قیام امن کا خواب
محرم الحرام کو اسلامی و انسانی تاریخ میں نمایاں حیثیت و مقام حاصل ہے۔
محرم الحرام کو اسلامی و انسانی تاریخ میں نمایاں حیثیت و مقام حاصل ہے۔ اسلامی سال کا یہ پہلا اور محترم اور مقدس مہینہ محبت و امن کا درس دیتا ہے۔ اس اعتبار سے اس بابرکت مہینے کو انتہائی عافیت و سکون کے ساتھ گزرنا چاہیے، لیکن اس کے برعکس ہر سال اس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو جاتی ہے اور تخریب کاری کے ذریعے ملک کا امن برباد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سیکیورٹی ادارے امن و امان قائم کرنے کی بھرپور منصوبہ بندی اور کوشش کرتے ہیں۔ اس سال بھی سیکیورٹی اداروں نے کسی بھی ناگہانی کے انسداد کے لیے ہمہ پہلو حکمت عملی تشکیل دی تھی، لیکن اس کے باوجود دہشت گردوں نے خودکش حملے کر کے جیکب آباد اور بولان میں 33 افراد کی زندگیاں چھین لیں اور دسیوں کو زخمی کر دیا۔ یہ حملے بزدلی کا واضح اظہار تھے، کیونکہ ملک بھر میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے منظم اقدامات بروئے عمل لائے گئے تھے، اس لیے بدامنی پھیلانے کے لیے ملک کے نسبتاً دور دراز اور غیر معروف مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔
زمانے کی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ کوئی ملک ہوتا ہے۔ ان کا مقصد تو اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کے لیے صرف انسانیت اور مذاہب کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
سو اس حد تک وہ اپنے مقصد میں بظاہر کامیاب ہوئے ہیں۔ بے گناہ انسانوں کے جان لینے والے یہ لوگ ثواب سمجھ کر بدامنی پھیلاتے ہیں اور اس قبیل کے متشدد لوگ اپنے نظریات سے میل نہ کھانے والے افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں، حالانکہ کسی بھی شخص کو ہتھیار کے ذریعے قائل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ منطق، دلیل اور محبت کے ذریعے ہی قائل کیا جا سکتا ہے۔ کسی پر اپنے نظریات بندوق کی نوک پر لاگو نہیں کیے جا سکتے، بلکہ ہر ایک کو اپنے نظریات کے ساتھ زندہ رہنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ ایک صحت مند سوچ بھی یہ ہے کہ اپنی زندگی کے لیے دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔
اپنی آزادی کے لیے دوسروں کی آزادی کا احترام کیا جائے۔ خود کو نقصان سے بچانے کے لیے دوسروں کو نقصان سے بچایا جائے۔ اپنی عزت کروانے کے لیے دوسرے کی عزت کی جائے۔ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچا جائے۔ ہر فرد یہی چاہتا ہے کہ اسے اپنے مسلک پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو اور اس کے جذبات مجروح نہ کیے جائیں۔ جو ہم خود کے لیے چاہتے ہیں دوسروں کے لیے بھی وہی چاہیں۔
اگر کوئی شخص دوسرے کے نظریات کو غلط سمجھتا ہے تو ضروری ہے کہ شائستگی کے ساتھ واضح دلائل کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر واضح کر کے مخالف کو قائل کرنے کی کوشش کرے۔ قائل کرنے میں ناکامی کی صورت میں جبر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قرآن مذہبی جبر کی نفی کرتا ہے۔ قرآن کسی شخص پر اپنے عقیدے کو مسلط نہیں کرتا۔ وہ افہام و تفہیم اور تعلیم و تلقین کا قائل ہے اور جبر و اِکراہ، تشدد اور دھونس کو اعلانیہ مسترد کر دیتا ہے۔ قرآن اپنی صداقت اور حقانیت پر پوری طرح مطمئن ہونے کے باوجود وہ واشگاف اعلان کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے، لیکن یہاں بہت سے لوگ دین کے نام پر جبر کرنے کو ثواب سمجھتے ہیں۔
