قوم برائے فروخت

محترمہ جماعت اسلامی جسے حالیہ الیکشن میں ایک ووٹ بھی نہیں ملا معلوم ہوتا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

محترمہ جماعت اسلامی جسے حالیہ الیکشن میں ایک ووٹ بھی نہیں ملا معلوم ہوتا ہے ناکامی کی یہ چوٹ کھا کر وہ کچھ سدھر گئی ہے یا سدھرنے پر تیار ہو گئی ہے۔ اس کے سربراہ جناب سراج الحق نے ملک بھر کی لیبر تنظیموں کے عہدہ داروں نے قومی اداروں کی نجکاری روکنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس کانفرنس کا انتظام جماعت اسلامی نے کیا تھا۔ ملک بھر کے کوئی 68 اداروں کی متوقع نجکاری کو روکنے کے لیے اس کنونشن میں بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی نے مدت بعد کسی بڑے غیر سیاسی قومی مسئلے پر مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں شریک نمایندوں نے کہا ہے کہ وہ قومی اداروں کو ریوڑیوں کے بھاؤ اپنے من پسند لوگوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔

قومی اثاثوں کی بندر بانٹ اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ایما پر ہونے والی کسی نجکاری کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اینٹی نجکاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قیادت بکتی ہے تو ادارے بکتے ہیں قومی اداروں کی نجکاری نہ صرف مزدوروں کا معاشی قتل عام ہے بلکہ یہ ملکی وحدت اور قومی سالمیت کے خلاف ہے۔ ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ قومی اداروں کو منافع بخش بنایا جائے۔ حکمران پہلے تو خود ہی قومی اداروں کو عدم استحکام کا شکار کرتے ہیں اور پھر ان کو خریدنے کے لیے بولیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔

آج تک کسی حکومت نے مزدوروں محنت کشوں اور کسانوں کے مسائل کی طرف توجہ نہیں کی۔ حکمران بدلتے رہے مگر اقتصادی اور معاشی ماہرین اداروں میں بیٹھے رہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پسندیدہ یہی لوگ رہتے ہیں۔ حکمران صہیونی اداروں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حکمران آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد پھولے نہیں سماتے اور طرح طرح اتراتے ہیں جیسے انھوں نے سومنات کا مندر فتح کر لیا ہو۔ حکمرانوں نے ہمیشہ قوم کو رائٹ اینڈ لیفٹ کی بنیاد پر تقسیم کر کے اپنے اقتدار کو طول دیا ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ رائٹ اینڈ لیفٹ کے بجائے رائٹ اینڈ رانگ کی بنیاد پر سیاست کی جائے۔

ملک کی سب سے زیادہ منظم جماعت کے امیر نے نجکاری کے مسئلے کو قومی مسئلہ بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے ساتھیوں کی رفاقت میں ایک تحریک چلانے کا عزم بھی کیا ہے۔ کس کو معلوم نہیں کہ موجودہ حکومت میں ایسے لوگ شامل ہو گئے ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں کے نمایندے سمجھے جاتے ہیں جن کا اصل مقصد کسی ملک کو اپنا مقروض کرنا ہوتا ہے۔


گزشتہ مختصر سے عرصہ میں پاکستان پر کتنا قرض لاد دیا گیا ہے اس کا صحیح علم تو شاید ہر وقت ادھر ادھر مصروف حکمرانوں کو بھی نہ ہو لیکن جن لوگوں کو انھوں نے اس کام پر لگا رکھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ پاکستان اب قرضوں کے چنگل سے شاید ہی نکل سکے۔ یہ غیر ملکی قرضے ملک کی پیداوار کو متاثر کرتے ہیں اور قومی آمدنی کو محدود کر دیتے ہیں تا کہ قرضوں کی ادائیگی آسان نہ ہو بلکہ حکمت عملی تو ایسی بنائی جاتی ہے کہ قرضوں کی واپسی نا ممکن کر دی جائے اور ملک کو بیرونی مالیاتی اداروں کا محتاج کر دیا جائے۔

