دبی ہوئی خاموش آوازیں
اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے ہمارے گناہوں سے ہمیں محفوظ کر دے
اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے ہمارے گناہوں سے ہمیں محفوظ کر دے اور ہماری سزا میں کمی کر دے یہ سب اس کا فضل و کرم ہو گا جس کے ہم حقدار ہیں یا نہیں لیکن مغفرت کا دروازہ اس کے ہاں ہی کھلا رہتا ہے۔
ایک بہت ہی بڑے صوفی اپنے ارادت مندوں کے حلقے میں وعظ کر رہے تھے کہ انھوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے اور ہماری فریاد کی راہ کھلی کر دے، یہ سن کر ایک بڑھیا نے جو اس محفل میں شریک تھی اس صوفی سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کا دروازہ کبھی بند بھی ہوتا ہے کہ اس پر دستک دینی پڑے۔ یہ سن کر صوفی کی حالت بے قابو ہو گئی۔
گھبرائے ہوئے مریدوں اور عقیدت مندوں نے اپنے مرشد کو ہوش میں لانے کی کوشش شروع کر دی اور جب یہ صوفی ہوش میں آیا تو اس بڑھیا کے قدموں میں گر گیا۔ ہم تو کسی قطار و شمار میں نہیں ہیں لیکن بہرحال ہمارے سامنے بھی ایک ہی دروازہ ہے مغفرت اور معافی کا۔ گناہ کرنا گویا ہمارا شیوہ ہے اور معاف کرنا اللہ تبارک تعالیٰ کی مغفرت ہے جس کی طلب اگر سچی ہو تو پھر ہماری معافی کی قبولیت ہمیں عطا ہو جاتی ہے۔
لاہور میں دو تین دن پہلے، ایک اونچی عمارت گر گئی اور اس عمارت میں موجود کارخانے میں کام کرنے والے کتنے ہی مزدور اس عمارت کی چھت اور دیواروں میں پھنس گئے۔ بچاؤ کا کام جاری ہوا اور زندہ اور مردہ چند مزدوروں کو نکالا گیا اور ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی اور آتی رہی کہ اس عمارت میں دبے ہوئے انسان اپنی زندگی کی اطلاع دے رہے ہیں۔
ان کی وہ زندگی جو بس کچھ وقت کی مہمان ہے اگر کوئی نجات دلانے والا کارکن پہنچ گیا تو کسی مزدور کو زندہ نکال لیا ورنہ مزدور اور اللہ تبارک تعالیٰ کے درمیان فاصلہ ختم ہو گیا۔ بے خبری کی حالت میں اچانک موت کے منہ میں چلے جانے والے مزدور اللہ ہی جانتا ہے کہ شہید ہیں یا کیا ہیں لیکن ہم لوگ جو اس عمارت سے باہر بحفاظت بیٹھے تھے ان سب کو شہید ہی سمجھتے رہے۔ رزق حلال کی تلاش میں بال بچوں کو گھر چھوڑ کر موت کے منہ میں چلے جانا اور سب کے لیے ایک دنیا تاریک کر جانا یہ سب کیا ہے۔ اللہ کی ذات ہی جانتی ہے کہ یہ مزدور اس کے غریب بندے کس حال میں موت کا نشانہ بن گئے۔
اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت کرے لیکن ان انسانوں کو سزا دے جو ایسی عمارتوں کی دیکھ بھال پر مامور ہونے کے باوجود اپنا فرض ادا نہیں کرتے۔ حکومت نے سنا ہے ایسا کوئی محکمہ بنایا ہوا ہے لیکن وہ کہاں ہے۔
اس کی موجودگی میں بھی عمارتیں گر رہی ہیں اور نہ جانے کتنے بے گناہ یہ دنیا چھوڑ رہے ہیں اور ان میں زیادہ تر وہ جو زندہ تھے جو نان جویں کے محتاج تھے اور یہ زندگی ان کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش تھی جو اب کسی پتھر یا اینٹ کے بوجھ یا چوٹ سے ختم ہو گئی اور ایسے کتنے ہی زندہ موجود ہیں جو کسی ایسی اینٹ یا عمارت کے پلستر کے منتظر ہیں جو انھیں اس زندگی سے نجات دلا دے اور خودکشی کے گناہ سے بچا لے۔ میں نے اس عمارت کے سانحے کے دنوں میں دیکھا کہ ہمارے حکمران اپنی گراں قدر مصروفیات میں لگے ہوئے ہیں۔
