اقبال کا نظریہ آدم اور آدمیت
ہلکی سی خنکی کی ابتدا، سورج کا جلدی منہ موڑنا کیا، یہ نومبر کی شروعات ہے
ہلکی سی خنکی کی ابتدا، سورج کا جلدی منہ موڑنا کیا، یہ نومبر کی شروعات ہے، بات 1877 سیالکوٹ 9 نومبر کی ہے، جب ایک گل لالہ محمد اقبال کھلا، کسی کو کیا معلوم تھا کہ ایک روز یہ گل ایک گلستان بن جائے گا اور یہ آدم خاکی کو حیات کے پرانے تصور عصیاں سے نکال کر اس کو نئے دور میں داخل کردے گا، ماضی کا یہ تصور خصوصاً انسان کے متعلق کہ یہ گناہ گار جنت سے نکالا گیا اور ایک سزا کے طور پر زمین پر اتارا گیا، یہ تو مجبور محض ہے، اپنے آپ کچھ کرنا اس کے بس میں نہیں، جیسا کہ میر تقی میر نے فرمایا:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ایک زمانے میں یہی تصور جبر و قدر میں الجھاؤ تھا کہ آدمی کس قدر قدرت رکھتا ہے اور کس قدر مجبور ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ صدیوں سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ تاریخ میں رقم ہے کہ ایک شخص حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے پاس آیا اور اس نے سوال کیا کہ انسان کتنا مجبور ہے اور کتنا خودمختار؟ آپ نے فرمایا کہ اپنا دایاں پاؤں اٹھا اس نے اٹھایا پھر فرمایا کہ بیک وقت اب بایاں پاؤں اٹھا جو ممکن نہ تھا۔ انسان کتنا مجبور اور کتنی قدرت رکھتا ہے۔
کائنات کے لیے اﷲ کے اصول الگ اور انسان کے لیے اصول الگ ہیں، جمادات کا اصول جمادات کے لیے اور ذی حیات کا اصول ذی حیات کے لیے، جانوروں کا اصول جانوروں کے لیے ان کی عقل کے حساب سے ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ بکرے دنبے، گائے بیل اونٹ سامنے ذبح ہوتے ہیں مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ ان کو کون ہلاک کررہا ہے، عقل بقدر ظرف دی گئی، ورنہ یہ جانور بھی انسانوں کو دندان شکن جواب دیتے۔ اقبال نے عمل کو زندگی کا جز قرار دیا ہے جیسا کہ وہ بندگان خدا سے فرماتے ہیں:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اگر شاعری کا یہ تصور جو میر نے مجبور محض کہہ کر تحریر کیا، عام کیا جائے تو پھر بدی اور اچھائی کا تصور مٹ جاتا، باوجود اس کے کہ دنیا اس مفروضے سے باہر نہ نکلی کہ انسان نافرمانی کے سبب جنت سے بے دخل کیا گیا کہ اس نے حکم خدا کی خلاف ورزی کی، مگر اقبالؒ اپنی شاعری میں ارتکاب جرم کا اعتراف کرتے نظر نہیں آتے بلکہ وہ مشیت الٰہی کے اسرار کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور خاکی پر اﷲ نے جو روح پھونکی ہے اس پر زور دیتے نظر آتے ہیں، ان کا اصرار یہ ہے کہ خدا کا انسان کو تخلیق ہونے کے جوہر کی تلاش ہے بقول علامہ کے:
ذوق تخلیق آتشے اندر بدن
از فروغِ او فروغِ انجمن
انسان کے اندر جو آگ ہے اس ذوق کی تسکین کے لیے اس کو اگر فروغ دیا جائے تو وہ فرد نہیں بلکہ ایک انجمن کا فروغ ہوگا، علامہ انسان کے ادراک اس کے ضمیر میں چھپی ہوئی آگ کا فروغ چاہتے ہیں تاکہ وہ آدم میں جو آدمیت کی روح ہے اس کو جگائیں۔ یہاں پر اقبال آدمیت کے جوہر کو نمایاں کررہے ہیں، ان کا اس موقع پر کسی دھرم کے ساتھ نہیں بلکہ آدمیت یہاں آدمی کو انسان بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں وہ اس راز خداوند کو جاننے میں مصروف نہیں کہ اس نے آدم کی تخلیق کیوں کی بلکہ آدم کی تخلیق پر انبساط میں ڈوبے نظر آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آرٹ کا یہ ماسٹر پیس (Master Piece) تیار کیا۔
نعرہ زو عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد
عشق لرزیدہ کہ صاحبِ نظرے پیدا شد
اقبالؒ نے فارسی شاعری میں خدا کے حضور جس طرح گفتگو فرمائی، وہ اردو کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور پراثر ہے مگر کہیں کہیں علامہ اردو شاعری میں آدم کا دفاع اس انداز میں کرتے نظر آئے جیسے آدم نے انھیں وکالت نامہ پر کرکے دیا ہے:
قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کرسکے آباد
اقبال کو فارسی زبان پر اس قدر قادر الکلامی تھی گویا وہ ہند میں نہیں شیراز میں پیدا ہوئے، ذرا سادہ آسان، خوبصورت فارسی ملاحظہ فرمائے، ابن آدمی کی وکالت:
توشب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ ازسنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
فرماتے ہیں تونے رات بنائی تو میں نے لیمپ یا چراغ بنائے، اے خدا تونے بیاباں و کہسارے، پہاڑ بنائے تو میں نے گلستان آباد کیے تونے زمین بنائی تو میں نے اس سے آئینہ بنایا، غرض تیری زمین کو آباد ہی کرتا رہا، گویا علامہ انسان کی عظمت اس کی ہنرمندی، محنت، جستجو قوت عمل تسخیر کائنات کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں مگر جب وہ انسان کی اپنی ہنرمندی اور اس کی انتھک محنت کا تذکرہ کرتے ہیں تو پھر وہ انسان میں اس کا جوہر تلاش کرتے ہیں جس کو وہ خودی کہتے ہیں۔ اقبالؒ تعمیر خودی کو انسان کے اپنی تعمیری صلاحیت کا جذبہ قرار دیا ہے بقول ان کے:
بے ذوق نمو زندگی موت ہے
تعمیر خودی میں ہے خدائی
ظاہر ہے جو شخص خودی کی تعمیر اس کا فروغ اس کی پرورش اور نمو کا اس قدر جذبہ رکھتا ہو، وہ بطور مجموعی انسان کی فلاح کا کسی قدر دعویٰ دار ہوگا اور وہ ایک ایسا شاعر ہے جس نے دنیاوی علوم و فنون کو اپنا ہتھیار اور خودی کو اپنی ڈھال بنایا ہو۔ اقبالؒ نے 1908 میں میونخ میں تقریباً 31 سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور ساتھ ہی شاعری اور دستاویزی علوم اور تخلیقی مواد سے خود کو گرم رکھتے رہے۔
علامہ نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا ماسوائے برطانیہ کی مسلم لیگ برانچ کی مرکزی کمیٹی کے، ایک سال کے لیے رکن رہے مگر اس مشن میں انھوں نے کوئی نمایاں کام نہ کیا کیوں کہ علامہ ہر قوم اور نسل کے رہنما کے طور پر اٹھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو انھوں نے خصوصی طور پر بیدار کرنے کی کوشش کی اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی ریاست کا خواب دیکھا مگر علامہ اقبال نے ریاست کے خدو خال کیا بتائے ہوں گے اس کا خاکہ ان کی زندگی میں براہ راست موجود نہیں مگر ان کی نگارشات اور ان کے خطبات سے ہم ضرور اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگر وہ قیام پاکستان سے قبل دیار فانی سے رخصت نہ ہوئے ہوتے تو ان کا زبردست دخل قیام پاکستان کے دستور میں ہوتا اور ان کی علمی اور عملی کاوشوں کا عکس ریاست پر موجود ہوتا، بقول ان کے:
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اس شعر کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ ایسا رزق اگر حاصل کریں جو شرائط سے بھرپور ہو اور آپ کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوں تو علامہ اس رزق پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہر مکتبہ فکر علامہ اقبالؒ کے اشعار کو اپنی عینک سے دیکھ کر تشریحات کرتا ہے مگر یہ بات واضح طور پر ان کے کلام سے نمایاں ہے کہ وہ انسان دوست، غریب پرور، انصاف پسند اور ہر غریب امیر کو مساوی مواقع دینے والے شاعر تھے۔ وہ دنیا میں ہونے والے تغیرات سے آشنا تھے اگر انھوں نے یہ کہہ دیا کہ:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ فرش سے عرش کی فتح کے لیے ان کے دل میں مزاحمت تھی بلکہ انھوں نے تقریباً یہ بات 90 سال قبل کہی کہ جذبات ختم نہیں ہوتے بوسیدہ ہوجاتے ہیں، جیسے کچل گئے ہوں، تعجب ہے اس دور کے سب سے بڑے فزکس، آرٹ، سائنس اور ریاضی پر عبور رکھنے والے فرد اسٹیفن ہاپکنز نے اپنے حالیہ بیان میں کہی ہے کہ انسان کو اگر کسی چیز سے خطرہ ہوگا تو وہ خود اس کے بنائے ہوئے روبوٹ سے ایک تخلیق جوہری ہتھیار بھی ہے جس سے آدمیت کو شدید خطرہ لاحق ہے، بہر صورت اقبال کا نظریہ آدرش آدم، آدمیت اور فلاح انسانیت ہے۔