افغانستان کی دیوانی ہنڈیا
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان افغانستان کا محصول چونگی دار ہے اور افغانستان پاکستان کے ٹرانزٹ روٹ کا زیر بار
KARACHI:
ایک لوک افغان داستان کے مطابق خدا نے چھ دن میں کرہِ ارض تخلیق کیا اور جو اینٹ، پتھر، گارا بچ گیا اس سے افغانستان بنا دیا۔ خطہِ افغان بھلے کیسا بھی پسماندہ، دور افتادہ، مشکل سہی مگر کیا کیا جائے کہ یہ ملک عین عالمی چوک میں نصب بھاری پتھر ہے کہ جہاں ہر جانب سے سڑک آن ملتی ہے۔
آریاؤں، یونانیوں، منگولوں، ترکوں اور پشتونوں کو بھارت میں گھسنے کے لیے چار و ناچار یہی پتھر اولانگھ کے گزرنا پڑا۔ ایرانی حکمران ڈھائی ہزار برس سے اپنی مشرقی سرحد نارمل رکھنے کے لیے افغانستان سے معاملہ کرنے پر مجبور ہیں۔
زار اور پھر سوویت یونین کو اپنی جنوبی مسلمان ریاستیں مستحکم رکھنے کے لیے افغانوں سے خصوصی دوستانہ برقرار رکھنے کی مجبوری لاحق رہی۔ پاکستان بننے کے بعد اگرچہ کسی افغان حکومت کی کسی پاکستانی حکومت سے نہ بنی۔ مگر یہ باہمی مجبوری اپنی جگہ کہ دوست بدل سکتے ہیں، میاں بیوی طلاق لے سکتے ہیں، والدین اولاد کو عاق کر سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے۔
چنانچہ کبھی افغانستان کو ایرانیوں، یونانیوں، مغلوں، روسیوں، انگریزوں اور پھر امریکیوں نے بزور راہِ راست پر رکھنے کی کوشش کی، تو کبھی ترغیب کا جال ڈالا، تو کبھی حقہ پانی بند کرنے کا سوچا، تو کبھی کابل کے تخت پر طفیلی حکمران بٹھا کر کام نکالنے کی کوشش کی مگر افغان کسی کے بھی قابو میں پوری طرح نہ کل آئے، نہ آج ہیں اور نہ آیندہ کوئی امکان لگتا ہے۔
چنانچہ اس فطری خود سری کی قیمت افغانستان کو ہمیشہ خون سے چکانی پڑی اور آس پاس اور دورپار کی طاقتوں نے جھنجھلا کر اسے ایسی بساط میں بدل دیا جسے اگر الٹا نہ بھی جا سکے تو مہرے آگے پیچھے کر کے لہو لہان ضرور رکھا جا سکے۔
آج بھی یہی ہو رہا ہے اور اس کا نتیجہ بھی پہلے سے زیادہ مختلف نکلنے والا نہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ افغان بساط پر اس بار افغان بمقابلہ ایک دشمن نہیں بلکہ افغان بمقابلہ افغان اور دیگر علاقائی و بین الاقوامی طاقتیں بھی ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔
مثلاً پاکستان نے افغانستان کو ہمیشہ برادرِ خورد سمجھتے ہوئے عسکری گہرائی کی عینک سے دیکھا اور اس عینک کو نہ بدلنے کے نتیجے میں بے بہا نقصانات بھی اٹھائے مگر آج بھی عینک کے عدسے کرچی کرچی ہونے اور ٹوٹی کمانی کے باوجود پاکستان اسے ناک سے اتارنے پر آمادہ نہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان افغانستان کا محصول چونگی دار ہے اور افغانستان پاکستان کے ٹرانزٹ روٹ کا زیر بار۔ لہذا پاکستان افغانستان میں کسی رقیب کو نہیں دیکھنا چاہتا۔
