شعیب ملک کا ٹیسٹ کیریئر ختم مصباح سے کھیلتے رہنے کی درخواست
چیئرمین شہریار یار خان نے شارجہ میں فتح کے بعد ایک بار پھر کہاکہ مصباح الحق کو جانے نہیں دینگے۔
انگلینڈ کیخلاف پاکستان کی 2-0سے فتح کے ساتھ ہی شعیب ملک کے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام ہو گیا، سیریز کا آغاز اور انجام دونوں ہی آل راؤنڈرکیلیے یادگار ثابت ہوئے۔
انھوں نے کم بیک پر مہمان زمبابوین ٹیم کے مقابل محدود اوورز کے میچز میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کی بنیاد پر دورئہ سری لنکا کیلیے منتخب ہوئے،وہاں بھی عمدہ فارم برقرار رہی، زمبابوین ٹور میں بھی اچھے کھیل کا سلسلہ جاری رکھنے پر انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلیے بھی وہ منتخب ہوئے۔
سعید اجمل کی خراب فارم، محمد حفیظ کی بولنگ پر پابندی اور بلال آصف کا ایکشن شکوک کی زد میں آنے کے بعد شعیب کو ایک مددگار اسپنر اور قابل بھروسہ بیٹسمین کے طور پر طویل فارمیٹ میں بھی آزمانے کا فیصلہ کیا گیا، 5 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کا جشن انھوں نے ابوظبی میں شاندار ڈبل سنچری کے ذریعے منایا، جو سنگ میل شعیب ملک پورے کیریئر میں عبور نہیںکرپائے تھے وہ کم بیک پرکرلیا، بعد ازاں سیریز کی دیگر اننگز میں ان کا بیٹ رنز اگلنا بھول گیا لیکن آخری ٹیسٹ کو شاندار بولنگ سے یادگار بناتے ہوئے میچ میں صرف 59رنز دے کر 7وکٹیں حاصل کیں۔
یوں کیریئر کی بہترین بولنگ اور بیٹنگ سے انھوں نے اپنی آخری سیریز کو یادگار بنایا، شارجہ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے والے آل راؤنڈر ون ڈے ورلڈکپ 2019 کھیلنے کے خواہاں اور اس پر پوری توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، شعیب ملک نے بنگلا دیش کے خلاف 2001 میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا، انھوں نے 35 میچزمیں 35.14 کی اوسط سے 1898 رنز بنائے جس میں 3 سنچریاں اور 8 ففٹیز شامل ہیں، وہ ایک روزہ میچز میں اب تک 8 سنچریوں اور 34 ففٹیز کی مدد سے 5990 رنز اسکورکرچکے ہیں۔
آل راؤنڈر نے ٹیسٹ میں 47.46کی اوسط سے 32 وکٹیں بھی حاصل کیں، اننگز اور میچ میں بہترین بولنگ شارجہ ٹیسٹ میں رہی،ون ڈے میچز میں وہ 147شکار کر چکے ہیں۔ شعیب ملک کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھیں صرف 25 سال کی عمر میں 2007 میں گرین شرٹس کی قیادت سونپی گئی، انھوں نے صرف 3ٹیسٹ میں کپتانی کی، ان میں سے پاکستان 2 ہارا اور ایک ڈرا پر ختم ہوا۔
انگلینڈکیخلاف سیریز میں ایک اور ریٹائرمنٹ موضوع بحث بنی رہی، مصباح الحق نے قبل ازیںعندیہ دیا تھا کہ وہ بھارت کیخلاف دسمبر میں شیڈول سیریز کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے تاہم بی سی سی آئی کی جانب سے کوئی مثبت جواب ملتا نظر نہیں آرہا، یوں ان کیلیے انگلینڈ کیخلاف میچز آخری تصور کیے جارہے تھے، دوسری جانب ان کی فٹنس اور فارم کو دیکھتے ہوئے سابق کرکٹرز اور پی سی بی حکام بھی چاہتے ہیں کہ قیادت کا سلسلہ جاری رکھیں۔
