مزدور کو مالکانہ حق ملنا چاہیے

مسئلہ اب صرف مزدوروں کے قانونی حقوق کا نہیں ہے بلکہ یہ طے کرنے کی ضرورت ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

بینکنگ سیکٹر کے ایک معروف مزدور رہنما نے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزدوروں کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک مضبوط اور توانا مزدور تحریک کی ضرورت ہے۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس مزدور رہنما کا تعلق برسر اقتدار پارٹی سے ہے جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مزدور طبقے کی حالت کس حد تک پریشان کن ہے، پاکستان میں مزدوروں کے ساتھ ریاستی ظلم کا سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے حالات اس قدر خراب ہوتے گئے کہ اب شکاگو کے حالات سے بدتر ہو گئے ہیں۔

شکاگو کے مزدوروں نے جو لازوال قربانیاں دیں اس مطالبے پر دیں کہ شکاگو میں مزدوروں کے اوقات کار کا تعین نہ تھا۔ مالکان مزدوروں سے جتنے گھنٹے چاہے کام لیتے تھے، اس ظلم کے خلاف مزدوروں نے جب احتجاج شروع کیا تو حکومت کی غلام انتظامیہ نے مزدوروں پر اس بیدردی سے گولیاں چلائیں کہ شکاگو کی سڑکیں مزدوروں کے خون سے سرخ ہو گئیں۔ شکاگو کے احتجاجی مزدوروں نے اپنے کپڑے اس خون میں بھگو کر سرخ کر لیے یوں سرخ پرچم مزدوروں کا مستقل نشان بن گیا۔

میں نے یہاں شکاگو کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ آج کے اکیسویں صدی کے پاکستان میں مزدوروں کی اوقات کار کا حال شکاگو کے مزدوروں سے بدتر ہے۔ مالکان 12 سے 18 گھنٹے تک مزدوروں سے کام لے رہے ہیں جس کا انھیں کوئی اوور ٹائم نہیں دیا جاتا۔ اس ظلم کے علاوہ مزید ظلم یہ ہے کہ مزدوروں نے طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد جو حقوق حاصل کیے تھے، جن میں تنظیم سازی کا حق، حق ہڑتال اور سودا کاری کا حق شامل ہیں، مالکان نے چھین لیے ہیں۔

اب عملاً صورت حال یہ ہے کہ کوئی مزدور اگر ٹریڈ یونین کا نام لیتا ہے تو اسے کان پکڑ کر کارخانے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ ٹریڈ یونین نہ ہونے سے مزدور لاوارث اور اس حد تک مجبور ہیں کہ وہ عملاً مالکان کے صنعتی غلام بن کر رہ گئے ہیں محکمہ محنت جس کا کام مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہے مالکان کا غلام بنا ہوا ہے۔

مسئلہ اب صرف مزدوروں کے قانونی حقوق کا نہیں ہے بلکہ یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ پیداواری عمل میں مزدور اور صنعتکار کا کردار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ صنعتکار محض سرمایہ لگانے کی وجہ سے مالک کل بنا بیٹھا ہے اور یہ سرمایہ یا تو مزدوروں کے استحصال سے پیدا کیا جاتا ہے یا بینکوں سے قرض لے کر صنعتوں میں لگایا جاتا ہے۔

چونکہ ہمارے ملک کے ہر شعبہ زندگی میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے لہٰذا بہت سارے صنعتکار بینکوں سے اربوں کا قرض لے کر مختلف بہانوں سے ہڑپ کر جاتے ہیں ایسے نادہندگان نے دو کھرب سے زیادہ قرضہ مختلف بہانوں سے معاف کروا لیا ہے۔ یہ کیس مدتوں سے ہماری اعلیٰ عدالتوں کی میز پر پڑا ہوا ہے، کوئی پرسان حال نہیں، ہمارے قانون میں اتنی لچک ہے کہ دیوالیہ سمیت مختلف بہانوں سے اربوں روپوں کا قرضہ ہماری زمینی اور صنعتی اشرافیہ معاف کروا لیتی ہے۔


