چونتیسویں پی ایم اے کی یاد میں
کنکریٹ کی بنی پریڈ گراؤنڈ کو دیکھ کر مختلف یادیں یلغار کرتے واپس آئیں۔
جنہوں نے ملک کے ابتدائی ملٹری ادارے پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) سے گریجویشن کی ہے ان کے لیے یہ ایک متبرک مقام ہے۔ میں 14 مئی 1964ء کو 34 ویں پی ایم اے لانگ کورس کے لیے منتخب کیے جانے والے 110 جنٹلمین کیڈٹس (GCs) میں شامل ہونے کی حیثیت سے اکیڈمی کے اسٹیل گیٹس سے اندر داخل ہوا۔ آرمی ایوی ایشن ہیلی کاپٹر پائلٹ کے طور پر 1969/70ء کے دوران متعدد بار پرواز کرتے ہوئے پی ایم اے آیا تاہم میں جسمانی طور پر پچاس سال میں پہلی بار گولڈن جوبلی ری یونین کی تقریب منانے یہاں پہنچا۔ ہماری پاسنگ آؤٹ پریڈ 30 اکتوبر 1965ء کو ہوئی تھی۔
کنکریٹ کی بنی پریڈ گراؤنڈ کو دیکھ کر مختلف یادیں یلغار کرتے واپس آئیں۔ ہمارے ڈرل اسٹاف کے چنگھاڑتے ہوئے احکامات ہمارے کانوں میں ابھی تک گونج رہے ہیں اور میوزک بینڈ ''اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا'' اور اس قسم کے دوسرے قومی ترانوں کی دھن بجا رہا تھا۔
فرسٹ پاکستان بٹالین میں (جو کہ قائداعظم کی اپنی بٹالین تھی) صرف چار کمپنیاں تھیں یعنی خالد' قاسم' طارق اور صلاح الدین۔ دو اور بٹالین قائم ہو چکی ہیں جب کہ چوتھی کے قیام کی تیاریاں جاری ہیں۔ پی ایم اے کی جدید ترین عمارتیں ہمیں بڑی عجیب لگیں۔ ہم انھی وسیع و عریض لکڑی کی بیرکس کو بے سود تلاش کرتے رہے۔ ایک ''ہٹ'' ابھی تک قائم تھی جسے دیکھ کر ہم ناسٹلجیا میں مبتلا ہو گئے۔
ہم اپنے کچھ ساتھیوں سے کئی عشروں تک نہیں ملے تھے۔ ہماری کھوئی ہوئی جوانی گویا بھاگتی ہوئی واپس آ رہی تھی گو کہ ایسا بڑے مختصر سے وقت کے لیے ہوا۔ نوجوانوں کے طور پر ہمارے اہداف ہم آہنگ اور ہمارے جذبے عروج پر تھے جو اب معدوم ہو چکے تھے۔ ایک جذبہ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا وہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کا کردار جو ایک دفعہ تشکیل پا جاتا ہے پانچ عشروں میں بھی تبدیل نہیں ہوتا۔ ظاہری شکل بدل سکتی ہے' لیکن وہ سب زیادہ نرم خو' زیادہ با علم اور زیادہ قابل اور یقینی طور پر زیادہ پیشہ ور ہو گئے تھے۔ کوئی شخص اپنی ظاہری شخصیت کو تبدیل کر سکتا ہے لیکن بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
ہمارے محبوب ٹیم کمانڈر میجر (بعدازاں کرنل) عزیز جو میری کتاب کی رونمائی کی تقریب میں وہیل چیئر پر تشریف لائے تھے اور پلاٹون کمانڈرز کیپٹن (بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل) امتیاز اللہ وڑائچ' کیپٹن (بعدازاں لیفٹیننٹ جنرل) افضال خان' میجر (بعدازاں کرنل) محمد افضل اور کیپٹن (بعدازاں کرنل) اصغر خان بھی شامل تھے۔ تقدیر کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ پہلے چند کیڈٹس بڑی آسانی سے جنرل بن گئے۔ خضر حیات' احسان الحق' شاہ عالم' مرحوم فرحت اللہ اور مسعود انور بھی جنرل بن سکتے تھے لیکن وہ نہ بنے۔ جیسے کہ بریگیڈئیر شیر افگن اور احمد سلیم۔ دو ایک غیر مستحق جن کی شخصیات میں خاصا جھول تھا وہ بھی جنرل کے رینک تک پہنچ گئے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ 5 عشروں کے بعد آج بھی وہ بنیادی طور پر کمینے اور کرپٹ ہیں۔
کوئی بھی کیڈٹ انگل ہال (INGALL HALL) کو کبھی نہیں بھول سکتا جس کا نام پی ایم اے کے کمانڈنٹ بریگیڈئیر انگل کے نام پر رکھا گیا تھا اور جو الفاظ اس پر لکھے ہوئے تھے ''اس بات کی اہمیت نہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ جب وہ ہو رہا ہوتا ہے تو آپ کا طرز عمل کیا ہوتا ہے''۔ یہ الفاظ ہمارے دلوں پر لکھے گئے ہیں جن کی آواز ہماری روح سے آتی ہے۔ یہی الفاظ چونتیسویں پی ایم اے کی پچاسویں ری یونین شیلڈ پر کندہ کیے گئے جس کا ڈیزائن ہمارے لیے کرنل خالد' میجر احسن' کرنل صغیر بخاری اور بریگیڈئیر احمد سلیم نے تیار کیا۔ اس ری یونین کی تقریب کے اہتمام کا سہرا یقیناً خالد کے سر بندھے گا۔
ہماری ٹیم کے چوبیس ساتھ وفات پا چکے ہیں۔ ان میں دو سلیم خان اور خالد بشیر میجر جنرل تھے۔ میجر محمد یوسف کو رحلت کیے ایک ہفتے سے بھی کم وقت ہوا ہے۔ کرنل افتخار نے ان کے آخری وقت تک ان کی دیکھ بھال کی۔ زیادہ اموات صحت کی خرابی سے ہوئیں۔ ہمارے 33 کورس میٹس ہمارے ساتھ کاکول میں شریک نہ ہو سکے۔ بریگیڈئیر گل عالم (جن کا تعلق پشاور سے ہے) بے حد بیمار ہونے کے باوجود اور ہمایوں رشید (جو لاہور سے ہیں) یہ دونوں کاکول پہنچ گئے۔ میجر جنرل خورشید عالم جنہوں نے ''سورڈ آف آنر'' جیتنے میں مجھے ہرا دیا تھا (لیکن میں اس تلوار کے لیے 'رنر آپ' ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس کے لیے مجھے 'نارمینز گولڈ میڈل' عطا کیا گیا اور 'یاد گاری تختی' بھی دی گئی۔ اگرچہ میری ایک ہفتہ پہلے ہی انجیوگرافی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود میں 31 اکتوبر کو کورس ڈنر میں شمولیت کے لیے پہنچ ہی گیا۔
میری پہلی ٹرم کے روم میٹ بریگیڈئیر جنرل (ر) ٹی ڈی راجا پاکسا جن کا تعلق سری لنکا کی آرمی سے تھا وہ نیوزی لینڈ سے پرواز کر کے پہنچے حالانکہ ان کی صاحبزادی اسپتال میں زیر علاج تھی۔ سری لنکا کے 6 کیڈٹس میں میجر جنرل 'لکی' وجے رتنے ایک جنگی معرکے میں کام آٰئے' میجر جنرل سری پیریس صرف دو ہی مہینے پہلے فوت ہوئے' لیفٹیننٹ کرنل اتنایا کا جو بہت علیل ہیں اور میجر جنرل آنندا ویرا سکیرا وہ اپنی بیوی کے انتقال کے بعد ریٹائر ہو کر بدھ بھگشو بن چکے ہیں۔ حامد نے بہت پہلے کینیڈا کی امیگریشن لے لی تھی۔ ہمارے ساتھ درجن بھر نیول کیڈٹس بھی فرسٹ ٹرم میں تھے۔
کموڈور گوندل' کیپٹن محسن اور کیپٹن کیفی (جو کرنل اے۔ جے بابر کے ہمراہ اب بھی میرے قریبی کولیگ ہیں) ان سب نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ کاکول کی وزٹ میں شرکت کی۔ کرنل (ر) ظل الباری جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے وہ اتنے بیمار تھے کہ سفر نہیں کر سکتے تھے۔ شاہ عالم نے بیمار ہونے کے باوجود کینیڈا سے طویل پرواز کے بعد لاہور میں پی آئی اے کی پرواز کا انتظار کیا جو 4 گھنٹے لیٹ تھی۔ سلام الحق انصاری جو آر ایم اے سینڈھرسٹ کے لیے منتخب ہوئے، جب کہ میں اسٹینڈ بائی تھا۔ انھوں نے یو کے سے آ کر شرکت کی۔ بیگم احسان الحق اور بیگم جمشید فیروز کی تعریف کی جانی چاہیے جو سڑک کے راستے پی ایم اے پہنچیں۔