مگر افغانستان کی مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ بھی اس کے پانچ ہمسائے ہیں ( ایران، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، چین) اور دو سابق ہمسائے بھی ہیں یعنی روس (سابق سوویت یونین) اور بھارت ( برٹش انڈیا )۔ ان موجودہ اور سابق ہمسائیوں سے افغانستان کے تاریخی، سماجی، معاشی و عسکری تعلقات صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں بہت سے گروہ ہیں جن کے نسلی ڈانڈے ان سب ہمسائیوں سے جا کے ملتے ہیں۔ اسی طرح افغان نسلی گروہ بھی ہمسایہ ممالک میں صدیوں سے آباد ہیں۔ لہذا افغانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ جمعہ جمعہ آٹھ دن پرانی ریاست یعنی پاکستان کی منکوحہ بن کے کیسے رہیں؟ چنانچہ جب جب افغان ہاتھ پاؤں نکال کر باقی ہمسائیوں سے فلرٹ کرنے یا ان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کان فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اس نفسیاتی کمزوری سے دیگر حریف فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتے۔
مثلاً سوویت یونین سے افغانستان کی قربت پاکستان کو پسند نہیں تھی چنانچہ پاکستان نے بڈبیر کا اڈہ امریکا کو دے دیا۔ سوویت یونین نے اس کے توڑ میں کابل کے ذریعے پختونستان کا شوشہ چھڑوا دیا۔ اور پاکستان نے اس کا توڑ ظاہر شاہ اور داؤد مخالف سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو پناہ دے کر کیا اور پھر جب افغانستان میں کیمونسٹ براہ راست برسرِ اقتدار آ گئے تو پاکستان نے ''سوویت توسیع پسندی'' سے گھبرا کے پورا مغربی اونٹ ہی اپنے خیمے میں گھسا لیا اور اس اونٹ کی دم پکڑے بن بلائے ''نان اسٹیٹ مہمان'' بھی چلے آئے۔
جب مغربی کیمپ کا مطلب نکل گیا تو پاکستان نے افغان گیم میں پیچھے رہ جانے کے خوف سے طالبان پر ہاتھ رکھ دیا۔ جب طالبان بھی اچھے بچے ثابت نہ ہوئے تو پھر سے مغرب کی جانب رجوع کر لیا۔ اب مغرب افغانستان سے واپس جا رہا ہے تو پاکستان خود کو ایک بار پھر بدلتے افغان حقائق سے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ڈور کا سرا ہاتھ نہیں آ پا رہا۔
ظاہر ہے بھارت اس صورتِ حال سے کیوں فائدہ نہ اٹھائے۔ چنانچہ اس نے پہلے پاکستان کے ''بندے'' کرزئی کو توڑا۔ پاکستان نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ کرزئی کو ہی توڑ دیا جائے۔ دس برس تک کرزئی کے ساتھ دھینگا مشتی چلتی رہی مگر کوئی کسی کو پوری طرح زیر نہ کر سکا۔ کرزئی کے برعکس اشرف غنی نے یو ٹرن لے کر پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
پاکستان نے بھی ہاتھ بڑھایا۔ مگر دونوں ''دوست'' ایک دوسرے کا '' مشکوک جذبہ'' سراہنے کے باوجود ایک دوسرے کی فرمائشی لسٹ پر عمل درآمد نہیں کر پائے۔ چنانچہ اب اشرف غنی بھی کرزئی بننے کی راہ پر ہے اور اس نے بھی پاکستان کو نفسیاتی طور پر جھنجوڑنے کے لیے بھارت کی جانب مسکرا کے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
بھارت نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کرتے ہوئے تیزی سے کئی قدم اٹھائے۔ دو روز پہلے اس نے افغانستان کو چار روسی ساختہ ایم آئی پچیس ہیلی کاپٹر دینے کا اعلان کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت افغانستان کو جارحانہ ہتھیار دے رہا ہے۔ اب تک وہ افغانستان کو محض فوجی تربیت اور ہلکا فوجی ساز و سامان ہی دیتا آیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے روس سے بھی سمجھوتہ کیا ہے کہ افغان جو مانگیں دے دو اور بل نئی دلی بجھوا دینا۔
