اپنا احتساب آپ
انگریز سرکار 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے ایک تاجر بن کر برصغیر پاک و ہند میں نمودار ہوئی
DUBAI:
انگریز سرکار 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے ایک تاجر بن کر برصغیر پاک و ہند میں نمودار ہوئی اور اس نے ہندوستان جو کہ سارے عالم میں ''سونے کی چڑیا'' کے نام سے مشہور تھا، اس کے اقتدار اور وسائل پر آخر کار 1857ء میں مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔ وہ مسلمان جو 712 سے اس خطہ ارض پر حکمرانی کرتے چلے آ رہے تھے ان کو غلام بنا لیا، مسلمانان ہند پر انگریزوں نے ظلم و ستم و سفاکیت کی وہ داستان رقم کی جس نے انسانی تاریخ کو از حد شرمندہ کیا اور دنیا میں اس قسم کی مثال بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، مسلمانوں کو غلام بنانے کے بعد انگریزوں نے مذہبی، تعلیمی، معاشی و سیاسی طور پر مفلوج و مجبور کر دیا۔ مسلمانوں کی اس کیفیت کو ولیم ہنٹر نے اس انداز میں بیان کیا، وہ کہتا ہے کہ ''مسلمانوں کی کیفیت اور حالت 'ماہی بے آب' کی طرح ہو گئی۔''
مسلمانوں کو جلد ہی اپنی مذہبی اور سیاسی اور تعلیمی حیثیت کا اندازہ ہو گیا، لہٰذا انھوں نے اپنے مقاصد کے حصول اور مطالبات کے تسلیم اور حقوق و مفادات کے محفوظ کے لیے ''آل انڈیا مسلم لیگ'' (1906ء) کو قائم کیا جس نے مسلمانان ہند کے سیاسی مفادات و حقوق کا شاندار انداز میں تحفظ و دفاع کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مسلم لیگ کے قائد و رہبر کی حیثیت سے بانی پاکستان محمد علی جناح (1948-1876ء) نے ارض پاک کے حصول کو حقیقت کا رنگ دیا، پاکستان قائم ہو گیا۔
20 ویں صدی کی سیاسی تاریخ میں پاکستان کا قیام ایک سنگ میل کی حیثیت کھتا ہے صرف اس لیے نہیں کہ ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تھا بلکہ مملکت خداداد پاکستان نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوا تھا اور اس کا وجود مغرب اور یورپ کی قوم پرستانہ قیادت و فکر کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے عہد کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانان ہند نے اس زمانے میں جس اتحاد و یکجہتی کا شاندار اور عظیم الشان فلسفہ پیش کیا جس کی روشنی میں اﷲ رب العزت نے ارض پاک مسلمانان ہند کے لیے منظور و قبول کیا اور مملکت خداداد پاکستان مسلمانوں کے اس عزم سے تعبیر تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ''لا الٰہ الا اﷲ''۔
پاکستان کی 68 سالہ تاریخ آج کس مقام پر پہنچ چکی ہے یہ تمام پاکستانی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ گزشتہ 20 سال میں پاکستان کی سیاست، پاکستان کی معیشت، پاکستان کی مذہبیت، پاکستان کی تعلیمات، پاکستان میں قانون و عدل و انصاف، پاکستان کا سماجی ڈھانچہ اور سب سے بڑھ کر انسانیت کا انسانیت سے رشتہ سب بری طرح مفلوج اور ناکارہ ہو کر آج 19 کروڑ عوام کے سامنے ہے۔
اخلاقیات اور انسانیت کی جو تصویر آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انسان اپنے ہی جیسے انسان کے خون کا پیاسا بن چکا ہے۔ اخلاقیات کی تعلیم نے آج اس رشتے کے تقدس اور اہمیت کو بھی پامال کر دیا ہے جسے ہم سب والدین یعنی ماں باپ کے نام سے شناخت کرتے ہیں۔ اولاد اپنے ہی ماں باپ کی نافرمان ہو چکی ہے، تعلیمی ادارے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے افرادی قوت معاشرہ کو دے رہے ہیں ان سب پڑھے لکھے لوگوں کو سارا عالم اور پورا پاکستان دیکھ رہا ہے، نیز عصبیت، لسانیت اور ذاتی مفادات نے پاکستان اور خاص طور پر مسلمان کے اس اوصاف کو یکسر مسترد کر دیا جس کے بارے میں خود اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
''اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو۔''