اکیڈمی میں ٹرم بریک تھی۔ کمانڈنٹ پی ایم اے وہاں موجود نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ہماری بڑی شاندار مہمان داری کی گئی۔ پی ایم اے کے انتظامات بے مثال اور نہایت قابل تعریف تھے۔ تھرڈ پاک بٹالین کے فیلڈ آفیسر جن کا تعلق اکیڈمک اسٹاف سے تھا (اور ایک خاتون جو 'نسٹ' کی پروفیسر تھیں) اور ہماری عمر کے حساب سے ایک ڈاکٹر کا انتظام بھی کر رکھا تھا یہ سب بہت عالیشان انتظامات کے آئینہ دار تھے۔
پی ایم اے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت غیر معمولی تھیں کیونکہ اب دماغ کے ساتھ ساتھ جسم پر بھی توجہ مرکوز کی جاتی تھی جب کہ ہمارے وقت میں زیادہ توجہ جسم کو ہی دی جاتی تھی۔ جو بات بہت متاثر کن تھی کہ اب مستقبل کے افسروں کی جانچ کے لیے جدید الیکٹرونکس ٹیکنیکس استعمال کی جا رہی تھیں۔ ہمارے زمانے میں پی ایم اے میں صرف مرد حضرات ہی ہوتے تھے جب کہ اب خواتین 'جی سیز' کو بھی تربیت اسی معیار کے مطابق دی جا رہی تھی جو مردوں کے لیے مقرر تھا۔ ان کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جاتی کہ وہ خواتین ہیں۔
ہمارے کورس کو 5 ٹرموں کے بجائے چھوٹا کر کے 4 ٹرموں پر مشتمل کر دیا گیا تھا۔ اپریل 1965ء سے اکتوبر 1965ء تک کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا۔ ہمیں تیسری اور چوتھی ٹرم کا پورا نصاب جنگی بنیادوں پر مکمل کرنا پڑا جس میں صرف ہماری پڑھائی لکھائی ہی نہیں تھی بلکہ تمام فوجی مشقیں بھی شامل تھیں۔
11 ستمبر 1965ء کو ہمیں اس وقت مایوسی کا سامنا ہوا جب ہمیں سرحدوں پر ہونے والی جنگی کارروائیوں میں شمولیت کا موقع نہ مل سکا۔ اس وقت تک ہمیں جنگ کی ہولناکی کا احساس نہ ہو سکا جب تک ہمیں اس جنگ میں کام آنیوالے اور زخمی ہونیوالے اپنے افسروں کے ناموں کی فہرست نہ ملی۔ ہم میں سے 81 نے (ان میں سری لنکا کے 6 جی سیز شامل نہیں) کاکول سے 30 اکتوبر 1965ء کو گریجویشن کی۔ ہم عملی طور پر اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہو گئے لیکن آج 50 سال کے بعد بھی پی ایم اے کے ایک مقدس مقام ہونے کا تصور ابھی تک ہمارے دل و دماغ پر قائم ہے۔
کنکریٹ کی بنی پریڈ گراؤنڈ کو دیکھ کر مختلف یادیں یلغار کرتے واپس آئیں۔ ہمارے ڈرل اسٹاف کے چنگھاڑتے ہوئے احکامات ہمارے کانوں میں ابھی تک گونج رہے ہیں اور میوزک بینڈ ''اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا'' اور اس قسم کے دوسرے قومی ترانوں کی دھن بجا رہا تھا۔
فرسٹ پاکستان بٹالین میں (جو کہ قائداعظم کی اپنی بٹالین تھی) صرف چار کمپنیاں تھیں یعنی خالد' قاسم' طارق اور صلاح الدین۔ دو اور بٹالین قائم ہو چکی ہیں جب کہ چوتھی کے قیام کی تیاریاں جاری ہیں۔ پی ایم اے کی جدید ترین عمارتیں ہمیں بڑی عجیب لگیں۔ ہم انھی وسیع و عریض لکڑی کی بیرکس کو بے سود تلاش کرتے رہے۔ ایک ''ہٹ'' ابھی تک قائم تھی جسے دیکھ کر ہم ناسٹلجیا میں مبتلا ہو گئے۔
ہم اپنے کچھ ساتھیوں سے کئی عشروں تک نہیں ملے تھے۔ ہماری کھوئی ہوئی جوانی گویا بھاگتی ہوئی واپس آ رہی تھی گو کہ ایسا بڑے مختصر سے وقت کے لیے ہوا۔ نوجوانوں کے طور پر ہمارے اہداف ہم آہنگ اور ہمارے جذبے عروج پر تھے جو اب معدوم ہو چکے تھے۔ ایک جذبہ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا وہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کا کردار جو ایک دفعہ تشکیل پا جاتا ہے پانچ عشروں میں بھی تبدیل نہیں ہوتا۔ ظاہری شکل بدل سکتی ہے' لیکن وہ سب زیادہ نرم خو' زیادہ با علم اور زیادہ قابل اور یقینی طور پر زیادہ پیشہ ور ہو گئے تھے۔ کوئی شخص اپنی ظاہری شخصیت کو تبدیل کر سکتا ہے لیکن بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