ایسا کوئی بھی ملک جس کی افغانستان سے سرحد نہیں ملتی اسے کابل پر اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کے لیے ایران یا پاکستان میں سے کسی ایک کی قربت درکار رہتی ہے۔ بھارت افغانستان کو اپنی مفاداتی حکمتِ عملی کے تحت پاکستانی مواصلاتی تکیے سے نجات دلانا چاہتا ہے اور پاکستان کو پرے رکھتے ہوئے براہِ راست رابطے کا خواہش مند ہے۔
لہذا اس نے افغانستان سے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار تک ایک روڈ لنک مکمل کر لیا ہے۔ بھارت ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہے۔ بھارتی کمپنیاں ایران میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے بین الاقوامی پابندیاں ختم ہونے کی شدت سے منتظر ہیں۔ نئی دلی اچھے سے جانتا ہے کہ پاک ایران تعلقاتی خسارہ بھارت کا منافع ہے۔
اور اب اس بساط پر آ گیا ہے چین۔ بھارت نہ صرف چین کا سب سے بڑا مشرقی ہمسایہ ہے بلکہ سالانہ باہمی تجارت ستر ارب ڈالر سے بھی متجاوز ہے۔ پاکستان چین کو یوں عزیز ہے کہ وہ نہ صرف پرانا اسٹریٹیجک پارٹنر اور بھارت کے ساتھ مقابلے بازی کے چینی ترازو میں ایک وزنی باٹ ہے بلکہ مشرقِ وسطی کی منڈی تک پہنچنے کا مختصر ترین راستہ بھی پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔
ایران نہ صرف بھارت کے علاقائی خواہشاتی ترازو کا ممکنہ باٹ ہے بلکہ ایران چین کے لیے بھی اپنے تیل اور گیس کے سبب قیمتی ہے۔ جب کہ پاکستان بھی توانائی کی فاقہ کشی میں مبتلا ہونے کے سبب افغانستان کے دوسری جانب واقع وسطی ایشیائی گیس کے ذخائر اور ایرانی گیس کو استعمال کرنے کی حسرت میں ہے۔ مگر افغانستان کا وزن بھی کندھے سے ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔
امریکا افغانستان سے عسکری جان تو چھڑانا چاہتا ہے مگر یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان دوبارہ طالبان اور ساتھ ساتھ داعش یا القاعدہ کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ روس کو یہ لالچ ہے کہ بھارت کی امریکا سے بڑھتی ہوئی قربت کے سبب اسے جنوبی ایشیا میں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے کوئی نہ کوئی اہم پارٹنر درکار ہے۔
لہذا جس طرح بھارت افغانستان کے ساتھ عسکری و سیاسی تعاون بڑھا کر پاکستان کو خلجان میں رکھنا چاہتا ہے اسی طرح روس پاکستان کے ساتھ اقتصادی و عسکری پینگیں بڑھا کے بھارت کو جلانا کڑاھنا چاہتا ہے۔ مگر طالبان اور داعش وغیرہ سے کیسے نمٹا جائے اور انھیں افغانستان تک کیسے محدود رکھا جائے؟ اس بابت ہر ملک کا راگ، طبلہ اور سارنگی الگ الگ بج رہے ہیں۔
اگر ایک مربوط علاقائی آرکسٹرا ترتیب دینے کے لیے جلد ہی ساز نہ ملائے گئے تو افغانستان بذاتِ خود ایک سمع خراش پردہ پھاڑ شور میں بدل سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ گیم ہاتھ سے نکل جائے اور غیر ریاستی عناصر ایک نئی خونخوار گیم ڈال دیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ممالک کو افغانستان کی بابت کم از کم یک نکاتی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اور وہ نکتہ یہ ہے کہ کھیل کو بساط کے اندر ہی کھیلا جائے۔ بساط پھٹ گئی تو بہت سوں کا بہت کچھ پھٹے گا ۔۔۔
