شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں الیکشن کمیشن کے عملے نے قواعد و ضوابط پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا۔

tauceeph@gmail.com

سپریم کورٹ کے مسلسل فیصلوں، سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے مسلسل انکار اور بہانوں کے بعد پنجاب اور سندھ کے 20 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہو گئے۔ یہ بلدیاتی انتخابات تشدد، بدنظمی، ہڑبونگ کے باوجود ایک مثال بن گئے۔

اندرون سندھ پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کامیاب ہو گئیں مگر ایک مضبوط موثر الیکشن کمیشن کے قیام کا معاملہ پھر سیاسی منظرنامے پر ابھر آیا۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی نگرانی کے لیے پہلے مبصرین کو اجازت نہیں دی، پھر محدود پیمانے پر اجازت ملی۔ شفاف انتخابات کے عزم کے بینر تلے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) فافن (Fair and Free Network) نے انتخابات کو مجموعی طور پر پُرامن قرار دیا مگر پولنگ میں بدنظمی، قوانین کی خلاف ورزی اور پولنگ دیر سے شروع ہونے والے واقعات کی نشاندہی کی۔

فافن نے دونوں صوبوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اگلے 2 مراحل میں الیکشن کمیشن اپنی خامیوں کو دور کر لے گا۔ فافن اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں نے 2013ء کے عام انتخابات میں اسی نوعیت کی خامیوں کی نشاندہی کی تھی مگر حکومت اور مخالف سیاسی جماعتوں نے ان خامیوں کو دور کرنے اور جامع اصلاحات کے نفاذ پر توجہ نہیں دی۔

فافن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ حکومتِ پنجاب نے فافن کے مبصرین کو بعض پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کرنے، ووٹنگ اور گنتی کے مراحل کی نگرانی کی اجازت نہیں دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں الیکشن کمیشن کے عملے نے قواعد و ضوابط پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان کے مبصرین نے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر امیدواروں اور ان کے نمایندوں کو کنویسنگ، خفیہ ووٹنگ کے اصول کو افشا کرنے، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ووٹرز پر دباؤ ڈالنے کے واقعات کا مشاہدہ کیا۔ فافن کے عہدیداروں نے اپنی رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی شکایات پر بہت کم کارروائی کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں بعض پولنگ اسٹیشنوں پر اسی بنا پر دیر سے پولنگ شروع ہوئی کہ پولنگ کا عملہ وقت پر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے پر دستیاب نہیں تھا۔ دیر سے پولنگ شروع کرنے کی شکایات پنجاب کے 10 پولنگ اسٹیشنوں سے موصول ہوئیں۔ فافن کے مبصرین نے یہ بھی الزام لگایا کہ بعض پولنگ اسٹیشنوں میں بعض امیدوار اور ان کے حامی اپنے پمفلٹ و پوسٹر بانٹ رہے تھے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ کے عمل کو خفیہ نہ رکھنے کی شکایا ت موصول ہوئیں۔ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر سیاسی رہنما اور سیاسی کارکن انتخابی عملے پر دباؤ ڈال رہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اندرونِ سندھ عملے کا بروقت ڈیوٹی پر نہیں پہنچا اور اسی بناء پر پولنگ دیر سے شروع ہوئی۔ لاڑکانہ، سکھر، گھوٹکی اور جیکب آباد میں بعض پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ کے عمل میں تعطل اور ووٹوں کی گنتی کے عمل میں تعطل کی شکایات بھی ملیں مگر کسی مسلح گروہ کی جانب سے اس طرح پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرنے کے کسی واقعے کی رپورٹ نہیں ملی جس طرح 2013ء کے عام انتخابات میں پولنگ اسٹیشنوں پر مسلح گروہوں کے قبضے کی شکایات ملی تھیں۔

فافن نے اپنی رپورٹ میں معروضیت کے اصول کو مدنظر رکھا مگر پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی قیادت نے انتخابات میں مکمل دھاندلی، پولیس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور پولنگ کے عملے کو دباؤ ڈال کر نتائج تبدیل کرنے کے الزامات عائد کیے۔ سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل اور قوم پرست رہنماؤں، مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ غوث علی شاہ نے صوبائی حکومت پر تشدد، قتل اور مخالفین کو ہراساں کرنے کے الزامات لگائے۔


2013ء کے عام انتخابات 18 ویں ترمیم کے تحت قائم ہونے والے خودمختار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات کو بدنظمی کے اعتبار سے بدترین انتخابات قرار دیا گیا تھا۔ 13 مئی 2013ء کو بہت سے پولنگ اسٹیشنوں میں مقررہ وقت کے بعد پولنگ شروع ہوئی تھی، اس کی ایک بڑی وجہ پولنگ کے عملے کا بروقت تقرر نہ ہونا تھا۔ پھر پولنگ اسٹیشنوں پر ضروری سامان دیر سے پہنچا تھا، بعض پولنگ اسٹیشنوں پر نہ مٹنے والی سیاہی دستیاب نہیں تھی۔