مذہب کے نام پر دہشت گردی سے صرف ملک کو ہی نہیں، بلکہ عالم اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیاں ملک و قوم اور مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کا موجب بن رہی ہیں اور اسلام دشمن غیر ملکی ایجنسیاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہیں۔ عراق، شام اور یمن سمیت متعدد مسلم ممالک میں پیدا ہونے والے انتشار اور افراتفری کے پس منظر میں فرقہ وارانہ نفرت کا بھی ہاتھ ہے، جو مسلم ممالک کے دشمنان کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔
عالم اسلام کے تمام بدخواہوں کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح تمام مسلمان آپس میں دست و گریباں ہو جائیں۔ ہر اسلامی ملک خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک دیا جائے۔ ہمیشہ سے طاغوتی قوتیں بڑی کامیابی سے امت مسلمہ کی باہمی قوت و اتحاد کو تقسیم کر کے ان میں فتنہ و انتشار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا جاتا تھا، لیکن اب بہت سے اسلام کے نام لیوا اسلام دشمنوں کی آشیر باد سے ایک دوسرے کو قتل کر کے ان کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔ اسلامی ممالک بیرونی قوتوں کے مفادات کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔
مسلم ممالک میں ہونے والے کشت و خون کی صورت میں طاغوتی قوتوں کا ادھورا خواب پورا ہو رہا ہے۔ یہ دشمن قوتیں پاکستان میں بھی عراق و شام جیسے حالات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن اسلامی ممالک کو دشمن کی چالوں کو سمجھ کر ان کی ہر ناپاک کوشش کو ناکام و نامراد لوٹا کر امن کو قائم کرنا ہو گا، کیونکہ امن ہی ہماری بہت بڑی ضرورت ہے۔ ملک کا ہر فرد امن چاہتا ہے۔ اپنے جسم و جان، خاندان اور عزت و آبرو کی سلامتی سب کو عزیز ہے۔
امن کا آرزو مند ہو نا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اگر تمام اسلامی عبادات اور معاملات سے لے کر آئین اور قوانین سیاست و حکومت تک کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان تمام چیزوں سے امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا عکس جھلکتا ہے جو اسلام کا مقصود و مدعا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف امن کا حامی اور دعویدار ہے، بلکہ قیام امن کو ہر حال میں یقینی بنانے کی تاکید بھی کرتا ہے۔ اسلام دین امن ہے۔ اسلام محبتوں اور رواداریوں کی بستیاں بچھتاتا چلا جاتا ہے۔
اسلام زندگی کے ہر شعبے میں امن و سلامتی اور محبت و اخوت کے پھول کھلاتا جاتا ہے۔یوں تو امن کے قیام کے لیے ملک و قوم کے ہر فرد کو اپنی ذمے داری ادا کرنا ہو گی، لیکن مذہبی رہنما وہ قوت ہیں جو لوگوں کے درمیان فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے اور شہریوں کے درمیان رواداری کے عنصر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جہاں ایک طرف حکومت کی جانب سے دہشت گردی سے بچاؤ کے لیے حفاظتی انتظامات کو مستحکم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہیں دوسری جانب تمام مسالک کے علمائے کرام کو مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ علمائے کرام عوام کو بتائیں کہ اسلام میں کسی بے گناہ انسان کا قتل نہ صرف حرام ہے، بلکہ اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کی ممانعت سے متعلق اسلامی احکامات کی تشہیر اگر لوگوں کی مادری زبان میں کی جائے تو بلاشبہ بتدریج حالات میں تبدیلی آ سکتی ہے اور دہشت گردی کی بیخ کنی ہو سکتی ہے۔
حکمرانوں، دانشوروں اور علمائے کرام کی یہ ذمے داری ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دہشت گردوں کی معاون قوتوں اور انتہا پسندانہ نظریے اور سوچ کو کنٹرول کرنے سے متعلق امور پر غور و فکر کریں۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے مسلم دنیا کی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے سنگین چیلنجز پیدا ہو گئے ہیں، جو قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ قیام امن کا خواب دہشتگردی پر قابو پا کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔
سیکیورٹی ادارے امن و امان قائم کرنے کی بھرپور منصوبہ بندی اور کوشش کرتے ہیں۔ اس سال بھی سیکیورٹی اداروں نے کسی بھی ناگہانی کے انسداد کے لیے ہمہ پہلو حکمت عملی تشکیل دی تھی، لیکن اس کے باوجود دہشت گردوں نے خودکش حملے کر کے جیکب آباد اور بولان میں 33 افراد کی زندگیاں چھین لیں اور دسیوں کو زخمی کر دیا۔ یہ حملے بزدلی کا واضح اظہار تھے، کیونکہ ملک بھر میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے منظم اقدامات بروئے عمل لائے گئے تھے، اس لیے بدامنی پھیلانے کے لیے ملک کے نسبتاً دور دراز اور غیر معروف مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔
زمانے کی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ کوئی ملک ہوتا ہے۔ ان کا مقصد تو اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کے لیے صرف انسانیت اور مذاہب کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
سو اس حد تک وہ اپنے مقصد میں بظاہر کامیاب ہوئے ہیں۔ بے گناہ انسانوں کے جان لینے والے یہ لوگ ثواب سمجھ کر بدامنی پھیلاتے ہیں اور اس قبیل کے متشدد لوگ اپنے نظریات سے میل نہ کھانے والے افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں، حالانکہ کسی بھی شخص کو ہتھیار کے ذریعے قائل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ منطق، دلیل اور محبت کے ذریعے ہی قائل کیا جا سکتا ہے۔ کسی پر اپنے نظریات بندوق کی نوک پر لاگو نہیں کیے جا سکتے، بلکہ ہر ایک کو اپنے نظریات کے ساتھ زندہ رہنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ ایک صحت مند سوچ بھی یہ ہے کہ اپنی زندگی کے لیے دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔
اپنی آزادی کے لیے دوسروں کی آزادی کا احترام کیا جائے۔ خود کو نقصان سے بچانے کے لیے دوسروں کو نقصان سے بچایا جائے۔ اپنی عزت کروانے کے لیے دوسرے کی عزت کی جائے۔ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچا جائے۔ ہر فرد یہی چاہتا ہے کہ اسے اپنے مسلک پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو اور اس کے جذبات مجروح نہ کیے جائیں۔ جو ہم خود کے لیے چاہتے ہیں دوسروں کے لیے بھی وہی چاہیں۔
اگر کوئی شخص دوسرے کے نظریات کو غلط سمجھتا ہے تو ضروری ہے کہ شائستگی کے ساتھ واضح دلائل کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر واضح کر کے مخالف کو قائل کرنے کی کوشش کرے۔ قائل کرنے میں ناکامی کی صورت میں جبر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قرآن مذہبی جبر کی نفی کرتا ہے۔ قرآن کسی شخص پر اپنے عقیدے کو مسلط نہیں کرتا۔ وہ افہام و تفہیم اور تعلیم و تلقین کا قائل ہے اور جبر و اِکراہ، تشدد اور دھونس کو اعلانیہ مسترد کر دیتا ہے۔ قرآن اپنی صداقت اور حقانیت پر پوری طرح مطمئن ہونے کے باوجود وہ واشگاف اعلان کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے، لیکن یہاں بہت سے لوگ دین کے نام پر جبر کرنے کو ثواب سمجھتے ہیں۔
مذہب کے نام پر دہشت گردی سے صرف ملک کو ہی نہیں، بلکہ عالم اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیاں ملک و قوم اور مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کا موجب بن رہی ہیں اور اسلام دشمن غیر ملکی ایجنسیاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہیں۔ عراق، شام اور یمن سمیت متعدد مسلم ممالک میں پیدا ہونے والے انتشار اور افراتفری کے پس منظر میں فرقہ وارانہ نفرت کا بھی ہاتھ ہے، جو مسلم ممالک کے دشمنان کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔
عالم اسلام کے تمام بدخواہوں کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح تمام مسلمان آپس میں دست و گریباں ہو جائیں۔ ہر اسلامی ملک خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک دیا جائے۔ ہمیشہ سے طاغوتی قوتیں بڑی کامیابی سے امت مسلمہ کی باہمی قوت و اتحاد کو تقسیم کر کے ان میں فتنہ و انتشار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا جاتا تھا، لیکن اب بہت سے اسلام کے نام لیوا اسلام دشمنوں کی آشیر باد سے ایک دوسرے کو قتل کر کے ان کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔ اسلامی ممالک بیرونی قوتوں کے مفادات کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔
مسلم ممالک میں ہونے والے کشت و خون کی صورت میں طاغوتی قوتوں کا ادھورا خواب پورا ہو رہا ہے۔ یہ دشمن قوتیں پاکستان میں بھی عراق و شام جیسے حالات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، لیکن اسلامی ممالک کو دشمن کی چالوں کو سمجھ کر ان کی ہر ناپاک کوشش کو ناکام و نامراد لوٹا کر امن کو قائم کرنا ہو گا، کیونکہ امن ہی ہماری بہت بڑی ضرورت ہے۔ ملک کا ہر فرد امن چاہتا ہے۔ اپنے جسم و جان، خاندان اور عزت و آبرو کی سلامتی سب کو عزیز ہے۔
امن کا آرزو مند ہو نا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اگر تمام اسلامی عبادات اور معاملات سے لے کر آئین اور قوانین سیاست و حکومت تک کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان تمام چیزوں سے امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا عکس جھلکتا ہے جو اسلام کا مقصود و مدعا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف امن کا حامی اور دعویدار ہے، بلکہ قیام امن کو ہر حال میں یقینی بنانے کی تاکید بھی کرتا ہے۔ اسلام دین امن ہے۔ اسلام محبتوں اور رواداریوں کی بستیاں بچھتاتا چلا جاتا ہے۔
اسلام زندگی کے ہر شعبے میں امن و سلامتی اور محبت و اخوت کے پھول کھلاتا جاتا ہے۔یوں تو امن کے قیام کے لیے ملک و قوم کے ہر فرد کو اپنی ذمے داری ادا کرنا ہو گی، لیکن مذہبی رہنما وہ قوت ہیں جو لوگوں کے درمیان فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے اور شہریوں کے درمیان رواداری کے عنصر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جہاں ایک طرف حکومت کی جانب سے دہشت گردی سے بچاؤ کے لیے حفاظتی انتظامات کو مستحکم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہیں دوسری جانب تمام مسالک کے علمائے کرام کو مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ علمائے کرام عوام کو بتائیں کہ اسلام میں کسی بے گناہ انسان کا قتل نہ صرف حرام ہے، بلکہ اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کی ممانعت سے متعلق اسلامی احکامات کی تشہیر اگر لوگوں کی مادری زبان میں کی جائے تو بلاشبہ بتدریج حالات میں تبدیلی آ سکتی ہے اور دہشت گردی کی بیخ کنی ہو سکتی ہے۔
حکمرانوں، دانشوروں اور علمائے کرام کی یہ ذمے داری ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دہشت گردوں کی معاون قوتوں اور انتہا پسندانہ نظریے اور سوچ کو کنٹرول کرنے سے متعلق امور پر غور و فکر کریں۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے مسلم دنیا کی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے سنگین چیلنجز پیدا ہو گئے ہیں، جو قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ قیام امن کا خواب دہشتگردی پر قابو پا کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