ایک لوک افغان داستان کے مطابق خدا نے چھ دن میں کرہِ ارض تخلیق کیا اور جو اینٹ، پتھر، گارا بچ گیا اس سے افغانستان بنا دیا۔ خطہِ افغان بھلے کیسا بھی پسماندہ، دور افتادہ، مشکل سہی مگر کیا کیا جائے کہ یہ ملک عین عالمی چوک میں نصب بھاری پتھر ہے کہ جہاں ہر جانب سے سڑک آن ملتی ہے۔
آریاؤں، یونانیوں، منگولوں، ترکوں اور پشتونوں کو بھارت میں گھسنے کے لیے چار و ناچار یہی پتھر اولانگھ کے گزرنا پڑا۔ ایرانی حکمران ڈھائی ہزار برس سے اپنی مشرقی سرحد نارمل رکھنے کے لیے افغانستان سے معاملہ کرنے پر مجبور ہیں۔
زار اور پھر سوویت یونین کو اپنی جنوبی مسلمان ریاستیں مستحکم رکھنے کے لیے افغانوں سے خصوصی دوستانہ برقرار رکھنے کی مجبوری لاحق رہی۔ پاکستان بننے کے بعد اگرچہ کسی افغان حکومت کی کسی پاکستانی حکومت سے نہ بنی۔ مگر یہ باہمی مجبوری اپنی جگہ کہ دوست بدل سکتے ہیں، میاں بیوی طلاق لے سکتے ہیں، والدین اولاد کو عاق کر سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے۔
چنانچہ کبھی افغانستان کو ایرانیوں، یونانیوں، مغلوں، روسیوں، انگریزوں اور پھر امریکیوں نے بزور راہِ راست پر رکھنے کی کوشش کی، تو کبھی ترغیب کا جال ڈالا، تو کبھی حقہ پانی بند کرنے کا سوچا، تو کبھی کابل کے تخت پر طفیلی حکمران بٹھا کر کام نکالنے کی کوشش کی مگر افغان کسی کے بھی قابو میں پوری طرح نہ کل آئے، نہ آج ہیں اور نہ آیندہ کوئی امکان لگتا ہے۔
چنانچہ اس فطری خود سری کی قیمت افغانستان کو ہمیشہ خون سے چکانی پڑی اور آس پاس اور دورپار کی طاقتوں نے جھنجھلا کر اسے ایسی بساط میں بدل دیا جسے اگر الٹا نہ بھی جا سکے تو مہرے آگے پیچھے کر کے لہو لہان ضرور رکھا جا سکے۔
آج بھی یہی ہو رہا ہے اور اس کا نتیجہ بھی پہلے سے زیادہ مختلف نکلنے والا نہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ افغان بساط پر اس بار افغان بمقابلہ ایک دشمن نہیں بلکہ افغان بمقابلہ افغان اور دیگر علاقائی و بین الاقوامی طاقتیں بھی ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔
مثلاً پاکستان نے افغانستان کو ہمیشہ برادرِ خورد سمجھتے ہوئے عسکری گہرائی کی عینک سے دیکھا اور اس عینک کو نہ بدلنے کے نتیجے میں بے بہا نقصانات بھی اٹھائے مگر آج بھی عینک کے عدسے کرچی کرچی ہونے اور ٹوٹی کمانی کے باوجود پاکستان اسے ناک سے اتارنے پر آمادہ نہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان افغانستان کا محصول چونگی دار ہے اور افغانستان پاکستان کے ٹرانزٹ روٹ کا زیر بار۔ لہذا پاکستان افغانستان میں کسی رقیب کو نہیں دیکھنا چاہتا۔