چیئرمین شہریار یار خان نے شارجہ میں فتح کے بعد ایک بار پھر کہاکہ مصباح الحق کو جانے نہیں دینگے، سیریز کے دوران ان سے بار بار ریٹائرمنٹ کا سوال کیا جاتا رہا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا، گذشتہ روز یواے ای میں ان کی گفتگو سے کچھ مثبت اشارہ ملا، وہ ابھی خود کو انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے فٹ سمجھتے ہیں،مصباح الحق نے پاکستان ٹیم کی قیادت 2010میں سنبھالی جب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی وجہ سے بحران کی صورتحال اور وقار کی بحالی کا چیلنج درپیش تھا،اس وقت ٹیم کو دھیما مزاج رکھنے والے قائد اور انضمام الحق کا خلا پُر کرنے کیلیے ایک ذمہ دار بیٹسمین کی ضرورت تھی۔
مصباح الحق نے یہ دونوں ضرورتیں پوری کرتے ہوئے آہستہ آہستہ عروج کی جانب سفر جاری رکھا،ثابت قدمی سے کی جانے والی اس پیش رفت کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ کیخلاف شارجہ ٹیسٹ میں فتح کے ساتھ 9سال بعد عالمی رینکنگ میں دوسری پوزیشن پر آچکی ہے، اس میں سینئر بیٹسمین کا بطور کھلاڑی اور قائد ریکارڈ قابل رشک ہے۔
مارچ2001 میں نیوزی لینڈ کیخلاف ڈیبیو کرنے والے مصباح الحق نے کیریئر کی دوسری اننگز شروع کرنے کیلیے طویل انتظار کیا،2003سے2007تک وہ ایک ٹیسٹ بھی نہیں کھیل پائے،بعد ازاں کم بیک کے بعد اپنی افادیت منواتے گئے، انھوں نے مجموعی طور 63ٹیسٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 48.89 کی اوسط سے 4352 رنز اسکور کیے ہیں، اس دوران 9 سنچریاں اور32 ففٹیز بنا چکے، ایک اننگز میں ان کا زیادہ سے زیادہ اسکور161 رنز رہا، اسٹار بیٹسمین 20 ٹیسٹ فتوحات کے ساتھ پاکستان کے کامیاب ترین کپتان ہیں۔
مصباح الحق نے ورلڈ کپ 2015 کے بعد ون ڈے کرکٹ سے ریٹائر منٹ کا اعلان کردیا تھا، یوں میگا ایونٹ کاآسٹریلیا کیخلاف کوارٹر فائنل ان کا آخری میچ ثابت ہوا، انھوں نے آخری ٹی 20 میچ 2012 میں ابوظبی میں انگلینڈ کیخلاف کھیلا تھا۔
انھوں نے کم بیک پر مہمان زمبابوین ٹیم کے مقابل محدود اوورز کے میچز میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کی بنیاد پر دورئہ سری لنکا کیلیے منتخب ہوئے،وہاں بھی عمدہ فارم برقرار رہی، زمبابوین ٹور میں بھی اچھے کھیل کا سلسلہ جاری رکھنے پر انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلیے بھی وہ منتخب ہوئے۔
سعید اجمل کی خراب فارم، محمد حفیظ کی بولنگ پر پابندی اور بلال آصف کا ایکشن شکوک کی زد میں آنے کے بعد شعیب کو ایک مددگار اسپنر اور قابل بھروسہ بیٹسمین کے طور پر طویل فارمیٹ میں بھی آزمانے کا فیصلہ کیا گیا، 5 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کا جشن انھوں نے ابوظبی میں شاندار ڈبل سنچری کے ذریعے منایا، جو سنگ میل شعیب ملک پورے کیریئر میں عبور نہیںکرپائے تھے وہ کم بیک پرکرلیا، بعد ازاں سیریز کی دیگر اننگز میں ان کا بیٹ رنز اگلنا بھول گیا لیکن آخری ٹیسٹ کو شاندار بولنگ سے یادگار بناتے ہوئے میچ میں صرف 59رنز دے کر 7وکٹیں حاصل کیں۔
یوں کیریئر کی بہترین بولنگ اور بیٹنگ سے انھوں نے اپنی آخری سیریز کو یادگار بنایا، شارجہ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے والے آل راؤنڈر ون ڈے ورلڈکپ 2019 کھیلنے کے خواہاں اور اس پر پوری توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، شعیب ملک نے بنگلا دیش کے خلاف 2001 میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا، انھوں نے 35 میچزمیں 35.14 کی اوسط سے 1898 رنز بنائے جس میں 3 سنچریاں اور 8 ففٹیز شامل ہیں، وہ ایک روزہ میچز میں اب تک 8 سنچریوں اور 34 ففٹیز کی مدد سے 5990 رنز اسکورکرچکے ہیں۔
