مادری زبان میں تعلیم

پوری انسانی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اس قوم نے ترقی کی منازل طے کی ہوں

اپنی قومی زبان کو بالائے طاق رکھ کر بیرونی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو علمی ترقیوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ غیر زبان میں تعلیم دینے سے پورا معاشرہ اس عمل میں شریک نہیں ہو سکتا اور تعلیم و تعلم کی سرگرمیاں ایک مخصوص طبقے تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔

پوری انسانی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اس قوم نے ترقی کی منازل طے کی ہوں جس کا ذریعہ تعلیم کوئی غیر ملکی زبان رہی ہو اس طریقہ کار کو جہاں بھی اپنایا جاتا ہے وہاں ملک کی آبادی کا کثیر حصہ علمی و معاشرتی پسماندگی یا پھر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے جو قوم اپنی کوئی زبان نہیں رکھتی جس کے پاس کوئی ادبی سرمایہ نہیں ہوتا جو اپنی زبان میں اظہار خیال سے قاصر ہوتی ہے۔ جس کی زبان کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر نہیں ہوتی اور علوم مروجہ کی دولت سے محروم رہتی ہے وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔

انگریزی زبان جو آج دنیا بھر میں رابطے کی زبان ہے اور پسماندہ اقوام اسے اپنانے میں فخر محسوس کرتی ہے، خود انگریزی تعلیم کے بنیادی اصولوں میں بھی مادری زبان کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انگریزی زبان اور اس کے قواعد کو سمجھنے میں مادری زبان سے مدد لی جائے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچے کو ایسی عمر میں انگریزی سکھانی شروع کرانا چاہیے جب وہ اپنی زبان اور اس کے قواعد سے کسی قدر واقف ہو جائے تا کہ اس میں زبان کے سمجھنے کی عام صلاحیت پیدا ہو جائے۔

اس سے کوئی معلم ناواقف نہیں۔ اصول تعلیم اور طریقہ تعلیم کی بہت سی کتابیں مادری زبان کی اہمیت سے بھری پڑی ہیں۔ ہم ان کتابوں کو پڑھتے ہیں مگر ہمیں اس کا بالکل احساس نہیں ہوتا کہ جو اہمیت دیگر اقوام کی مادری زبانوں کو حاصل ہے وہی ہماری مادری زبان کو بھی ہے، اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی ماہرین تعلیم کا نظریہ بھی پیش کر دیا جائے۔

تعلیمی بورڈ نے مادری زبان کی تعلیم کے لیے جو ہدایات دی ہیں اسی کے سلسلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ عام مضامین کی تعلیم کے لیے مادری زبان کو پورے طور پر جاننا اور سمجھنا ضروری ہے، کسی طرح کی تعلیم حاصل نہیں ہو سکتی اگر مادری زبان پر پوری قدرت حاصل نہ ہو۔ مادری زبان کی کمزوری کی وجہ سے اظہار مطلب ادائے خیال میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اگر بچے کو اچھی اور صحیح زبان سیکھنے کا موقع ملتا تو وہ غلط اور ناقص زبان سیکھتا ہے یوں سوچنے اور غور کرنے کی صحیح عادت اختیار نہیں کر پاتا۔

اگر صرف اسی نقصان کا خیال کیا جائے تو مادری زبان کی صحیح تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ حقیقتاً مادری زبان دوسرے تمام مضامین سے زیادہ ضروری ہے اگر کوئی دوسرا مضمون کچھ عرصے تک پس پشت پڑا رہا تو جب بھی شروع کیا جائے گا اور جتنی دیر میں اتنی ہی آسانی سے حاصل ہو گا مگر مادری زبان کو اگر ابتدا میں نظرانداز کر دیا گیا تو پھر یہ شاید کبھی سیکھی نہیں جا سکے۔ George Sampson اپنی کتاب ''انگریزی انگریزوں کے لیے'' English For The English میں لکھتے ہیں۔

''مادری زبان ہی ہمارے لیے اظہار خیال کا ذریعہ ہے جس کے حاصل کر لینے سے ہم کم سے کم ایسے انسان بن جاتے ہیں جن کا سمجھنا ممکن ہوتا ہے۔ ہم گزشتہ کی وراثت حاصل کرنے کے قابل، موجودہ کو قبضے میں رکھنے اور آیندہ کا مقابلہ کرنے کے لائق ہو جاتے ہیں اس لیے ہم کو چاہیے کہ سب سے پہلے ہم اپنے بچوں کو اس قابل بنا دیں کہ پہلے وہ خود یہ پورے طور پر سمجھ سکیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس مفہوم کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنا سیکھیں۔ ایک طالب علم کا قصور قواعد کی غلطی نہیں بلکہ اس کی گفتگو کا غیر مربوط اور الجھا ہوا ہونا ہے۔ہمارے ہاں مادری زبان کو محض ایک مضمون کے طور پر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تو زندگی بسر کرنے کی ایک ضروری شرط ہے۔


