ناقابل برداشت کاروباری لاگت ساڑھے3ماہ میں10لاکھ اسپنڈل بند ہو گئیں اپٹما
اسپنڈلزکی بندش سے روئی فروخت میں کمی،لاکھوں افرادبیروزگار،پیداوارکم ہوئی
ملک میں صنعتی پیداوارکی لاگت میں ناقابل برداشت اضافے کے باعث گزشتہ ساڑھے3ماہ کے دورن پاکستان میں 10 لاکھ اسپنڈلز بند ہوچکی ہیں جن کی تیارکردہ مصنوعات میں سے بیشتر برآمدی نوعیت کی تھیں۔
یہ بات آل پاکستان ٹیکسٹائل ملزایسوسی ایشن (اپٹما) کے سینٹرل چیئرمین طارق سعود نے کہی۔ انھوں نے زور دیا کہ ان تمام اسپنڈلز کی بندش کا سب سے بڑا سبب توانائی کی ناقابل برداشت لاگت خصوصاً بجلی کے بلوں میں سرچارجز کی شکل میں شامل کیا جانے والا 3.63 روپے فی یونٹ کا غیرمعمولی اور غیرمنصفانہ بوجھ ہے جو پاورسیکٹر کی نااہلی کوتحفظ دینے کے لیے صنعت پر مسلط کیا جا رہا ہے۔
طارق سعود نے افسوس کا اظہار کیا کہ سرچارجز کے اس بلاجواز اضافے سے بجلی کی لاگت 14 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ علاقائی حریف ممالک میں یہ لاگت 9 روپے فی یونٹ سے بھی کم ہے۔
انھوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پرنقصانات کے باعث ٹیکسٹائل ملز کی اکثریت خصوصاً پنجاب کی ملیں بجلی کے ماہانہ بل دینے کے قابل نہیں رہیں اور ایک بعد دوسری ملک بند ہو رہی ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ 20نومبر کے بعد سے بجلی کے بھاری بھرکم ماہانہ بل ملنے کے بعد مزید ٹیکسٹائل ملیں بند ہو سکتی ہیں۔
چیئرمین اپٹما نے کہاکہ 10لاکھ اسپنڈلز کی بندش کا مطلب پیداواری نقصانات کے علاوہ روئی کی 10 لاکھ سے زیادہ گانٹھوں کا فروخت نہ ہونا اور 10 لاکھ ملازمین کا روزگار کھونا بھی ہے۔ انھوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ حکومت پاور سیکٹر کی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے صنعتی صارفین کے لیے نیپرا کے اعلان کردہ 9.10 روپے فی یونٹ ٹیرف پر غیرقانونی چارجز عائد کر کے صنعت کو تباہ کرنے پرکیوں تلی ہوئی ہے۔
جس سے پوری سپلائی چین متاثر ہوگی جبکہ پہلے ہی عالمی سطح پر کسادبازاری اور کموڈیٹی پرائسز میں کمی سے مقامی صنعت کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ طارق سعود نے زور دیا کہ یہ وقت ہے کہ پیداواری لاگت میں کمی لا کر فوری طور پر بنیادی ٹیکسٹائل برآمدات کو منہ کے بل گرنے سے روکا جائے، اپٹما نے زیرالتوا ٹیکسٹائل پیکیج کے لیے جو تجاویز دی ہیں ان کا مقصد بھی ٹیکسٹائل صنعت کی کاروباری لاگت میں کمی لانا ہے۔
اس پیکیج سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی میں مدد ملے گی بلکہ برآمدات میں اضافے سے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جاسکے گا، ساتھ ہی ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت کا قرضوں کے لیے آئی ایم ایف پر انحصار بھی کم ہو گا۔
یہ بات آل پاکستان ٹیکسٹائل ملزایسوسی ایشن (اپٹما) کے سینٹرل چیئرمین طارق سعود نے کہی۔ انھوں نے زور دیا کہ ان تمام اسپنڈلز کی بندش کا سب سے بڑا سبب توانائی کی ناقابل برداشت لاگت خصوصاً بجلی کے بلوں میں سرچارجز کی شکل میں شامل کیا جانے والا 3.63 روپے فی یونٹ کا غیرمعمولی اور غیرمنصفانہ بوجھ ہے جو پاورسیکٹر کی نااہلی کوتحفظ دینے کے لیے صنعت پر مسلط کیا جا رہا ہے۔
طارق سعود نے افسوس کا اظہار کیا کہ سرچارجز کے اس بلاجواز اضافے سے بجلی کی لاگت 14 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ علاقائی حریف ممالک میں یہ لاگت 9 روپے فی یونٹ سے بھی کم ہے۔
انھوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پرنقصانات کے باعث ٹیکسٹائل ملز کی اکثریت خصوصاً پنجاب کی ملیں بجلی کے ماہانہ بل دینے کے قابل نہیں رہیں اور ایک بعد دوسری ملک بند ہو رہی ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ 20نومبر کے بعد سے بجلی کے بھاری بھرکم ماہانہ بل ملنے کے بعد مزید ٹیکسٹائل ملیں بند ہو سکتی ہیں۔
چیئرمین اپٹما نے کہاکہ 10لاکھ اسپنڈلز کی بندش کا مطلب پیداواری نقصانات کے علاوہ روئی کی 10 لاکھ سے زیادہ گانٹھوں کا فروخت نہ ہونا اور 10 لاکھ ملازمین کا روزگار کھونا بھی ہے۔ انھوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ حکومت پاور سیکٹر کی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے صنعتی صارفین کے لیے نیپرا کے اعلان کردہ 9.10 روپے فی یونٹ ٹیرف پر غیرقانونی چارجز عائد کر کے صنعت کو تباہ کرنے پرکیوں تلی ہوئی ہے۔
جس سے پوری سپلائی چین متاثر ہوگی جبکہ پہلے ہی عالمی سطح پر کسادبازاری اور کموڈیٹی پرائسز میں کمی سے مقامی صنعت کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ طارق سعود نے زور دیا کہ یہ وقت ہے کہ پیداواری لاگت میں کمی لا کر فوری طور پر بنیادی ٹیکسٹائل برآمدات کو منہ کے بل گرنے سے روکا جائے، اپٹما نے زیرالتوا ٹیکسٹائل پیکیج کے لیے جو تجاویز دی ہیں ان کا مقصد بھی ٹیکسٹائل صنعت کی کاروباری لاگت میں کمی لانا ہے۔
اس پیکیج سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی میں مدد ملے گی بلکہ برآمدات میں اضافے سے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جاسکے گا، ساتھ ہی ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت کا قرضوں کے لیے آئی ایم ایف پر انحصار بھی کم ہو گا۔