نو سال نو ماہ اور تاحیات

ہمارے ایک دوست جو اچھا شعری ذوق رکھتے ہیں ان کے لبوں پر ہمیشہ کوئی شعر ہوتا ہے


Hameed Ahmed Sethi November 08, 2015
[email protected]

ہمارے ایک دوست جو اچھا شعری ذوق رکھتے ہیں ان کے لبوں پر ہمیشہ کوئی شعر ہوتا ہے لیکن عجیب عادت کہ وہ اس روز سارا دن وہی شعر گنگناتے پائے جاتے ہیں۔ کالج کے ابتدائی دنوں تک وہ خود مشق سخن کرتے رہے لیکن ایک ملاقات پر جب ان کے قلمی استاد قتیل شفائی نے انھیں مشورہ دیا کہ تیسرے درجے کی شاعری کرنے سے پرہیز کر کے تعلیم پر توجہ دو تو انھوں نے اسی دن شعر گوئی سے توبہ کر لی۔ گزشتہ کئی روز سے البتہ وہ ایک ہی شعر گنگناتے پائے جا رہے ہیں جب کہ ان کا ہر دن نئے شعر سے شروع ہوا کرتا تھا۔ یہ شعر یوں ہے ؎

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے

ہم نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کا روئے سخن عمران خان کے گزشتہ ہفتے کے ''ترک تعلق'' والے المیے کی صرف تو یقینا نہیں ہو گا جس پر انھوں نے شعر ایک بار پھر گنگنا دیا جس پر ان سے تجزیہ چاہا کہ اس علیحدگی کی نوبت ہی کیوں آئی جس پر نمناک نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے انھوں نے افسردہ لہجے میں کہا ''تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا''

شفقت بخاری BCCI میں اہم عہدوں پر کام کرتے رہے وہ گلف میں تعینات تھے کہ اسی بینک کے سینئر افسر نے قرضہ کے لیے درخواست دی۔ بخاری نے پوچھا کہ اسے قرضہ کی ضرورت کیوں آ پڑی، جواب ملا کہ شادی کرنے کے لیے۔ انھوں نے گلف کے اس شہری سے کہا کہ تمہاری تو پہلے ہی دو بیویاں ہیں۔ اس نے جواب دیا ان دونوں نے بہت تنگ کر رکھا ہے اسی لیے سکون کی خاطر تیسری شادی کر رہا ہوں۔

اس شادی کے بعد پہلی دو آپس میں مصروف ہو جائیں گی اور میری زندگی میں پھر سے بہار آ جائے گی۔ بخاری کو حیرت تو ہوئی لیکن اسے معلوم تھا کہ وہاں کے مقامی لوگوں میں ایک شادی والے شہریوں کی تعداد بہت کم ہے۔ پھر اسے یاد آ گیا کہ پاکستان میں بھی بڑے زمینداروں نے خفیہ طور پر ایک سے زیادہ شادیاں کر رکھی ہوتی ہیں اور ان کی وفات کے بعد پراپرٹی میں حصہ لینے کی خاطر دو یا تین بیویوں کی اولاد اچانک نمودار ہو کر مقدمہ بازی میں مصروف ہو جاتی ہے۔

سیاست دان نے دوسری تیسری شادی کی ہو تو وہ چونکہ جہاندیدہ اور ڈنڈی پٹی والا ہوتا ہے اس لیے پہلی بیوی کے بعد کمزور فیملیوں میں صرف شوقیہ شادیاں کرتا اور بعد والی بیویوں سے جائیداد کے حصے کی وصولی کے اشٹام لکھوا کر ہی اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے چونکہ اسلام میں چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے اس لیے بہت سے دیندار لوگ اس اجازت سے استفادہ کرنا ثواب سمجھ کر ضرورت مند بیویوں کی کفالت کرنے کا فریضہ انجام دے کر نیکی کمانے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ ہمارے ایک دنیا دار ملنے والے نے دو نوجوان بیواؤں کی کفالت گناہوں کے دھبے دھونے کی غرض سے شروع کر رکھی ہے لیکن خود کو بدنامی سے اور پہلی بیوی کو حسد سے بچانے کے لیے انھیں قریبی شہر میں رہائش کی سہولت دی ہوئی ہے۔

