ڈھیٹ بچے
نبی پاک ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے شمع ہدایت ہے،
نبی پاک ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے شمع ہدایت ہے، آپ ﷺ کے گفتار احادیث اور اعمال سنت کہلاتے ہیں اور یہ دونوں قرآن کریم کی سادہ سی تفسیر ہیں۔
انھوں نے اپنی حیات طیبہ میں جو بھی کیا وہ وہی ہے جس کا درس ہمیں ہماری کتاب ہدایت یعنی قرآن کریم میں ملتا ہے، جہاں قرآن کو سمجھنا مشکل لگے وہاں سنت اور حدیث سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے، یعنی یہ عمل ہیں قرآن کا۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں سنت سے راہنمائی ملتی ہے اور اس پر عمل کرنے سے دوگنا ثواب بھی، ایک تو نیک کام کرنے کا اور اس پر یہ کہ وہ کام سنت کی تقلید میں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً مذہب کی ان ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے جو اپنے فائدے کے لیے ہوں اور بتا کر کیا جاتا ہے کہ دوسرا بیاہ میں سنت کی تقلید میں کر رہا ہوں کیونکہ ہمارے نبی پاک ﷺ نے اتنی شادیاں کیں ۔
چاہے تو شادیوں میں بے شمار غیر اسلامی رسومات ہو رہی ہوں ، جہیز لیا جا رہا ہو، ہندوؤں سے لی گئی ساری رسومات پر عمل ہو رہا ہو، نماز روزہ چاہے ٹوٹا پھوٹا ہو، روزہ نہ بھی رکھیں تو افطاری کی '' سنت '' ضرور پوری کرتے ہیں۔ایک طرف ہم یتیموں کا مال کھا کر ڈکار بھی نہیں لیتے اور دوسری طرف چولے پہن کر یتیموں کے حق میں تقریریں کر رہے ہوتے ہیں، دوسروں کو یتیم سے شفقت کا درس دیتے ہیں اور اپنے گھر پر چاہے کسی یتیم کا استحصال ہو رہا ہو۔
کسی ایک معاملے میں اصراف پر دوسروں کو لیکچر دیں اور جب اپنے گھر میں معاملہ آئے تو کہیں کہ دنیا داری ہے، کرنا پڑتا ہے، مجبوری سے کر رہا ہوں ، بیوی بچوں کے ہاتھوں مجبور ہو گیا ہوں ۔ اپنے گھر میں کوئی معاملہ ہو تو اس کے لیے رازداری برتی جائے اور دوسروں کے گھروں کے معاملات کی ٹوہ میں رہا جائے، اپنے لیے دوسروں سے توقع کی جائے کہ وہ ہمارا راز افشاء نہ کریں اور دوسروں کا ڈھول گلے میں پہن کر بجاتے پھریں ۔
بات ہو رہی تھی زندگی کے ہر معاملے میں سنت کی تقلید کی، ایک واقعے سے ہی اس کا اندازہ کریں۔ اگلے روز ایک شادی پر جانے کا اتفاق ہوا، مدعو کرنے والوں نے تقریب کی صبح پیغام بھیجا کہ امید ہے آپ اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عین چھ بجے فلاں ہال میں موجود ہوں گے تاکہ تقریب بر وقت انجام پا سکے، حکومت کی طرف سے مقرر کر گئی وقت کی حد کے باعث ایسا بے حد ضروری ہے۔
اسلام آباد سے کھاریاں تک کا سفر درپیش تھا مگر اس بات کو یقینی بنایا حسب سابق اور چھ بجے مقررہ جگہ جا پہنچے، وہاں ہو کا عالم تھا، کال کرکے معلوم کیا تو علم ہوا کہ ہمارے میزبان ابھی اپنے گھر پر تیار ہو رہے تھے، ہم ایک قریبی ہوٹل میں جا کر بیٹھ گئے اور اپنی جیب سے خرچہ کر کے سوپ نوش کیا۔ پورے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہمارے میزبانوں کی گاڑیاں نظر آئیں اور اس کے بعد آدھا گھنٹہ لگا کر وہ گاڑیوں سے نکل کر گروپ کی شکل میںایک فرلانگ کا فاصلہ طے کر کے ہال کے باہر پہنچے جہاں ان کا انتظار ہو رہا تھا۔
