جناح کا پاکستان اور گاندھی کا ہندوستان
کل اروند دھتی رائے نے بھی اپنے سرکاری تمغے ہندوستان ریاست کو واپس کردیے
لاہور:
کل اروند دھتی رائے نے بھی اپنے سرکاری تمغے ہندوستان ریاست کو واپس کردیے۔ گلزار سے بھی رہا نہ گیا۔ وہ بول اٹھے۔ ایسا سانس گھٹتا ہندوستان اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ یوں تو ایمرجنسی کے زمانے بھی ہندوستان پر آئے لیکن وہ فاشزم سیکولرزم، روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر تھا۔ اب کی بار وہاں آیا مودی سرکار کے زمانے کا فاشزم جو پاکستان و مسلمان دشمنی پر انحصار کرتا ہے۔
تو پھر دیکھیے کیسے قوموں کی روحیں خود یعنی ان کے ابلاغ عامہ کا بنایا ہوا بیانیہ، ریاست کی دی ہوئی چھوٹ ، کوکھ سے نکلا بیانیہ، پران اور پنڈتوں کے دیے درس سے نکلا ہوا بیانیہ۔ ولبھ بھائی پٹیل کی سوچ سے نکلا ہوا نفرتوں کا غبار۔ غبار خاطر کے بانی اس کانگریس کے اہم رہنما جو سیکولر ہندوستان میں مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ مقام نہ پاسکے مولانا عبدالکلام آزاد جن کا نام تھا جو الجھی ڈور سلجھاگئے کہ پاکستان جناح نے نہیں بلکہ نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل کی سوچ نے بنایا، تو وہ ہندوستان اب خود اپنی لگائی آگ سے الجھ گیا ہے۔
ہاں ہم نے بھی فاشزم کو ضیا الحق کے زمانے میں دیکھا تھا۔ اور اس کے بعد ریاست کی مجاہدین سے پکی یاریاں ان کوتزویراتی گہرائیstrategic depthسمجھنا، انتہا پسند سوچ کو کھلی چھوٹ دینا، تو پھر ہم بھی ایک آگ میں لپٹ گئے اور وہ آگ ایک Cosmetic Surgery کی طرح بظاہر تو یوں لگ رہی ہے کہ تھم سی گئی ہو مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یوں کہیے کہ آگ ہے برابر دونوں جگہ لگی ہوئی۔ یہاں پر کچھ اہل جنوں تھے۔ سبین محمود ، جیسے وہ بھی آخری شب کے ہم سفر کی مانند نہ جانے کیا ہوئے۔ ہمارے ہاں بہت سے اہل قلم، دانشور ، شاعر وغیرہ ہیں جو اس بڑھتے ہوئے فاشزم کو للکار سکیں۔
مقبوضہ کشمیر ان سے سنبھالا نہیں جا رہا اس کا سارا ملبہ ہمارے اوپر۔ ہمارے ہاں ہندوستان دشمنی پر پوری دائیں بازو کی سیاست کا بازار گرم، تو خود اسلحہ وغیرہ کے بجٹ کا اضافہ اسی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
المیہ یہ ہوا کہ آزادی ملتے ہی گاندھی اور جناح بہت جلد اللہ کو پیارے ہوگئے اور پھر جو ہجرت کے نام پر قتل و غارت گری ہوئی، ایسی مثال دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کہیں رقم ہو۔ پھر ہم نے اپنی قومی روح بنائی یعنی بیانیہ یا Narrative بنایا۔ انھوں نے بھی بنایا۔ وہ ہم سے بہت بہتر اس لیے تھے کہ وہ امریکا یا سرد جنگ کی Front Line State نہیں تھے۔ جمہوریت ان کو ملی۔ بنا بنایا انگریز دارالخلافہ نظام و ادارے ان کو ملے، مگر ہمیں ادارے بنانے پڑے۔تنکا تنکا یکجا کرنا پڑا۔
مولوی تمیزالدین کیس اور ہندوستان کے کیشونندا کیس میں جو مماثلت ہے وہ اس بات کی ہے کہ ہم یہاں سسٹم کے چلنے کی جنگ عدالت میں ہارے تھے اور وہ اس طوفان میں عدالت کی طاقت سے بچ گئے۔ اور جو کچھ بھی کہو نہرو کو مگر ٹیٹو کے ساتھ بیٹھ کر، جمال ناصر کے ساتھ بیٹھ کر جو غیر وابستہ ممالک کی تحریک چلائی تب ہم امریکا کوفخریہ انداز میں پشاور کے اڈے دے رہے تھے کہ وہ سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے استعمال کرے۔
اور پھر کیا ہوا، ہمارا تعلق بیلٹ باکس سے کٹ گیا۔ ہندوستان کے ساتھ جو بھی ہوا مگر بیلٹ باکس وہیں رہا۔ بھلے کیوں نہ ہٹلر کی طرح اس بیلٹ باکس سے مودی نکلا ہو۔
