بھارتی دانشور بھی مودی جی سے مایوس
مثلاً مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی تازہ گفتگو۔
ہمارے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف ہی بھارت اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے رویے سے مایوس نہیں ہوئے ہیں بلکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے سیاستدان، اخبار نویس اور ادیب و شاعر بھی مایوس ہیں۔
مثلاً مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی تازہ گفتگو۔ انھوں نے معروف اینکر پرسن کرن تھاپر کو (ٹی وی پروگرام Nothing but the Truth میں) انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے: ''مودی جی برسرِ اقتدار آئے تو ان سے ہم لوگوں نے، جو دہلی سے محبت رکھتے ہیں، اچھی اور بلند توقعات وابستہ کرلی تھیں لیکن اب ہم مایوس ہوتے جارہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مودی جی کے اقدامات سے ہم قطعی مطمئن نہیں۔ اس مسئلے کا اگر کوئی اطمینان بخش حل ڈھونڈنا ہے تو وزیراعظم نریندر مودی کو (سابق وزیراعظم) اٹل بہاری واجپائی کی ان پالیسیوں پر عمل کرنا ہوگا جن میں پاکستان سے دوستی کرنے کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل تب ہی نکلے گا جب پاکستان کو انگیج کیا جائے گا، بصورتِ دیگر ہم مسلسل نقصان اٹھاتے رہیں گے۔'' فاروق عبداللہ نے مزید کہا کہ اگرچہ مودی جی نے (مقبوضہ) کشمیر کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے مگر کشمیر میں مایوسی اور عدم اطمینان کا گھاؤ اتنا گہرا اور وسیع ہے کہ اس امداد کے باوجود اہلِ کشمیر نریندر مودی سے خوش نہیں ہوئے۔ ''آج صرف کشمیری ہی کشمیر میں غیر محفوظ نہیں بلکہ پورے بھارت میں تمام مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
بھارت کی اجتماعیت کے لیے یہ تباہ کن صورتحال ہے۔'' اس بیان سے قبل بھی فاروق عبداللہ نے کشمیری اور بھارتی مسلمانوں سے روا رکھے گئے بھارتی ہندوؤں کے استحصالانہ سلوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کشمیری اخبار نویس بشارت مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ''کشمیر کے مسلمان نہایت مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں۔
وہ مودی کے اقدامات سے مایوس بھی ہیں۔کشمیری رکنِ اسمبلی انجینئر ارشد سے بی جے پی کے لوگوں نے جو متشددانہ سلوک کیا اور دادری میں محمد اخلاق سیفی کو جس طرح شہید کیا گیا، مجھے خدشہ ہے کہ ان حالات سے مایوس ہوکر کشمیری مسلمان بیک زبان یہ نہ کہنا شروع کردیں کہ قائداعظم محمد علی جناح ٹھیک تھے اور ان کا دو قومی نظریہ بھی درست تھا۔''
''شیرِ کشمیر'' شیخ عبداللہ کے صاحبزادے اور مقبوضہ کشمیرکے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، جو ہمیشہ دہلی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے سچے پیروکار اور وفادار رہے ہیں، کے درج بالا الفاظ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نریندر مودی کی شخصیت اور ان کے حکومتی اقدامات نے مایوسی کے دائرے کو کس قدر وسیع کیا ہے۔
ایسے افراد میں وکرم سیٹھ بھی شامل ہیں۔ جناب وکرم سیٹھ بھارت کے معروف ادیب، شاعر اور مصنف ہیں۔ انھوں نے بھارتی انگریزی اخبار ''دی ہندو'' کی رپورٹر تشانی دوشی کو انٹرویو دیتے ہوئے برملا کہا ہے: ''وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران بھارت ادیبوں کو جس تسلسل سے قتل کیا جارہا ہے، مودی نے بیف کے مسئلے پر مسلمانوں پر ظلم کرنیو الوں کے خلاف جو مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے اور سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کرنے والوں سے جس طرح صرفِ نظر سے کام لیا جارہا ہے، اس نے مجھے بے حد مایوس کیا ہے۔