اس قبیل کے اللہ لوک معقول تعداد میں ہمارے اردگرد موجود ہیں لیکن نہ وہ خود اپنی نیکیوں کی تشہیر چاہتے ہیں نہ دوسروں کو جاسوسی کی عادت ہوتی ہے۔ ویسے بھی نیکی کر کے دریا برد کرنا ہی پسندیدہ فعل ہے۔ہمارے ملک کے ایک سابق گورنر اور حاضر سروس وزیر اعلیٰ اس سلسلے میں بڑے بااصول اور وضعدار واقع ہوئے ہیں وہ نیکی کمانے کے لیے نامحرم کے قریب بھی جانا گناہ سمجھتے ہیں اس لیے قید شریعت کا نسخہ استعمال کرنا مناسب سمجھتے ہیں اور جیسے ہی کسی دوسری مصروفیت کی طرف رجوع ہو وہ پنچھی کو آزاد کر دیتے ہیں ان کا فلسفہ بے حد آسان اور عام فہم ہے۔

اگرچہ ان کی سیاسی مصروفیات بے تحاشہ ہوتی ہی لیکن وہ مذکورہ فلاحی کاموں کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ہمارے ایک خوش حال و خوش مزاج ملاقاتی کی زوجہ انتقال کر گئیں تو بہت سے لوگوں کی طرح ہم بھی فاتحہ خوانی کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچے۔ اس سے پہلے بھی ہم اسی مکان پر جایا کرتے تھے۔ کوئی چھ ماہ بعد انھوں نے ہمیں اور ایک اور دوست کو فیملی کے ساتھ کھانے پر بلایا لیکن اس بار ایڈریس مختلف تھا۔ ہم پہنچے تو ایک وضعدار خاتون اور مختلف بچوں نے ہمارا استقبال کیا معلوم ہوا اور وہ ان ہی کی خاتون خانہ ہیں۔ ہم نے تخلیئے میں استفسار کیا کہ ماجرا کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ وہ عرصہ بیس سال قبل ان کے عقد میں آئی تھیں اور ان کے تین عدد بچے ہیں۔ انھوں نے وہ پہلے والا مکان سب سے بڑے بیٹے کو دے کر صاحب جائیداد بنا دیا ہے۔ حیرت ہے ہم پرانے ملاقاتی ہم پر بھی بیس سال پرانے عقد ثانی کا راز گزشتہ دنوں والی دعوت پر کھلا۔ایک شادی ختم کر کے کسی مطلقہ بچوں والی خاتون سے عقد کرنے والے اصحاب کے خانگی معاملات پر حتمی تبصرہ اس لیے ممکن نہیں کہ ہر کسی کے حالات و تعلقات کی نوعیت دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں یہ میتھ یا الجبرے کا سوال نہیں کہ جواب ایک ہی آئے۔ ایک نہایت خوبصورت شخص سخت بدتمیز ہو سکتا ہے اور امیر کبیر انسان انتہا کا کنجوس جب کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بد دماغ و خودسر ہو سکتا ہے۔

یاد آیا کہ اخبار میں خبر پڑھی تھی کہ ایک شخص نے خفیہ طور پر دوسری شادی کر رکھی تھی۔ اس کی پہلی بیگم کے گھر سب اچھا تھا بچے جوان ہوئے تو بڑے لڑکے کو باپ کی خفیہ شادی کا پتہ چل گیا۔ باپ کی غیر موجودگی میں گھر میں فیملی کانفرنس ہوئی۔ شام کو باپ آیا تو بڑے لڑکے نے دروازہ کھول کر بازو سے رستہ روک کر والد سے کہا ''اس گھر کے دروازے اب آپ پر بند ہیں۔''عمران خان ایک شاندار انسان، بہترین اسپورٹس مین، سوشل ورکر، ویلفیئر آرگنائزر اور نظریاتی شخصیت ہیں۔

اب ملکی سیاست میں بھی ایک نام اور مقام رکھتے ہیں۔ ان کی پہلی شادی نو سال قائم رہی۔ بلوغت کی منزل چھوتے ہوئے دو خوبصورت اور لائق بیٹے ہیں۔

انھیں دوسری بار گھر بسانا تھا۔ ان کی یہ چوائس ایک ہمدرد سگھڑ اور گھریلو خاتون ہونی چاہیے تھی جو فیملی کے دوسرے افراد کے لیے قابل قبول ہوتی اور کیمرہ و مجلس پسند نہ ہوتی۔ گھر کو سنبھالتی نہ کہ اٹھارہ کروڑ عوام کی بھابھی ہونے کا اعلان کرتی۔ ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور یہ غلطیاں ہی اس کی استاد ہوتی ہیں۔ بلاشبہ عمران میں غلطیوں سے سبق سیکھنے کی اہلیت موجود ہے۔ یہ نو ماہ کی شادی جو بروقت ٹوٹ گئی خود پھر دو فریقین کے لیے سبق آموز ثابت ہو گی اور اب عمران کو ایک سگھڑ، سب فیملی ممبران کے لیے قابل قبول گھریلو اور سمجھدار خاتون کی ضرورت ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں