مریخ پرپانی اورزندگی سورج کی سرگرمی کی وجہ سے ختم ہوچکے ناسا
اس وقت مریخ پر ہوا کا دباؤ زمین کےدباؤ سے ایک فیصد کم ہے جس کی وجہ سے پانی یا تو بخارات بن کراڑ جاتا ہے یا جم جاتا ہے
PARIS:
چند روز قبل ہی ناسا نے اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ مریخ پر موجود برف جمے پانی کے ذخائر موجود ہیں اور اب سائنس دانوں نے ایک نیا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مریخ پر پانی اور زندگی شمسی طوفان اور سورج کی سرگرمی کی وجہ سے رفتہ رفتہ ختم ہوچکی ہے۔
امریکی خلائی ایجنسی کی ماون سٹیلائٹ پر کام کرنے والے تحقیق کاروں نے اپنے نتائج کے پہلے مرحلے کی معلومات میں انکشاف کیا ہے کہ سورج کے ساتھ باہمی عمل کے نتیجے میں مریخ کی ہوا زیادہ اونچائی پر جا کر ختم ہو رہی ہے اور یہ عمل ماضی میں بہت زیادہ رہا ہے۔
ناسا کے خلائی جہاز ماون کے پرنسپل تحقیق کار بروس جکوسکی کاکہنا ہے کہ سائنس دان بہت تیزی سے مریخ پر زندگی سے متعلق اپنے سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی طرف جا رہے ہیں اورتوقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بہت اہم معلومات جمع ہورہی ہیں اور جو معلومات شائع کی گئی ہیں وہ صرف ان کی ابتدائی 3 سے 7 ماہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے اور اب بھی ان معلومات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے جب کہ مزید ایک اور مشن کی منظوری مل چکی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکے گا کہ مریخ پر پورے سال کے دوران مختلف موسم اس نظام پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل مریخ پر جانے والی تمام سٹیلائٹ اور مریخ تک پہنچنے والے مشنوں کے مشاہدے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس سرخ سیارے کے گرد کبھی گیسوں کی ایک موٹی چادر تھی، جس سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملی کہ مریخ کی سطح پر پانی موجود ہے جب کہ سٹیلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر سے بھی سیارے کی سطح پر ایسے مناظر نظر آرہے ہیں کہ جن کی شکل دریاؤں ، ندیوں اور جھیلوں سے ملتی ہے تاہم اس وقت مریخ پر ہوا کا دباؤ زمین کے دباؤ سے ایک فیصد کم ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں موجود پانی یا تو بخارات کی شکل میں اڑ جاتا ہے یا پھر بالکل جم جاتا ہے اورممکن ہے کہ سیارے کی فضا میں تبدیلی کی کچھ وجہ اس کی ہوا کاسطح پر موجود نمکیات کے ساتھ ردعمل بھی ہو۔
گذشتہ سال شروع کی جانے والی تحقیق کے مطابق مریخ کی فضا میں تغیر کی سب سے ممکنہ وجہ سورج ہے، جس نے مریخ کو ایک گرم اور مرطوب سے ایک سرد اور خشک سیارے میں تبدیل کردیا ہے اور اس کا پتا اس وقت چلا جب مریخ کے گرد چکر لگانے کے دوران سٹیلائٹ اس کے مزید نزدیک گیا اور سطح سے 200 کلو میٹر کے اندر جاکر وہاں موجود گیسوں کے نمونے حاصل کیے جس سے اندازہ لگایا گیا کہ سورج کی شعاعوں کے ساتھ وہ کیسا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
سورج مستقل بڑی تعداد میں متحرک ذرات خارج کرتا رہتا ہے جن کو شمسی ہوا کہا جاتا ہے۔ یہ ہوا ا پنے اندر مقناطیسی خصوصیات رکھتی ہے اور جب یہ سیارے سے ٹکراتی ہے تو برقی قوت پیدا کرتی ہیں۔ یہ قوت سیارے کی فضا میں موجود ایٹمی ذرات کو متحرک کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں یا تو وہ ایٹمی ذرات سیدھے خلا میں واپس چلے جاتے ہیں یا پھر فضا میں موجود دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر ختم ہوجاتے ہیں اور یوں وہاں موجود پانی جم جاتا ہے۔ ناسا نے مریخ کے ماحول او اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے خلائی جہاز ماون کو 2013 میں خلا میں بھیجا تھا جس نے ستمبر 2014 میں مریخ کی سطح پر اپنے مشن کا آغاز کردیا تھا۔
چند روز قبل ہی ناسا نے اس راز سے پردہ اٹھایا تھا کہ مریخ پر موجود برف جمے پانی کے ذخائر موجود ہیں اور اب سائنس دانوں نے ایک نیا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مریخ پر پانی اور زندگی شمسی طوفان اور سورج کی سرگرمی کی وجہ سے رفتہ رفتہ ختم ہوچکی ہے۔
امریکی خلائی ایجنسی کی ماون سٹیلائٹ پر کام کرنے والے تحقیق کاروں نے اپنے نتائج کے پہلے مرحلے کی معلومات میں انکشاف کیا ہے کہ سورج کے ساتھ باہمی عمل کے نتیجے میں مریخ کی ہوا زیادہ اونچائی پر جا کر ختم ہو رہی ہے اور یہ عمل ماضی میں بہت زیادہ رہا ہے۔
ناسا کے خلائی جہاز ماون کے پرنسپل تحقیق کار بروس جکوسکی کاکہنا ہے کہ سائنس دان بہت تیزی سے مریخ پر زندگی سے متعلق اپنے سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی طرف جا رہے ہیں اورتوقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بہت اہم معلومات جمع ہورہی ہیں اور جو معلومات شائع کی گئی ہیں وہ صرف ان کی ابتدائی 3 سے 7 ماہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے اور اب بھی ان معلومات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے جب کہ مزید ایک اور مشن کی منظوری مل چکی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکے گا کہ مریخ پر پورے سال کے دوران مختلف موسم اس نظام پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل مریخ پر جانے والی تمام سٹیلائٹ اور مریخ تک پہنچنے والے مشنوں کے مشاہدے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس سرخ سیارے کے گرد کبھی گیسوں کی ایک موٹی چادر تھی، جس سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملی کہ مریخ کی سطح پر پانی موجود ہے جب کہ سٹیلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر سے بھی سیارے کی سطح پر ایسے مناظر نظر آرہے ہیں کہ جن کی شکل دریاؤں ، ندیوں اور جھیلوں سے ملتی ہے تاہم اس وقت مریخ پر ہوا کا دباؤ زمین کے دباؤ سے ایک فیصد کم ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں موجود پانی یا تو بخارات کی شکل میں اڑ جاتا ہے یا پھر بالکل جم جاتا ہے اورممکن ہے کہ سیارے کی فضا میں تبدیلی کی کچھ وجہ اس کی ہوا کاسطح پر موجود نمکیات کے ساتھ ردعمل بھی ہو۔
گذشتہ سال شروع کی جانے والی تحقیق کے مطابق مریخ کی فضا میں تغیر کی سب سے ممکنہ وجہ سورج ہے، جس نے مریخ کو ایک گرم اور مرطوب سے ایک سرد اور خشک سیارے میں تبدیل کردیا ہے اور اس کا پتا اس وقت چلا جب مریخ کے گرد چکر لگانے کے دوران سٹیلائٹ اس کے مزید نزدیک گیا اور سطح سے 200 کلو میٹر کے اندر جاکر وہاں موجود گیسوں کے نمونے حاصل کیے جس سے اندازہ لگایا گیا کہ سورج کی شعاعوں کے ساتھ وہ کیسا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
سورج مستقل بڑی تعداد میں متحرک ذرات خارج کرتا رہتا ہے جن کو شمسی ہوا کہا جاتا ہے۔ یہ ہوا ا پنے اندر مقناطیسی خصوصیات رکھتی ہے اور جب یہ سیارے سے ٹکراتی ہے تو برقی قوت پیدا کرتی ہیں۔ یہ قوت سیارے کی فضا میں موجود ایٹمی ذرات کو متحرک کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں یا تو وہ ایٹمی ذرات سیدھے خلا میں واپس چلے جاتے ہیں یا پھر فضا میں موجود دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر ختم ہوجاتے ہیں اور یوں وہاں موجود پانی جم جاتا ہے۔ ناسا نے مریخ کے ماحول او اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے خلائی جہاز ماون کو 2013 میں خلا میں بھیجا تھا جس نے ستمبر 2014 میں مریخ کی سطح پر اپنے مشن کا آغاز کردیا تھا۔