نریندر مودی کے اقدامات سے ایم کے نرائنن ایسے لوگ بھی مایوس ہوئے ہیں۔ جناب ایم کے نرائنن بھار ت کے ممتاز دانشور ہیں۔ مغربی بنگال کے گورنر اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بھارت کے انگریزی اخبار ''دی اکنامک ٹائمز'' میں اپنے ایک مفصّل آرٹیکل میں مودی جی کی پالیسیوں اور ہندو انتہا پسندوں کے بہیمانہ اقدامات پر دانستہ خاموشیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں لکھا ہے: ''اگلے سال یعنی 2016ء میں بھارتی معیشت کی شرحِ نمو (Growth Rate) میں 7.5 فیصد کا اضافہ ہوجائے گا جو چین سے بھی زیادہ ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کار بھارت آرہے ہیں لیکن مودی کی حکومت میں بعض ہندو انتہا پسند گروہ جو ناقابلِ رشک مثالیں قائم کررہے ہیں، ان سے مَیں مایوس ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر مودی جی نے ان عناصر کے منہ میں فی الفور لگام نہ ڈالی تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی آمد بھی رک جائے گی اور شرحِ نمو کا گراف بھی گر جائے گا۔''
بھارت کی ممتاز کالم نگار اور بھارتی الیکٹرانک میڈیا کی مشہور شخصیت، محترمہ تولین سنگھ، بھی کھلے بندوں مودی جی سے وابستہ اپنی مایوسیوں اور عدم اطمینانیوں کا اظہار کررہی ہیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ تولین سنگھ کے پڑھنے والے لاکھوں میں ہیں۔ وہ بھارت کے معروف انگریزی اخبار ''دی انڈین ایکسپریس'' میں ہفتہ وار کالم لکھتی ہیں۔
انھوں نے اپنے ایک تازہ کالم میں یوں لکھا ہے: ''مودی جی کی حکومت اور شخصیت سے شہ پا کر ہندو توا اور مٹھی بھر شدت پسند ہندو گروہوں نے بھارت بھر کی فضا میں نفرت اور دہشت کا زہر گھول دیا ہے۔ یہ مسموم فضا اپنے عروج کر اس وقت پہنچی جب اتر پردیش کے علاقے دادری میں ایک مسلمان (محمد اخلاق سیفی) کو محض بیف کھانے کے شبہے میں مار ڈالا گیا اور وزیراعظم مودی کی خاموشی مزید ستم ڈھاتی رہی۔
چاہیے تو یہ تھا کہ مودی سرکار میں آج ہم معاشی ترقی، نئی نئی پُرامید اقتصادی پالیسیوں اور بہتر ملازمتوں کے بارے میں باتیں کررہے ہوتے لیکن واقعات اس کے برعکس ہورہے ہیں۔ اس کے اصلی قصور وار صرف اور صرف مودی جی ہیں۔ حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ان کے ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت سے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے بھارت نے عشروں الٹی زقند بھر لی ہے۔ ایک خاص منصوبہ کے تحت پرانی نفرتیں، پرانی عداوتیں اور پرانی عدم رواداری واپس عود کر آگئی ہیں۔
مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو احساس دلایا جارہا ہے کہ سرزمینِ ہند میں زندگی گزارنی ہے تو انھیں غالب اور نام نہاد اونچی جاتی ہندوؤں کی دست نگری کی ذلتیں سہنا ہوں گی۔ اسے مودی جی کا شائننگ انڈیا ہر گز نہیں کہا جاسکتا ہے۔'' تولین سنگھ نے استفسار کیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں پر غالب اکثریت کے مظالم روز افزوں ہیں لیکن وزیراعظم مودی کی مجرمانہ خاموشی پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارتی صدر جناب پرناب مکھرجی آئے روز بیانات کیوں دے رہے ہیں؟ میڈم تولین سنگھ ایسے بھارتی صحافیوں کی مایوسیوں سے مترشح ہوتا ہے کہ بھارت میں حالات خاصے دگرگوں اور مخدوش ہیں۔
کہا جاتا رہا ہے کہ بھارت ایسی سرزمین ہے جہاں اظہارِ آزادی پر کوئی پابندی ہے نہ قدغن۔ اس تصور کو سب سے پہلے اندرا گاندھی نے اس وقت توڑا اور پامال کیا جب انھوں نے بھارت میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا۔ اور اب دوسری بار نریندر مودی کے دورِ حکومت میں زیادتیوں کا ارتکاب ہونے لگا ہے۔ اظہارِ آزادی پر غیر مرئی قسم کی پابندیاں سامنے آرہی ہیں۔ بھارتی لکھاری چیخ بھی رہے ہیں، مایوسی کا اظہار بھی کررہے ہیں اور احتجاج کناں بھی ہیں۔
مثال کے طور پر گذشتہ روز ساہتیہ اکیڈمی کے سامنے بھارتی ادیبوں، شاعروں اور اخبار نویسوں کا احتجاج۔ ''ہندوستان ٹائمز'' نے اپنے صفحۂ اول پر چار کالمی ایک رنگین تصویر شایع کی ہے۔ اس میں دو درجن کے قریب یہ لوگ اس حالت میں نظر آرہے ہیں کہ انھوں نے سیاہ پٹیوں سے اپنے منہ اور ہونٹ باندھ رکھے ہیں۔
احتجاج کرنے والوں میں بزرگ بھارتی ادیب خواتین بھی صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ اس خاموش احتجاج کی بازگشت ساری دنیا میں دکھائی اور سنائی دے رہی ہے۔ یہ دراصل نریندر مودی کی دہشت گردانہ پالیسیوں اور آمرانہ اقدامات کے خلاف باضمیر بھارتی شہریوں کا احتجاج ہے۔ ہم پاکستانیوں کے خلاف مودی جی جس طرح کے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں، وہ ایک الگ شرمناک داستان ہے۔