ملک کے اندر سفر کر رہے ہیں، کروڑوں خرچ کر رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اس گری ہوئی عمارت کے قریب بھی نہیں پھٹکا۔ درست کہ وہ ریسکیو کا کیا کام کر لیتا لیکن بے سہارا لوگوں کے لیے ایک سہارا تو بن جاتا، بہرکیف جو بھی ہوا وہ ہم سب کی آزمائش تھی اور ہے کیونکہ عمارت کے ملبے سے اب بھی کوئی نہ کوئی لاش نکل آتی ہے کوئی مزدور اپنے پیچھے رونے والے چھوڑ جاتا ہے۔
میں ان دنوں لاہور میں تھا اور اس عمارت سے شاید زیادہ دور بھی نہ تھا لیکن میں نے یہاں جان ہارنے والوں کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ صرف اپنے دوست اور کارکن ساتھی مولانا وجیہہ السیما عرفانی کو یاد کرتا رہا جو اس جگہ کہیں مقیم رہے تھے اور اب ان کے پسماندگان یہاں ان کی یاد میں مقیم ہیں۔ یہ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میں بھی لاہور کے گنہ گاروں میں شامل ہوں جو اس سانحہ میں خاموش رہے، شاید اپنے رب سے مغفرت طلب کی ہو لیکن ان سے مطالبہ اس سے زیادہ کا تھا کچھ کرنے کا اور دوسرے مسلمانوں کو سلامتی کے ساتھ اس ملبے سے نکالنے کا۔ پاکستان میں اب ایسے حادثے ہونے لگے ہیں کہ کوئی بڑی عمارت آگ کی نذر ہو گئی اور اس میں موجود انسان بھی اس آگ میں جل گئے یا کوئی بڑی عمارت گر گئی اور اس کے ملبے میں کتنے ہی انسان دب گئے۔
یہ سندر والی عمارت کی چوتھی منزل تعمیر کی جا رہی تھی جو اس کی کمزور دیواروں نے برداشت نہ کی اور ساری عمارت ہی گر گئی۔ شنید ہے کہ حالیہ زلزلے میں اس عمارت کی دیواروں میں کچھ دراڑیں آ گئیں لیکن ان کی پروا کیے بغیر اس عمارت میں توسیع شروع کر دی گئی۔ یہاں مزدور پولی تھین کے بیگ بناتے تھے اور چند روز کام رک جاتا تو مالک کو نقصان ہوتا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس کارخانے اور عمارت کا مالک بھی اس حادثے میں فوت ہو گیا جس کی تحقیق ہو رہی ہے۔
اصل سوال صرف ایک عمارت تک محدود نہیں ہے لاہور میں کتنی ہی کئی منزلہ عمارتیں ہیں جو انجینئرنگ کے بغیر کھڑی ہیں اور جب کبھی کوئی بے احتیاطی ہوتی ہے تو وہ زمین بوس ہو جاتی ہیں اور زمین بوس ہی نہیں کئی انسانوں کو بھی ساتھ لے جاتی ہیں۔
میں کئی دنوں سے اس سانحہ پر کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی۔ مگر کب تک ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں کتنے ہی حادثوں پر ہمت سے کام لینا پڑتا ہے۔ ایک حادثہ سندر والا بھی ہے جس میں بتایا گیا کہ ملبے میں پھنسے انسان شور کرتے رہے لیکن ان کی آوازیں اس بڑی عمارت میں دب گئیں۔ البتہ ایک ماں تین دن تک اس ملبے کو دیکھتی رہی جس کے اندر اس کی اولاد تھی لیکن اس ملبے نے ماں کی کوئی مدد نہ کی۔