سیاسی قیادت کا طویل راستہ
پاکستانی سیاست میں جو بڑی بڑی کمزوریاں خامیاں خرابیاں اور بدعنوانیاں ہیں
پاکستانی سیاست میں جو بڑی بڑی کمزوریاں خامیاں خرابیاں اور بدعنوانیاں ہیں ان کی اگرچہ کئی وجوہات ہیں لیکن ان کی ایک بڑی وجہ سیاسی قیادت کی نااہلی ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک کلرک اور چپراسی کی تقرری کے لیے اہلیت کے کچھ معیار مقرر ہوتے ہیں لیکن سیاسی قیادت کی اہلیت کے کوئی معیار مقرر نہیں۔ اب نئے ضرورت ملازمت کے اشتہارات میں تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ 5 سال 10 سال تجربے کی شرط بھی لگائی جاتی ہے۔
لیکن اعلیٰ سطح کی قیادت کے لیے نہ کوئی تعلیمی شرط ہوتی ہے نہ تجربے کی ضرورت بس یا دولت ہونی چاہیے یا پھر موروثیت۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں سیاسی کچرے کی کنڈیاں بنی ہوئی ہیں۔ سیاسی قیادت کا مطلب نہ صرف ملکی اور عالمی مسائل سے مکمل واقفیت ہے بلکہ عوام کے مسائل سے آگہی کے علاوہ عوام کی نفسیات سے آگہی بھی ضروری ہے لیکن اگر آپ ہماری 68 سالہ سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ شرمناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ان تمام شرائط سے مکمل طور پر آزاد ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں سرمایہ دارانہ جمہوریت موجود ہے اور وہاں بھی سیاسی قیادت میں کم و بیش وہی خرابیاں موجود ہیں جو ہماری سیاسی قیادت میں ، لیکن ایک خوبی وہاں یہ ہے کہ سیاسی قیادت ٹارزن کی طرح اوپر سے عوام کے سروں پر مسلط نہیں ہوتی بلکہ سیاسی میدان میں بطور آپریٹر بال سفید کرنا پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کی سیاست میں میچوریٹی نظر آتی ہے۔
اس فرق کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اب تک قبائلی اور جاگیردارانہ نظام موجود ہے اور اس کی وراثت ہماری سیاسی زندگی میں بھی در آئی ہے۔ آپ اگر اپنے ملک کی سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی جماعتوں پر بھی نظر ڈالیں تو ہر جگہ آپ کو ایک موروثی ولی عہدانہ نظام جاری و ساری نظر آئے گا اور یہاں موروثیت کے جھنڈ کے جھنڈ نظر آئیں گے جو اگلے سو سال کے لیے کافی و شافی ہیں۔
اب ہماری سیاسی قیادت کی کرم فرمائیوں کا عالم یہ ہے کہ اپنے ولی عہدوں کو ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک کے باہر بیرونی ملکوں میں بھی بھرپور طریقے سے روشناس کرایا جاتا ہے اور فہمیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہماری سیاست میں کاروباریت بہت گھس آئی ہے لہٰذا ہمارے بادشاہ لوگ اپنے ولی عہدوں کو غیر ملکی حکمرانوں سے ملا کر ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی سیاسی جانشینی کے ساتھ ساتھ کاروباری تعلقات بھی پیدا کیے جاتے ہیں۔
اس قسم کی سیاست کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی زندگی میں نچلی سطح سے اوپر آنے کے امکانات نسلوں تک معدوم ہو رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام ہماری سیاسی زندگی میں کچھ تبدیلیاں لانے کا واحد ذریعہ ہے لیکن اس ذریعے کو ایک منظم سازش کے ساتھ ساتھ اس طرح پس پشت ڈال دیا گیا ہے کہ نچلی سطح سے قیادت ابھرنے کا یہ واحد ذریعہ بھی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔اب نومبر، دسمبر میں سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا اور تیسرا مرحلہ ہونے والا ہے لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے اہم عہدوں پر ان کی اولاد بھائی بھتیجے منتخب ہوجائیں۔
ہمارے جمہوریت نواز ''لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے'' کے نعرے تو بلند کرتے ہیں لیکن ان اکابرین کی نظریں ان دیواروں پر نہیں جاتیں جو جمہوریت کے راستے میں قدم قدم پر کھڑی کردی گئی ہیں، میں نے کسی ایک جمہوریت نواز دوست کو ہمارے ولی عہدی نظام پر تنقید یا اعتراض کرتے نہیں دیکھا دوسرے ملکوں خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں سیاسی ولی عہدی کی سرے سے روایت ہی نہیں ہے، امریکا جیسے ملک میں ولی عہدی اور سیاسی موروثیت کی مثالیں تلاش نہیں کی جاسکتیں، یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں نچلی سطح سے اوپری سطح کی طرف آگے آنے کے راستے کھلے ہوئے ہیں خاص طور پر بلدیاتی نظام ان ملکوں کی سیاست اور جمہوریت کا ایسا ناگزیر حصہ بن گیا ہے کہ اس کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سیاسی جماعتوں کی ہمارے ملک میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ایک تو ایماندار نہیں دوسرے سیاسی خدمات سیاسی تجربات کے بغیر محض سجادہ نشینی کے ذریعے عوام پر مسلط ہوتی ہے انھیں نہ ملک و قوم کے اہم سیاسی اور اقتصادی مسائل کا علم ہوتا ہے نہ یہ عوام کے مسائل سے واقف ہوتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اپنے وقت کا بڑا حصہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرنے میں گزار دیا جاتا ہے۔
سیاسی اشرافیہ کا کوئی فرد اگر سیاست میں آنا چاہتا ہے تو حقیقتاً اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی لیکن اگر سیاسی اے بی سی سے واقفیت کے بغیر سیاسی اشرافیہ کے ولیعہد اعلیٰ سیاسی سطح پر کود پڑتے ہیں تو اسے ہم ایک سیاسی المیہ یا سیاسی فراڈ ہی کہہ سکتے ہیں اسے نہ ہم سیاست کہہ سکتے ہیں نہ جمہوریت۔ اس پر ستم یہ کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے ولیعہدوں کی سیاسی تربیت کے لیے قوم کا بھاری سرمایہ خرچ کرکے انھیں عوام میں متعارف کرانے کی کوشش کرتی ہے اور ان ''سیاسی مشقوں'' میں حصہ لینے کے لیے انھیں اربوں کے پروجیکٹ دیتی ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے مدبرین اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے ملک میں جتنا عرصہ بھی جمہوریت رہی وہ سرے سے جمہوریت ہی نہیں رہی بلکہ موروثی بادشاہت کا ایک نمونہ رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے قانون ساز اداروں میں عوام کی حقیقی نمایندگی سرے سے موجود ہی نہیں اور جن قانون ساز اداروں میں عوام کی حقیقی نمایندگی نہیں ہوگی ان ملکوں میں عوام کا وہی حال ہوگا جس کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں کر رہے ہیں۔
اگر پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام لانا ہے تو عوام پر قیادت کو ٹارزن کی طرح مسلط کرنے کے بجائے سیاست میں آنے کے لیے بلدیاتی نظام کے طویل تجربات کو شرط اول بنایا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا اور سیاست کو موجودہ ڈگر پر چلنے دیا جائے تو مستقبل میں پاکستان مغلوں کا پاکستان بن جائے گا ہر طرف بابر اکبر ہی نظر آئیں گے۔