ان کے ہاں اروند دھتی رائے غدار وطن ہے، ہمارے ہاں سبین محمود تھی۔ بہت پہلے یہ اعزاز ولی خان، بزنجو، میرے ابا کے سینے پہ سجایا گیا تھا۔ اور اگر اس ریاست سے انھوں نے کبھی تمغے لیے بھی ہوتے تو ایسی صورتحال میں اروند دھتی رائے کی طرح واپس کردیے گئے ہوتے۔
ہمارے ہاں اب جا کر عاصمہ جہانگیر بچی ہیں ۔ خدا ان کی عمر دراز کرے لیکن ہے ان کی آواز بھی نقار خانے میں ایک طوطی کی طرح۔ ہمارے بیانیے کو بہت ہی ڈسا گیا ہے، بہت ہی آلودہ ہوچکا ہے۔ ہمارا دشمن کوئی اور نہیں ہمارا اپنا بنایا ہوا بیانیہ ہے۔
وہ بندے ماترم سے نہیں نکل سکیں گے۔ اکھنڈ بھارت کے نیشنلزم میں غلطاں رہیں گے۔ اور ہمارے ہیروز اور فاتحین وہی رہیں گے جو غیر ملکی حملہ آور تھے۔
سندھی میں کہاوت ہے کہ خدا جب ناراض ہوتا ہے تو وہ اس بندے کی عقل چھین لیتا ہے۔ کسی ہتھیار وغیرہ سے اسے نہیں مارتا۔
آج کل میں بہت قریب سے سندھ کے تبدیل ہوتے ہوئے منظر کو دیکھ رہا ہوں۔ جہاں غربت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی انتہا پرستی و بدامنی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
سندھی وڈیرا اور جمہوریت یہ دونوں حقیقتیں آپس میں تصادم میں ہیں اور پھر جس طرح رضیہ غنڈوں میں پھنس جاتی ہے، جمہوریت بے چاری ان پارلیمانی غنڈوں میں پھنس جاتی ہے۔
یہ ماجرا ہندوستان میں بھی ہے تو ہمارے ہاں بھی ۔ قصہ مختصر یہ کہ سندھ میں بڑھتی ہوئی بری حکمرانی کی کوکھ سے بنیاد پرستی پھیل رہی ہے۔ بلکہ پورے پاکستان کا یہی ماجرا ہے۔ غربت ایک بڑی وجہ ہے اس سارے نظام میں اس کی تباہی کی ۔ اور خود یہ نظام جوکہ کچھ بھی نہیں بری حکمرانی کا شاہکار مجموعہ ہے۔
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
پورے برصغیر میں غربت و پسماندگی کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں لوگ غربت کے مارے خودکشیاں کرتے ہیں۔ لگ بھگ ساٹھ فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ بنگلہ دیش کی بھی یہی کہانی ہے۔ تیری میری ایک کہانی۔ ہم 1947 سے پہلے ایک تھے ۔ ایک ہی تاریخ کے وارث ہیں۔ آزادی کے بعد ہمیں اپنی تاریخ کی نئی تشریح کرنی پڑی، نئی تشریح کرتے کرتے ہم تاریخ کو مسخ بھی کر بیٹھے۔تاریخ کو مسخ کرنا اپنے مستقبل سے بھٹکنے کے برابر ہے۔
ہمیں اس برصغیر میں امن کے ساتھ ایک ساتھ رہنا ہے۔ اب ہم بچے نہیں رہے، آدھی صدی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے آزادی پائے ہوئے۔ ہمارے اندر غیر اعتمادی سے غربت اور پنپتی ہے اور وہی غربت ہماری ریاست کی دشمن ہے۔ جب غریب کے بچوں کے لیے اسکول بند ہوتے ہیں تو وہ مدرسوں میں جا کے پناہ لیتے ہیں۔
وہ مسخ شدہ تاریخ میں سے سچ نکالنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ پھر بھٹک جاتے ہیں۔ کبھی ہم اپنا اصل ترکھانوں میں ڈھونڈتے ہیں تو کبھی ہم عربوں میں تو کبھی آریاؤں میں۔ ہم نے اپنے آپ کو اس دھرتی سے جوڑنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہمیں موئن جودڑو بت خانہ نظر آیا۔ ہم نے راجہ داہر کو اپنا مانا ہی نہیں۔ ہم نے غزنویوں اور غوریوں کو اپنا ہیرو مانا۔ مگر یہ اکبر بادشاہ تھے جو اس زمین کے ساز اور آوازوں کو پہچان بیٹھے، تو پھر مٹی نے بھی اس کو مان دیا۔ اس نے مسلمان بادشاہت کی بنیاد ڈالی کہ صدیوں تک یہ بادشاہت قائم رہی۔
اروند دھتی رائے میری جنگ کی سالار ہیں وہ ایک ایسا ہندوستان چاہتی ہے جو نفرتوں کے سیاسی دھندوں سے بڑا ہو جہاں ہندوبنیاد پرستی کا وجود نہ ہو اور میں بھی ایک ایسا پاکستان چاہتا ہوں جو نفرتوں کی دھند سے باہر نکلے ، جہاں بنیاد پرستی کا وجود نہ ہو۔ احترام انسانیت کا دور دورہ ہو۔