ہمارے محبوب ٹیم کمانڈر میجر (بعدازاں کرنل) عزیز جو میری کتاب کی رونمائی کی تقریب میں وہیل چیئر پر تشریف لائے تھے اور پلاٹون کمانڈرز کیپٹن (بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل) امتیاز اللہ وڑائچ' کیپٹن (بعدازاں لیفٹیننٹ جنرل) افضال خان' میجر (بعدازاں کرنل) محمد افضل اور کیپٹن (بعدازاں کرنل) اصغر خان بھی شامل تھے۔ تقدیر کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ پہلے چند کیڈٹس بڑی آسانی سے جنرل بن گئے۔ خضر حیات' احسان الحق' شاہ عالم' مرحوم فرحت اللہ اور مسعود انور بھی جنرل بن سکتے تھے لیکن وہ نہ بنے۔ جیسے کہ بریگیڈئیر شیر افگن اور احمد سلیم۔ دو ایک غیر مستحق جن کی شخصیات میں خاصا جھول تھا وہ بھی جنرل کے رینک تک پہنچ گئے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ 5 عشروں کے بعد آج بھی وہ بنیادی طور پر کمینے اور کرپٹ ہیں۔
کوئی بھی کیڈٹ انگل ہال (INGALL HALL) کو کبھی نہیں بھول سکتا جس کا نام پی ایم اے کے کمانڈنٹ بریگیڈئیر انگل کے نام پر رکھا گیا تھا اور جو الفاظ اس پر لکھے ہوئے تھے ''اس بات کی اہمیت نہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ جب وہ ہو رہا ہوتا ہے تو آپ کا طرز عمل کیا ہوتا ہے''۔ یہ الفاظ ہمارے دلوں پر لکھے گئے ہیں جن کی آواز ہماری روح سے آتی ہے۔ یہی الفاظ چونتیسویں پی ایم اے کی پچاسویں ری یونین شیلڈ پر کندہ کیے گئے جس کا ڈیزائن ہمارے لیے کرنل خالد' میجر احسن' کرنل صغیر بخاری اور بریگیڈئیر احمد سلیم نے تیار کیا۔ اس ری یونین کی تقریب کے اہتمام کا سہرا یقیناً خالد کے سر بندھے گا۔
ہماری ٹیم کے چوبیس ساتھ وفات پا چکے ہیں۔ ان میں دو سلیم خان اور خالد بشیر میجر جنرل تھے۔ میجر محمد یوسف کو رحلت کیے ایک ہفتے سے بھی کم وقت ہوا ہے۔ کرنل افتخار نے ان کے آخری وقت تک ان کی دیکھ بھال کی۔ زیادہ اموات صحت کی خرابی سے ہوئیں۔ ہمارے 33 کورس میٹس ہمارے ساتھ کاکول میں شریک نہ ہو سکے۔ بریگیڈئیر گل عالم (جن کا تعلق پشاور سے ہے) بے حد بیمار ہونے کے باوجود اور ہمایوں رشید (جو لاہور سے ہیں) یہ دونوں کاکول پہنچ گئے۔ میجر جنرل خورشید عالم جنہوں نے ''سورڈ آف آنر'' جیتنے میں مجھے ہرا دیا تھا (لیکن میں اس تلوار کے لیے 'رنر آپ' ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس کے لیے مجھے 'نارمینز گولڈ میڈل' عطا کیا گیا اور 'یاد گاری تختی' بھی دی گئی۔ اگرچہ میری ایک ہفتہ پہلے ہی انجیوگرافی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود میں 31 اکتوبر کو کورس ڈنر میں شمولیت کے لیے پہنچ ہی گیا۔