مگر افغانستان کی مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ بھی اس کے پانچ ہمسائے ہیں ( ایران، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، چین) اور دو سابق ہمسائے بھی ہیں یعنی روس (سابق سوویت یونین) اور بھارت ( برٹش انڈیا )۔ ان موجودہ اور سابق ہمسائیوں سے افغانستان کے تاریخی، سماجی، معاشی و عسکری تعلقات صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں بہت سے گروہ ہیں جن کے نسلی ڈانڈے ان سب ہمسائیوں سے جا کے ملتے ہیں۔ اسی طرح افغان نسلی گروہ بھی ہمسایہ ممالک میں صدیوں سے آباد ہیں۔ لہذا افغانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ جمعہ جمعہ آٹھ دن پرانی ریاست یعنی پاکستان کی منکوحہ بن کے کیسے رہیں؟ چنانچہ جب جب افغان ہاتھ پاؤں نکال کر باقی ہمسائیوں سے فلرٹ کرنے یا ان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کان فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اس نفسیاتی کمزوری سے دیگر حریف فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتے۔
مثلاً سوویت یونین سے افغانستان کی قربت پاکستان کو پسند نہیں تھی چنانچہ پاکستان نے بڈبیر کا اڈہ امریکا کو دے دیا۔ سوویت یونین نے اس کے توڑ میں کابل کے ذریعے پختونستان کا شوشہ چھڑوا دیا۔ اور پاکستان نے اس کا توڑ ظاہر شاہ اور داؤد مخالف سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو پناہ دے کر کیا اور پھر جب افغانستان میں کیمونسٹ براہ راست برسرِ اقتدار آ گئے تو پاکستان نے ''سوویت توسیع پسندی'' سے گھبرا کے پورا مغربی اونٹ ہی اپنے خیمے میں گھسا لیا اور اس اونٹ کی دم پکڑے بن بلائے ''نان اسٹیٹ مہمان'' بھی چلے آئے۔
جب مغربی کیمپ کا مطلب نکل گیا تو پاکستان نے افغان گیم میں پیچھے رہ جانے کے خوف سے طالبان پر ہاتھ رکھ دیا۔ جب طالبان بھی اچھے بچے ثابت نہ ہوئے تو پھر سے مغرب کی جانب رجوع کر لیا۔ اب مغرب افغانستان سے واپس جا رہا ہے تو پاکستان خود کو ایک بار پھر بدلتے افغان حقائق سے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ڈور کا سرا ہاتھ نہیں آ پا رہا۔
ظاہر ہے بھارت اس صورتِ حال سے کیوں فائدہ نہ اٹھائے۔ چنانچہ اس نے پہلے پاکستان کے ''بندے'' کرزئی کو توڑا۔ پاکستان نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ کرزئی کو ہی توڑ دیا جائے۔ دس برس تک کرزئی کے ساتھ دھینگا مشتی چلتی رہی مگر کوئی کسی کو پوری طرح زیر نہ کر سکا۔ کرزئی کے برعکس اشرف غنی نے یو ٹرن لے کر پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
پاکستان نے بھی ہاتھ بڑھایا۔ مگر دونوں ''دوست'' ایک دوسرے کا '' مشکوک جذبہ'' سراہنے کے باوجود ایک دوسرے کی فرمائشی لسٹ پر عمل درآمد نہیں کر پائے۔ چنانچہ اب اشرف غنی بھی کرزئی بننے کی راہ پر ہے اور اس نے بھی پاکستان کو نفسیاتی طور پر جھنجوڑنے کے لیے بھارت کی جانب مسکرا کے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
بھارت نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کرتے ہوئے تیزی سے کئی قدم اٹھائے۔ دو روز پہلے اس نے افغانستان کو چار روسی ساختہ ایم آئی پچیس ہیلی کاپٹر دینے کا اعلان کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت افغانستان کو جارحانہ ہتھیار دے رہا ہے۔ اب تک وہ افغانستان کو محض فوجی تربیت اور ہلکا فوجی ساز و سامان ہی دیتا آیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے روس سے بھی سمجھوتہ کیا ہے کہ افغان جو مانگیں دے دو اور بل نئی دلی بجھوا دینا۔