پیداواری عمل میں محنت سب سے بڑا عامل ہوتی ہے لیکن محنت کو سب سے زیادہ کمتر بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ مزدور کا پیداواری عمل میں جو بنیادی کردار ہوتا ہے اس حوالے سے پیداواری عمل میں سب سے زیادہ قابل احترام مزدور طبقے کو ہونا چاہیے لیکن بددیانتی کی انتہا یہ ہے کہ مزدور کو سب سے زیادہ حقیر بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

سرمایہ مزدور کی محنت سے تشکیل پاتا ہے اس حقیقت کے پیش نظر مزدور کی حیثیت اس پورے عمل میں سب سے زیادہ اہم اور قابل احترام ہونا چاہیے یہ مزدور کا ایسا حق ہے جس کے حصول کے لیے جدوجہد تو کیا کبھی غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔

بھٹو کے سیاسی نعروں میں مزدور کسان راج کا نعرہ بھی شامل تھا اس نعرے کے ذریعے بھٹو مرحوم نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا کہ پیداواری عمل میں مزدور اور کسان ہی سب سے بڑے عامل اور اہم کردار ہیں اس حقیقت کے پیش نظر ملک میں مزدور کسان راج ہونا انصاف کے عین مطابق ہے لیکن بھٹو مرحوم وڈیرہ شاہی اور نوکر شاہی کے جنگل میں اس طرح پھنس گئے کہ مزدور کسان راج لانے کے بجائے مزدوروں پر اس قدر ظلم کیا گیا کہ ٹریڈ یونین ہی ختم ہو کر رہ گئی۔

ہمارے مزدور رہنما کہہ رہے ہیں کہ مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے ایک مضبوط اور توانا تحریک کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عشروں سے مزدور جن مسائل کا شکار ہیں انھیں حل کرنے کے لیے ایک مضبوط اور توانا تحریک کی ضرورت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مضبوط اور توانا تحریک کا ایجنڈا کیا ہو گا؟

روایت کے مطابق مزدور تحریکوں کا مقصد عموماً مزدوروں کی اجرتوں چھٹیوں میں اضافہ، حق ہڑتال وغیرہ ہوتا ہے لیکن یہ مطالبے پرانے اور ازکار رفتہ ہو گئے ہیں اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ پیداواری عمل میں محنت کے اصل مقام کا تعین کیا جائے اب مزدور کو ایک دھتکارے ہوئے حقیر عامل کی حیثیت سے نکلنا ہو گا اور پیداواری عمل میں ایک قابل احترام عامل کی حیثیت کو منوانا ہو گا اسی ذریعے سے مزدور کسان راج کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ مزدور کی حیثیت ہمیشہ دیہاڑی دار کمتر اور حقیر عامل کی رہی ہے جب کہ وہ پیداواری عمل کا سب سے اہم کردار ہے۔

بھٹو مرحوم نے مزدوروں کو اجرت کے ساتھ پیداواری اداروں کا حصے دار بنایا تھا خواہ اس کا یہ حصہ 5 فیصد ہی کیوں نہ ہو وہ معنوی اعتبار سے ملوں، کارخانے داروں میں حصہ دار تھا یہ الگ بات ہے کہ بھٹو کی اس کوشش کو بیورو کریسی اور مالکان نے ناکام بنا دیا۔ لیکن اس ناکامی سے مزدور کا کردار ناکام نہیں ہوا۔

وہ آج بھی پیداواری عمل کا سب سے بڑا اور اہم کردار ہے۔ اب مزدوروں کا مطالبہ نہ محض اجرتوں میں اضافہ، چھٹیوں میں اضافہ، سودا کاری کا حق، حق ہڑتال، تنظیم سازی وغیرہ کا حق نہیں ہونا چاہیے بلکہ پیداواری عمل میں سب سے بڑے عامل کی حیثیت سے اسے اپنے اداروں کا اہم حصہ دار ہونا چاہیے اور اس حیثیت سے اسے فیصلوں میں شرکت کا حق بھی ملنا چاہیے۔

پاکستان میں 68 سال سے مزدوروں کو جس طرح صنعتی غلام بنا کر رکھا گیا ہے اب اس نامنصفانہ ظالمانہ صورتحال کو بدلنا چاہیے تا کہ مزدور اپنی محنت کا جائز منصفانہ حق حاصل کر سکے اور قابل احترام فریق بن جائے۔
Load Next Story