یہ زندگی کے لیے ناگزیر ہے کہ گہوارے سے قبر تک ساتھ جاتی ہے، مادری زبان کا سبق صرف قابلیت پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ایک طالب علم کی حیات کا ایک ضروری جزو ہے اس کا حاصل کرنا اس کی اہمیت کے علاوہ اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ یہ تمام علوم و فنون کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس لیے ایک مستحکم نظام تعلیم وہ ہے جس کی بنیاد مادری زبان ہو جو انسانی معاملات و معاشرت کا بڑا ذریعہ اور علمی و عقلی ترقی کی بنیاد ہے رکھی گئی ہو اور جیسا کہ کہا گیا آدمی بڑی حد تک دوسری زبانوں کو بھی اس کی مدد سے ہی حاصل کرتا ہے اس لیے کہ وہ بنیادی استعداد جو ایک غیر زبان کے سیکھنے کے لیے اشد ضروری ہے محض مادری زبان کے وسیلے سے حاصل ہوتا ہے ہمارے ہاں اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا مشکل امر ہے اور اس میں بڑی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

لیکن ان کے موقف کو تسلیم کر لینے میں ایک قباحت یہ ہے کہ آج سے 60 سال قبل یعنی قیام پاکستان سے پہلے ریاست حیدر آباد دکن کی سرکاری زبان اردو تھی۔ تاریخ، جغرافیہ، نباتات، حیوانیات، جمادات، فلکیات، عمرانیات غرض سارے سائنسی اور غیر سائنسی علوم کو حیدرآباد دکن میں اردو زبان میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس دور میں اردو زبان میں اعلیٰ تعلیم کے نصاب کی کتابیں لکھی اور غیر ملکی زبانوں سے ترجمے بھی شایع کرائے۔

مرحوم مولوی عبدالحق کو جنھیں بابائے اردو کہا جاتا ہے۔ اس دور میں جامعہ عثمانیہ، حیدر آباد دکن میں عمرانیات اور سائنس کے تمام شعبوں کی تعلیم ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک سب اردو زبان میں ہوا کرتی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس بات کی تصدیق سید سبط حسن کی کتاب ''شہر نگاراں'' سے بھی ہو جاتی ہے۔ جاپان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے! وہاں سوائے ان طالب علموں کے جو ایم اے، پی ایچ ڈی کرتے ہیں کسی بھی جاپانی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے کہ اس کو تعلیم حاصل کرنا ہے تو انگریزی یا کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا ضروری ہے۔

جتنے بھی جاپانی غیر ملکی زبان سیکھتے ہیں اپنی کسی تجارتی ضرورت کے تحت یا محض شوقیہ سیکھتے ہیں۔ کسی کے دماغ میں یہ نہیں ہوتا کہ اگر انھوں نے فلاں زبان نہ سیکھی تو اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکیں گے ہر موضوع پر اعلیٰ سطح تک جاپانی زبان میں ان کے اپنے پروفیسروں کی لکھی ہوئی بے شمار کتابیں موجود ہیں اور دنیا کی ہر زبان کی تمام اہم کتابوں کے ترجمے بھی ہر موضوع پر جاپانی زبان میں مل جائیں گے۔

اسی طرح چین میں چینی زبان بولی جاتی ہے وہ ہی ان کا ذریعہ تعلیم ہے کسی بھی ملک کا دورہ کریں وہ لوگ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں ترجمہ کرنیوالے موجود ہوتے ہیں اسی طرح اور دیگر ممالک بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ اس مرتبہ تو ہماری حکومت نے بھی ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا وزیر اعظم نے امریکا کے صدر کے سامنے اردو میں بات کی خوشی محسوس ہوئی۔اپنی قومی زبان کو بالائے طاق رکھ کر بیرونی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو علمی ترقیوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں غیر زبان میں تعلیم دینے سے پورا معاشرہ اس عمل میں شریک نہیں ہو سکتا اور تعلیم و تعلم کی سرگرمیاں ایک مخصوص طبقہ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔

علم کی پیاس ہر انسان میں ہوتی ہے لیکن اگر ہم اپنی مادری زبان کو حصول علم کا ذریعہ نہ بنائیں تو یہ پیاس بجھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔

غیر مادری زبان کو حصول علم کا ذریعہ بنا لینے سے لوگوں میں مطالعے کا ذوق و شوق بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے ایک غیر جانبدارانہ تجزیے کے مطابق پاکستان میں عموماً دینی کتابیں اردو زبان میں مل سکتی ہیں یا پھر تفریحی ادب، لیکن مختلف علوم و فنون پر اگر کوئی ہمت کر کے اردو زبان میں کتاب لکھ بھی ڈالے تو اس کو سمجھنے والے بھی کم اور اس طرح کی کتاب کے فروخت ہونے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔جن ممالک میں تعلیم ان کی اپنی قومی زبان میں دی جاتی ہے اور یوں ہر شخص پڑھا لکھا ہے جو جدید اور تازہ ترین معلومات اور دریافتوں کو جاننے کے لیے فطری طور پر ایک علمی پیاس رکھتا ہے اس طرح کی پیاس کا پیدا ہونا اور اسے بجھانا اس وقت ممکن ہے جب کہ ساری تعلیم کسی ملک کی اپنی قومی زبان ہو۔
Load Next Story