گنتی کے وقت پولیس اور رینجرز والے چلے گئے تھے جس کی بنا پر مسلح گروہوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کر لیا تھا، یوں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر لیے گئے۔ ان انتخابات کے بعد بہت سے ہارے ہوئے امیدواروں نے انتخابی عرضداشتیں خصوصی ٹریبونلز میں داخل کیں، تحریک انصاف نے پنجاب کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا۔ تحریک انصاف نے اپنا مطالبہ پورا نہ ہونے پر گزشتہ سال 14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا مگر عمران خان اور ان کے حامی اس دھرنے میں انتخابی دھاندلیوں کو بھول گئے تھے۔

انھوں نے نواز حکومت کی برطرفی اور ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے پر زور دیا تھا۔ عمران خان کے اتحادی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے آئین کی منسوخی اور الیکشن کمیشن کے مکمل خاتمے کے مطالبات پر زور دینا شروع کیا۔ عمران خان کے گو نواز گو کے نعرے کی بنا پر انتخابی اصلاحات کا معاملہ پس پشت چلا گیا تھا۔

عدالتی کمیشن نے منظم دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا تھا مگر مختلف انتخابی ٹریبونلز کے فیصلوں اور ان فیصلوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ کے فیصلوں میں مختلف حلقوں میں پولنگ کے عملے کی نااہلی، انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا کے ڈیٹابیس سے تصدیق نہ ہونے کی بنا پر انتخابات منسوخ کرنے اور دوبارہ انتخابات کرانے کے فیصلوں سے انتخابی عمل کے شفاف نہ ہونے کے الزامات کی تصدیق ہو گئی تھی۔ جب 18 ویں ترمیم منظور ہوئی تھی تو ایک خودمختار الیکشن کمیشن کا معاملہ طے ہوا، اس قانون کے تحت چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق سے مشروط ہوا۔

الیکشن کمیشن کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کا تقرر پارلیمانی پارٹی کی منظوری سے ہوا۔ اس کے ساتھ ہی چیف الیکشن کمشنر اور چاروں اراکین کے اختیارات یکساں قرار دیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کے چیف ایگزیکٹو کے بجائے مشترکہ قیادت کا اصول طے ہوا تھا۔ اس اصول کے تحت اگر چیف الیکشن کمشنر یا کوئی رکن کسی فیصلے سے اتفاق نہ کرے تو اس فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ مشترکہ قیادت کا تجربہ الیکشن کمیشن میں کامیاب نہ ہوا۔

اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم بھارت کے الیکشن کمیشن کو فعال کرنے والی اصلاحات پاکستان کے الیکشن کمیشن میں رائج کرنا چاہتے تھے مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن کمیشن کا انتظامی کنٹرول کمزور ہوا۔ الیکشن کمیشن کے افسروں نے ووٹر لسٹوں کو اپ ڈیٹ کرنے، پولنگ اسٹیشنوں کے انتخابی مواد کی بروقت فراہمی اور پولنگ کے عملے کی تربیت جیسے مسائل پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔

الیکشن کمیشن کی انتظامی کمزوری کی بنا پر مئی 2013ء کے انتخابات میں بدنظمی ہوئی۔ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں نے انتخاب والے دن اور پھر ساری رات اپنے فرائض تندہی سے انجام نہیں دیے، 2013ء کے انتخابات بدنظمی اور غیر شفافیت کی مثال بن گئے۔ جب سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تو حکومت نے اس واقعے کی اہمیت کو کم کیا۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں دوسرے معاملات میں مشغول رہیں، یوں فخر الدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کے پس منظر اور اثرات پر بحث نہیں ہوئی۔

عمران خان نے گو نواز گو کا نعرہ لگا کر غیر جمہوری راستہ اختیار کیا۔ اس صورتحال میں شفاف انتخابات کے انعقاد کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔ پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات کے لیے ایک بڑی کمیٹی بنائی مگر سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کی بنا پر کمیٹی اپنا کام مکمل نہ کر سکی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تربیت یافتہ انتخابی عملے کا ایک الگ کیڈر بنانے، پریزائیڈنگ افسروں کی ہدایت پر پولیس اور رینجرز کو پابند کرنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال سے انتخابات شفاف ہو سکتے ہیں مگر الیکشن کمیشن کا ہری پور میں بائیومیٹرک نظام رائج کرنے کا تجربہ ناکام ہوا ہے۔

جامع اصلاحات میں ان سب باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ فافن کی رپورٹ میں جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ان کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے۔ شفاف انتخابات کے لیے ایک خودمختار اور شفاف الیکشن کمیشن ضروری ہے جو جامع انتخابی اصلاحات سے ہی ممکن ہے۔ یہ انتہائی مناسب وقت ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں اور پریس کلب اور یونیورسٹیوں میں اس موضوع پر بحث و مباحثہ ہو اور عملی انتخابی اصلاحات تیار ہوں جو شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں۔
Load Next Story