آل راؤنڈر نے ٹیسٹ میں 47.46کی اوسط سے 32 وکٹیں بھی حاصل کیں، اننگز اور میچ میں بہترین بولنگ شارجہ ٹیسٹ میں رہی،ون ڈے میچز میں وہ 147شکار کر چکے ہیں۔ شعیب ملک کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھیں صرف 25 سال کی عمر میں 2007 میں گرین شرٹس کی قیادت سونپی گئی، انھوں نے صرف 3ٹیسٹ میں کپتانی کی، ان میں سے پاکستان 2 ہارا اور ایک ڈرا پر ختم ہوا۔
انگلینڈکیخلاف سیریز میں ایک اور ریٹائرمنٹ موضوع بحث بنی رہی، مصباح الحق نے قبل ازیںعندیہ دیا تھا کہ وہ بھارت کیخلاف دسمبر میں شیڈول سیریز کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے تاہم بی سی سی آئی کی جانب سے کوئی مثبت جواب ملتا نظر نہیں آرہا، یوں ان کیلیے انگلینڈ کیخلاف میچز آخری تصور کیے جارہے تھے، دوسری جانب ان کی فٹنس اور فارم کو دیکھتے ہوئے سابق کرکٹرز اور پی سی بی حکام بھی چاہتے ہیں کہ قیادت کا سلسلہ جاری رکھیں۔
چیئرمین شہریار یار خان نے شارجہ میں فتح کے بعد ایک بار پھر کہاکہ مصباح الحق کو جانے نہیں دینگے، سیریز کے دوران ان سے بار بار ریٹائرمنٹ کا سوال کیا جاتا رہا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا، گذشتہ روز یواے ای میں ان کی گفتگو سے کچھ مثبت اشارہ ملا، وہ ابھی خود کو انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے فٹ سمجھتے ہیں،مصباح الحق نے پاکستان ٹیم کی قیادت 2010میں سنبھالی جب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی وجہ سے بحران کی صورتحال اور وقار کی بحالی کا چیلنج درپیش تھا،اس وقت ٹیم کو دھیما مزاج رکھنے والے قائد اور انضمام الحق کا خلا پُر کرنے کیلیے ایک ذمہ دار بیٹسمین کی ضرورت تھی۔
مصباح الحق نے یہ دونوں ضرورتیں پوری کرتے ہوئے آہستہ آہستہ عروج کی جانب سفر جاری رکھا،ثابت قدمی سے کی جانے والی اس پیش رفت کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ کیخلاف شارجہ ٹیسٹ میں فتح کے ساتھ 9سال بعد عالمی رینکنگ میں دوسری پوزیشن پر آچکی ہے، اس میں سینئر بیٹسمین کا بطور کھلاڑی اور قائد ریکارڈ قابل رشک ہے۔
مارچ2001 میں نیوزی لینڈ کیخلاف ڈیبیو کرنے والے مصباح الحق نے کیریئر کی دوسری اننگز شروع کرنے کیلیے طویل انتظار کیا،2003سے2007تک وہ ایک ٹیسٹ بھی نہیں کھیل پائے،بعد ازاں کم بیک کے بعد اپنی افادیت منواتے گئے، انھوں نے مجموعی طور 63ٹیسٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 48.89 کی اوسط سے 4352 رنز اسکور کیے ہیں، اس دوران 9 سنچریاں اور32 ففٹیز بنا چکے، ایک اننگز میں ان کا زیادہ سے زیادہ اسکور161 رنز رہا، اسٹار بیٹسمین 20 ٹیسٹ فتوحات کے ساتھ پاکستان کے کامیاب ترین کپتان ہیں۔
مصباح الحق نے ورلڈ کپ 2015 کے بعد ون ڈے کرکٹ سے ریٹائر منٹ کا اعلان کردیا تھا، یوں میگا ایونٹ کاآسٹریلیا کیخلاف کوارٹر فائنل ان کا آخری میچ ثابت ہوا، انھوں نے آخری ٹی 20 میچ 2012 میں ابوظبی میں انگلینڈ کیخلاف کھیلا تھا۔