ایسا کوئی بھی ملک جس کی افغانستان سے سرحد نہیں ملتی اسے کابل پر اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کے لیے ایران یا پاکستان میں سے کسی ایک کی قربت درکار رہتی ہے۔ بھارت افغانستان کو اپنی مفاداتی حکمتِ عملی کے تحت پاکستانی مواصلاتی تکیے سے نجات دلانا چاہتا ہے اور پاکستان کو پرے رکھتے ہوئے براہِ راست رابطے کا خواہش مند ہے۔
لہذا اس نے افغانستان سے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار تک ایک روڈ لنک مکمل کر لیا ہے۔ بھارت ایرانی تیل کا بڑا خریدار ہے۔ بھارتی کمپنیاں ایران میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے بین الاقوامی پابندیاں ختم ہونے کی شدت سے منتظر ہیں۔ نئی دلی اچھے سے جانتا ہے کہ پاک ایران تعلقاتی خسارہ بھارت کا منافع ہے۔
اور اب اس بساط پر آ گیا ہے چین۔ بھارت نہ صرف چین کا سب سے بڑا مشرقی ہمسایہ ہے بلکہ سالانہ باہمی تجارت ستر ارب ڈالر سے بھی متجاوز ہے۔ پاکستان چین کو یوں عزیز ہے کہ وہ نہ صرف پرانا اسٹریٹیجک پارٹنر اور بھارت کے ساتھ مقابلے بازی کے چینی ترازو میں ایک وزنی باٹ ہے بلکہ مشرقِ وسطی کی منڈی تک پہنچنے کا مختصر ترین راستہ بھی پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔
ایران نہ صرف بھارت کے علاقائی خواہشاتی ترازو کا ممکنہ باٹ ہے بلکہ ایران چین کے لیے بھی اپنے تیل اور گیس کے سبب قیمتی ہے۔ جب کہ پاکستان بھی توانائی کی فاقہ کشی میں مبتلا ہونے کے سبب افغانستان کے دوسری جانب واقع وسطی ایشیائی گیس کے ذخائر اور ایرانی گیس کو استعمال کرنے کی حسرت میں ہے۔ مگر افغانستان کا وزن بھی کندھے سے ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔
امریکا افغانستان سے عسکری جان تو چھڑانا چاہتا ہے مگر یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان دوبارہ طالبان اور ساتھ ساتھ داعش یا القاعدہ کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ روس کو یہ لالچ ہے کہ بھارت کی امریکا سے بڑھتی ہوئی قربت کے سبب اسے جنوبی ایشیا میں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے کوئی نہ کوئی اہم پارٹنر درکار ہے۔
لہذا جس طرح بھارت افغانستان کے ساتھ عسکری و سیاسی تعاون بڑھا کر پاکستان کو خلجان میں رکھنا چاہتا ہے اسی طرح روس پاکستان کے ساتھ اقتصادی و عسکری پینگیں بڑھا کے بھارت کو جلانا کڑاھنا چاہتا ہے۔ مگر طالبان اور داعش وغیرہ سے کیسے نمٹا جائے اور انھیں افغانستان تک کیسے محدود رکھا جائے؟ اس بابت ہر ملک کا راگ، طبلہ اور سارنگی الگ الگ بج رہے ہیں۔
اگر ایک مربوط علاقائی آرکسٹرا ترتیب دینے کے لیے جلد ہی ساز نہ ملائے گئے تو افغانستان بذاتِ خود ایک سمع خراش پردہ پھاڑ شور میں بدل سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ گیم ہاتھ سے نکل جائے اور غیر ریاستی عناصر ایک نئی خونخوار گیم ڈال دیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ممالک کو افغانستان کی بابت کم از کم یک نکاتی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اور وہ نکتہ یہ ہے کہ کھیل کو بساط کے اندر ہی کھیلا جائے۔ بساط پھٹ گئی تو بہت سوں کا بہت کچھ پھٹے گا ۔۔۔