان جماعتوں کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی، جو اپنے متعلقہ صوبے میں حکمران ہیں۔ اس روش یا طرز عمل کو اپوزیشن دھاندلی قرار دے رہی ہے، جب کہ بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ عوام کی اس اجتماعی دانش کا اظہار ہے کہ صوبائی حکومت میں بیٹھی جماعت کو ووٹ دے کر مقامی سطح پر اپنے مسائل کو مزید پیچیدہ ہونے سے بچایا جائے۔

یہی سبب ہے کہ آنے والے باقی دو مراحل میں بھی اسی رجحان کے برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اس سے قبل بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی اسی نوعیت کا رجحان دیکھنے میں آیا تھا، یعنی عوام نے ان دونوں صوبوں میں صوبائی حکومت پر براجمان جماعتوں کے امیدوار ہی کو اکثریتی ووٹ دیا تھا۔ اس لیے سندھ و پنجاب سے پہلے مرحلہ میں سامنے آنے والے نتائج کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہیں۔

لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان انتخابات کے نتیجے میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی (Devolution of Power) ممکن ہوسکے گی یا نہیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2013ء میں چاروں صوبوں میں جو مختلف نظام متعارف کرائے گئے ہیں، وہ اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے بجائے کسی نہ کسی شکل میں محض اختیارات کی تفویض (Delegation of Power) ہیں۔ اگر چاروں صوبوں میں متعارف ہونے والے لوکل گورنمنٹ نظاموں کا جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر صوبے کی حکومت نے اپنے مخصوص مفادات کے تحت ماضی میں متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظاموں میں سے کسی ایک کو معمولی سی ردوبدل کے ساتھ منتخب کرلیا ہے، جس کی وجہ سے یہ نظام مضحکہ خیز بن کر رہ گیا ہے۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں اب تک لوکل گورنمنٹ کے تین ماڈل متعارف ہوئے ہیں۔ پہلا نظام ایوب خان نے دیا۔ اس نظام میں یونین کونسل نچلا ترین یونٹ تھا۔ اس سطح پر منتخب ہونے والا کونسلر بی ڈی ممبر کہلاتا تھا۔ ایک بی ڈی ممبر کا مقصد اپنے علاقے کے متعین شعبہ جات میں ترقیاتی کام کرانے کے علاوہ صدر مملکت، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو بھی منتخب کرنا ہوتا تھا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یہ نظام کسی بھی طور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی نہیں تھی۔

بلکہ سول بیوروکریسی مالیاتی اور انتظامی امور پر بالادست حیثیت کی حامل رکھی گئی تھی۔ یہی کچھ معاملہ 1979 میں جنرل ضیا الحق کے متعارف کردہ نظام کا بھی تھا، جہاں کونسلر، چیئرمین یا میئر کو اپنے تمام منصوبوں کے لیے درکار فنڈز میونسپل کمشنر کی منظوری سے مشروط تھے۔ اس کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے جو نظام متعارف کرانے کی کوشش کی تھی، وہ اپنے اندر بعض اہم تکنیکی سقم رکھنے کے باوجود اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی سمت میں ایک مثبت پیش رفت تھی۔ کیونکہ اس نظام میں بیوروکریسی کو پہلی بار منتخب مقامی حکومت کے تابع لانے کی کوشش کی گئی تھی۔

اس نظام کو ناکام بنانے میں جہاں Mainstream سیاسی جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا، وہیں بیوروکریسی کا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار و اختیار کی مرکزیت کی خواہاں رہتی ہیں، جب کہ بیوروکریسی ضلعی سطح تو دور کی بات صوبائی اور قومی سطح پر بھی سیاسی قیادت کے تابع رہنا اپنی توہین سمجھتی تھی۔ لہٰذا ان دونوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے اس نظام میں اصلاحات کے ذریعہ بہتری لانے کے بجائے اس کا بوریا بستر ہی لپیٹ دیا۔ ان وجوہات کے علاوہ اس نظام کے جاری نہ رہ سکنے کے دو دیگر اسباب بھی سامنے آئے ہیں۔ اول، پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سول سروس تو موجود ہے، لیکن میونسپل سروسز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ حالانکہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اور ضرورت اسی سروس کی ہے۔

جدید دنیا میں قومی اور صوبائی بیوروکریسی کے مقابلے میں میونسپل سروسز کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دوئم، سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر مختلف سطحوں کے لیے کیڈر موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی تربیت کا کوئی بندوبست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سے ایک پیشہ ور ڈکیت سیاسی جماعت کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ لہٰذا پاکستان میں اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر حقیقی منتقلی کے ساتھ مقامی حکومتی نظام کا قیام بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔

اب اگر 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کی شق 140 میں ہونے والی ترمیم کے نتیجے میں شامل ہونے والی ذیلی شق A کا مطالعہ کریں جو کہتی ہے کہ Each Province shall by law establish a local government system and devolve political, administrative and financial responsibility and authority to the elected representatives of the local governments.۔ تو اندازہ ہوتا ہے کہ چاروں صوبوں میں متعارف ہونے والے بلدیاتی نظام اس شق کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔

کیونکہ اس شق میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نچلی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اتھارٹی قائم کی جائے۔ مگر چاروں صوبوں میں متعارف ہونے والے کسی بھی نظام میں اس اتھارٹی کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ صوبائی حکومت کی مکمل بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سول بیوروکریسی بھی ان اداروں پر بالادست ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم صوبوں کے صوابدیدی اختیار کے حق میں ہونے کے باوجود 2013 میں متعارف کردہ نظاموں کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ملک میں متعارف کردہ نظاموں میں دو بنیادی سقم ہیں۔ اول، ہر صوبے میں الگ نظام ہونے کی وجہ سے ان میں یکسانیت نہیں ہے۔ دوئم، جو نظام متعارف کرایا گیا ہے، وہ آئین کی اس شق کے مطابق ریاستی انتظام کی تیسری سطح یعنی (Third Tier) نہیں ہے۔

بلکہ ایک ایسا بلدیاتی نظام ہے، جو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر صوبوں کا دست نگر ہوگا۔ اس نظام سے عوام کو کسی حد تک فوائد تو ضرور حاصل ہوں گے، مگر انھیں ترقیاتی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کا اختیار حاصل نہیں ہوسکے گا۔ جس طرح ایوب خان کے بنیادی جمہوریت یا جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں ترقیاتی کام تو ضرور ہوئے تھے، لیکن مقامی سطح پر عوام کو بااختیاریت حاصل نہیں تھی۔ بلکہ صوبائی حکومتیں اور ان کی بیوروکریسی تمام اختیارات پر حاوی تھیں۔

ہمارا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی اور تمام صوبوں کے وزیر بلدیات اور سیکریٹری بلدیات کے ساتھ سول سوسائٹی کی ان تنظیموں کو بھی مدعو کرتی، جو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے کام کررہی ہیں۔ یوں باہمی مشاورت سے ایک ایسا نظام وضع کیا جانا چاہیے تھا، جو پورے ملک کے لیے یکساں ہوتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا، بلکہ لوکل گورنمنٹ کے قیام اور ان کی نگرانی کی مکمل ذمے داری صوبوں کو سونپ دی گئی۔

جس کی وجہ سے ہر صوبے کی اکثریتی جماعت نے اپنے مخصوص مفادات کے مطابق ایسا نظام وضع کیا، جس میں اس کی بالادستی قائم رہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب اور بلوچستان نے 1979 میں متعارف کردہ جنرل ضیا کے نظام کو معمولی ردوبدل کے ساتھ دوبارہ جاری کردیا ہے۔ سندھ میں ایوب خان کی بنیادی جمہوریت اور جنرل ضیا کے نظام کا ملغوبہ متعارف کرایا گیا ہے۔ جب کہ خیبر پختونخوا نے جنرل پرویز مشرف کے مقامی حکومتی نظام کو ہی جاری کیا ہے، لیکن صوبائی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کردیا۔

لہٰذا سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک وفاقی ملک ہے، جس کے صوبے وفاقی اکائی ہیں۔ لیکن معاملہ صرف صوبائی خودمختاری تک آکر نہیں اٹک جانا چاہیے، بلکہ صوبوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان شعبہ جات کو نچلی سطح پر حقیقی منتقلی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں، جن کا براہ راست تعلق نچلی سطح کے امور سے ہے۔

یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ریاستی انتظامی ڈھانچے کو تین سطحی (Three tier) نظام میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ اس لیے ہم حالیہ بلدیاتی نظام کے شروع ہونے کو ایک خوش آیند پیش رفت ضرور سمجھتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ پارلیمان ایک بااختیار مقامی حکومت کے قیام کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے گی، تاکہ اقتدار و اختیار صحیح معنی میں ریاستی انتظام کے نچلے ترین یونٹ یعنی یونین کونسل تک منتقل ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