میری پہلی ٹرم کے روم میٹ بریگیڈئیر جنرل (ر) ٹی ڈی راجا پاکسا جن کا تعلق سری لنکا کی آرمی سے تھا وہ نیوزی لینڈ سے پرواز کر کے پہنچے حالانکہ ان کی صاحبزادی اسپتال میں زیر علاج تھی۔ سری لنکا کے 6 کیڈٹس میں میجر جنرل 'لکی' وجے رتنے ایک جنگی معرکے میں کام آٰئے' میجر جنرل سری پیریس صرف دو ہی مہینے پہلے فوت ہوئے' لیفٹیننٹ کرنل اتنایا کا جو بہت علیل ہیں اور میجر جنرل آنندا ویرا سکیرا وہ اپنی بیوی کے انتقال کے بعد ریٹائر ہو کر بدھ بھگشو بن چکے ہیں۔ حامد نے بہت پہلے کینیڈا کی امیگریشن لے لی تھی۔ ہمارے ساتھ درجن بھر نیول کیڈٹس بھی فرسٹ ٹرم میں تھے۔
کموڈور گوندل' کیپٹن محسن اور کیپٹن کیفی (جو کرنل اے۔ جے بابر کے ہمراہ اب بھی میرے قریبی کولیگ ہیں) ان سب نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ کاکول کی وزٹ میں شرکت کی۔ کرنل (ر) ظل الباری جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے وہ اتنے بیمار تھے کہ سفر نہیں کر سکتے تھے۔ شاہ عالم نے بیمار ہونے کے باوجود کینیڈا سے طویل پرواز کے بعد لاہور میں پی آئی اے کی پرواز کا انتظار کیا جو 4 گھنٹے لیٹ تھی۔ سلام الحق انصاری جو آر ایم اے سینڈھرسٹ کے لیے منتخب ہوئے، جب کہ میں اسٹینڈ بائی تھا۔ انھوں نے یو کے سے آ کر شرکت کی۔ بیگم احسان الحق اور بیگم جمشید فیروز کی تعریف کی جانی چاہیے جو سڑک کے راستے پی ایم اے پہنچیں۔
اکیڈمی میں ٹرم بریک تھی۔ کمانڈنٹ پی ایم اے وہاں موجود نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ہماری بڑی شاندار مہمان داری کی گئی۔ پی ایم اے کے انتظامات بے مثال اور نہایت قابل تعریف تھے۔ تھرڈ پاک بٹالین کے فیلڈ آفیسر جن کا تعلق اکیڈمک اسٹاف سے تھا (اور ایک خاتون جو 'نسٹ' کی پروفیسر تھیں) اور ہماری عمر کے حساب سے ایک ڈاکٹر کا انتظام بھی کر رکھا تھا یہ سب بہت عالیشان انتظامات کے آئینہ دار تھے۔
پی ایم اے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت غیر معمولی تھیں کیونکہ اب دماغ کے ساتھ ساتھ جسم پر بھی توجہ مرکوز کی جاتی تھی جب کہ ہمارے وقت میں زیادہ توجہ جسم کو ہی دی جاتی تھی۔ جو بات بہت متاثر کن تھی کہ اب مستقبل کے افسروں کی جانچ کے لیے جدید الیکٹرونکس ٹیکنیکس استعمال کی جا رہی تھیں۔ ہمارے زمانے میں پی ایم اے میں صرف مرد حضرات ہی ہوتے تھے جب کہ اب خواتین 'جی سیز' کو بھی تربیت اسی معیار کے مطابق دی جا رہی تھی جو مردوں کے لیے مقرر تھا۔ ان کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جاتی کہ وہ خواتین ہیں۔
ہمارے کورس کو 5 ٹرموں کے بجائے چھوٹا کر کے 4 ٹرموں پر مشتمل کر دیا گیا تھا۔ اپریل 1965ء سے اکتوبر 1965ء تک کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا۔ ہمیں تیسری اور چوتھی ٹرم کا پورا نصاب جنگی بنیادوں پر مکمل کرنا پڑا جس میں صرف ہماری پڑھائی لکھائی ہی نہیں تھی بلکہ تمام فوجی مشقیں بھی شامل تھیں۔
11 ستمبر 1965ء کو ہمیں اس وقت مایوسی کا سامنا ہوا جب ہمیں سرحدوں پر ہونے والی جنگی کارروائیوں میں شمولیت کا موقع نہ مل سکا۔ اس وقت تک ہمیں جنگ کی ہولناکی کا احساس نہ ہو سکا جب تک ہمیں اس جنگ میں کام آنیوالے اور زخمی ہونیوالے اپنے افسروں کے ناموں کی فہرست نہ ملی۔ ہم میں سے 81 نے (ان میں سری لنکا کے 6 جی سیز شامل نہیں) کاکول سے 30 اکتوبر 1965ء کو گریجویشن کی۔ ہم عملی طور پر اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہو گئے لیکن آج 50 سال کے بعد بھی پی ایم اے کے ایک مقدس مقام ہونے کا تصور ابھی تک ہمارے دل و دماغ پر قائم ہے۔