قرضے اس بہانے سے لیے جاتے ہیں کہ مردہ اداروں کو بحال کرنے اور نئے اداروں کو قائم کرنے میں بیرونی مدد مل سکے لیکن اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ کل تک ان کامیاب اداروں کو پھر سے کامیاب کیوں نہیں بنایا جاتا۔ صرف انتظامی دیانت اور قدرے احتیاط کی ضرورت ہے کہ تنخواہیں کئی لاکھ میں نہ ہوں اور دیگر اخراجات کسی حد کے اندر ہوں۔

یہی ادارے اور ان کے کارکن تھے جنہوں نے انھیں قائم کیا تھا اور پھر عرصہ تک کامیابی کے ساتھ چلایا بھی تھا لیکن پی آئی اے جیسے ادارے دنیا میں قابل رشک تھے۔ اسٹیل ملز ملک کی بنیادی ضرورت پوری کر رہی تھی لیکن کچھ بدطنیت افراد اور افسروں نے ان اداروں کو برباد کر دیا اور پھر انھیں بازار میں فروخت کے لیے پیش کر دیا گیا۔ یہ کوئی یونہی سا دعویٰ نہیں بلکہ ان اداروں کے اہم اور دیانت افراد دعوی کرتے ہیں کہ وہ انھیں پھر سے پرانی کامیابی دے سکتے ہیں۔

یہ ادارے کسی نہ کسی بگڑی ہوئی حالت میں موجود ہیں اور صرف ان کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے ان اداروں کی بنیاد رکھی تھی وہ سب پاکستانی تھے کوئی بھی باہر کا نہیں تھا۔ ان پاکستانیوں نے اپنی قوم کو عالمی سطح کے کامیاب ادارے دیے۔ یہی پاکستانی آج بھی اپنا قومی فرض ادا کر سکتے ہیں جب کہ وہ اس کے لیے بے تاب بھی ہیں کیونکہ ان کے ہاتھوں کا لگایا ہوا پودا غلط اور بددیانت لوگوں کے ہاتھ میں دے کر خشک کر دیا گیا ہے۔ مثلاً پی آئی اے کے جہاز آج بھی اڑ رہے ہیں اور پاکستانی ہی انھیں اڑا رہے ہیں۔ یہی جہاز کسی بھی عالمی ائرلائنز کے مقابلے میں پروازیں کر سکتے ہیں۔

جہاز تو باہر بنتے ہیں لیکن ان کو اڑانے والے پاکستانی ہیں وہی پاکستانی جو کبھی ان بیرون ملک بنائے گئے جہازوں سے دھوم مچائے ہوئے تھے۔

یہی حال اسٹیل ملز اور دوسرے اداروں کا تھا جن کو فروخت کرنے بلکہ ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کون نہیں جانتا کہ اس سودے بازی میں کون کون ملوث ہے اور کیا چاہتا ہے یہ لوگ کسی نہ کسی طرح حکمرانوں اور حکومتی بااختیار افراد پر مسلط ہو گئے ہیں اور ہر ایک کو سبز باغ دکھا رہے ہیں مگر ملک کو ایسے لازمی اداروں سے محروم کیا جا رہا ہے جن کے بغیر آج کسی ملک کا تصور بھی مشکل ہے مثلاً ائر لائنز۔ ذرا غور کیجیے کہ پاکستان کے پاس ائر لائنز نہ ہو تو یہ کیا اور کیسا ملک ہو۔ قومی اور بین الاقوامی زندگی ہی معطل ہو جائے۔

جماعت کے امیر نے مہربانی کر کے قوم اور ملک کا صحیح مرض قابو کرنے کی کوشش کی ہے اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائیں تو ملک اور قوم کی ایک عظیم خدمت کو بحال کر دیں اور ان اداروں کو ختم کرنے والے چونکہ غلط لوگ ہیں جن کے ارادے نیک نہیں ہیں اور ان کے دل قومی خلوص سے خالی ہیں اس لیے ان کو شکست دینا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یقین ہے کہ جماعت اسلامی کے لیڈر اپنا یہ قومی فرض ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے اور یوں یہ الیکشن جیت جائیں گے۔
Load Next Story