لیکن نہ صرف ارض پاک بلکہ سارا عالم اسلام اپنے رب کے احکام و فرمان سے ببانگ دہل بغاوت و نافرمانی کر بیٹھا ہے اور پھر ابنِ آدم یہ کہتا ہے کہ ہم پر مصیبت اور پریشانی لاحق ہے ہم مہنگائی و بیروزگاری کے جزیرے میں گم ہو چکے ہیں، ہمیں زندگی کی بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں، اﷲ کا فرمان ہے کہ صبر اور شکر سے رہو اور مجھ سے مانگو میں دینے والا ہوں لیکن ہمارے مسلمان حکمراں امریکا، برطانیہ اور سعودیہ سے مانگا کرتے ہیں، یہ کیسے مسلمان حکمران ہیں۔
اسلام کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ اس بات کا درس دیتی رہی ہے کہ ''مسلمان امت وسطیٰ'' ہیں اور اس امت کی تخلیق کا مقصد ہی یہ قرار دیتا ہے کہ وہ انسانیت کی رہنمائی کرے۔ نیک کام خود بھی کرے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین و ہدایت اور نصیحت کرے، انسانیت کو برائیوں سے آگاہ کرے تا کہ خدا کی زمین دین اسلام کے لیے خالص اور پاک ہو جائے قرآن مجید کے سورۂ آل عمران میں اﷲ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں ''تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے برپا کیے گئے ہو نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو''
ارض پاک کے 19 کروڑ مسلمانو! بحیثیت مسلمان دنیا میں خود کو پہچانو کہ تمہارے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ تم دنیا میں کس لیے پیدا کیے گئے ہو؟ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، حکمران و سیاست دان، استاد، طالب علم، والدین و اولاد، دوست، دشمن، عزیز رشتہ دار، ہر فرد کو، ہر ذات کو، ہر انسان کو اس بات پر غور و فکر کرنا ہو گا کہ کیا وہ اس دنیا میں وہ کام کر رہا ہے جس کے لیے دنیا میں اس کو بھیجا گیا ہے یا پھر شیطانی کام میں اپنی شب و روز گزار رہا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
آج عالم اسلام اور پاکستانی مسلمانوں کو جو پریشانی، مصیبت اور افرا تفری کا سامنا ہے اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ہر انسان خاص طور پر تمام عالم اسلام کے مسلمان اپنا محاسبہ خود کریں اور پھر اس امر کا اندازہ کریں کہ آج جو کچھ ان کے ساتھ یا ان کے ملک کے عوام کے ساتھ پھر سارے عالم میں مسلم امہ کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے وہ خود کس حد تک ذمے دار ہیں؟ انسان کا اپنا ضمیر اور اپنے اندر کا انسان خود جواب دے گا کہ وہ بحیثیت ایک بنی نوع انسان اس دھرتی ارض پاک پر کیا کر رہا ہے؟
دوسروں کو الزام دینا، دوسروں پر تنقید کرنا، دوسروں پر تہمت درازی کرنا، دوسروں کے خلاف زبان کو کھولنا بہت آسان اور سہل کام ہے لیکن اپنا محاسبہ خود کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے اور ہر انسان کی حقیقی کامیابی اس کی اپنی ذات کے احتساب کے گرد گھومتی ہے۔ اگر ہر انسان خاص طور پر پاکستانی مسلمان اور عالم اسلامی کی امت مسلمہ اپنی زندگی کو دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران کرنا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات سے انصاف کریں کہ کیا موجودہ دور کا مسلمان اس دنیا میں حق بندگی اور رب کے فرمان کے مطابق اپنی زندگی گزار رہا ہے، حقیقت سچائی کا شکل میں آپ کے پاس ہو گی۔
تمام سیاسی، لسانی، نسلی اور فرقہ ورانہ امتیاز مٹا کر، الجھن، ابتری اور انتشار ختم کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق اور تنظیم و یقین محکم پیدا کریں، ہمیں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، ہمارے وطن نے ہمیں سب کچھ دیا لیکن ہم نے وطن کو کیا دیا؟ شاید یہی مناسب وقت ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنا محاسبہ کرے اور اپنا احتساب آپ کرے۔