کوفت کی انتہا ہو گئی جب ساڑھے نو بجے مردوں کو کھانا دیا گیا، بھوک سے نڈھال بچے بلک بلک کراپنی بنی سنوری ماؤں کے چہروں پر بیزاری اور غصے کا لیپ کیے ہوئے تھے۔ ان کی ماؤں کو سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ وہ اپنا غصہ کس پر اور کس طرح نکالیں، مرد کھانا کھا کر ہضم کر چکے اور ہم عورتوں کو کھانے کی امید بھی ختم ہو گئی کیونکہ شنید ہے کہ دس بجے تک ہال کا وقت ہوتا ہے۔ دس بج کر گزرگئے اور اس کے پانچ منٹ کے بعد ٹھنڈا کھانا خواتین کے لیے کھول دیا گیا کیونکہ وہ گرم کھانا کھانے کی نہ گھروں میں مستحق ہوتی ہیں نہ تقریبات میں۔
بہت پہلے پڑھا ہوا یاد آتا رہا ، جو کہ میں اکثر اپنے خاندان میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ آنحضور ﷺ جب اپنے اہل خاندان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتے تو سب سے پہلے کھانا چھوٹے بچوں کو دیتے پھر گھر کی خواتین اور پھرخوداپنے لیے لیتے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت سنت ہے جس کے پیچھے کئی معانی چھپے ہیں، بچوں کے دل بے صبرے ہوتے ہیں، ان کی طبیعت میں جلد بازی اور انھیں پہلے کھانا اسی مقصد سے دیتے تھے کہ ان کا دل اتنی دیر تک للچاتا نہ رہے۔
خواتین کی عزت اور احترام جو صرف مغربی معاشرے کی روایات کا حصہ سمجھی جاتی ہے کہ وہاں ladies first کا اصول روا رکھا جاتا ہے، مگر اصل میں یہ خوبصورت سبق اور روایت ہمارے مذہب کی ہے۔ عورتیں دن بھر گھر کے کام کاج کی مشقت کرتی ہیں، سب کے لیے پکاتی ہیں مگر جب کھانے کی باری آتی ہے تو وہ انتظار کرتی ہیں کہ سب کھانا ڈال لیں اور جو بچ جائے وہ اسے ملے، بسا اوقات بلکہ عموما تو وہ اس بات کی مستحق بھی نہیں سمجھی جاتیں کہ وہ اسی دستر خوان پر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیں، کولہو کے بیل کی طرح جتی ہوئی ، دن بھر خدمت کے فرض پر مامور عورت جو بیٹی ہو، بہو، بہن، بھابی یا ماں ... دوسروں کے لیے اپنا آپ مار کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش میں سرگرداں مگر ناکام۔ حکومت کا احکامات جاری کرنے کا کیا فائدہ جب تک اس کی چیکنگ نہ کی جائے کہ آیا تقریبات بر وقت ختم ہو رہی ہیں کہ نہیں، ایک ڈش کے کھانے کے حکم کی پابندی ہو رہی ہے یا کہ گوشت کے سالن کے ساتھ چاولوں میں بوٹیاں اور مسالے ڈال کر بریانی بنا لینا... کیا یہ احکامات کی خلاف ورزی نہیں؟
کیا کوئی ایسا قانون بن سکتا ہے کہ شادیوں میں شادی ہال والے خواتین و حضرات کو ایک وقت پر کھانا دیں ؟ اگر ان کے پاس کھانا سرو کرنے والوں کا فقدان ہے تو پھر اپنی سروس اتنے ہی لوگوں تک محدود کر دیں جتنے لوگوں کو وہ یکمشت سرو کر سکتے ہیں، ہزار لوگوں کی گنجائش کا ہال، دو ہزار کی گنجائش کا ہال، یہ دعوے بے فائدہ ہیں اگر ان ہالوںمیں لوگ ایک دوسرے سے گھٹنے ٹکراتے ہوئے جڑ کر بیٹھے ہوں یا اتنے نفوس ہوں کہ سانس لینے میں دشواری ہو ۔
صرف یہ نہیں کہ تقریبات کے اختتام کے اوقات مقرر کر دیے جائیں اور ایک ڈش کے کھانے کی پابندی کا حکم جاری کیا جائے بلکہ شادی کی تقریبات کے زیادہ سے مہمانوں کی حد بھی مقرر ہونی چاہیے، آج کل کے دور میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کے دو سو رشتہ دار بھی ہوں ، اگر زیادہ سے زیادہ مہمانوں کی حد مقرر ہو جائے توجو شخص ہزار دو ہزار مہمانوں کوبلانا چاہتا ہے وہ اسی حساب سے چار یا پانچ تقریبات کر لے۔
اہم بات یہ ہے کہ صرف احکامات جاری نہ کیے جائیں، ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنوایا جائے مگر ہم عوام ان ڈھیٹ بچوں کی طرح ہو چکے ہیں جن کے والدین انھیں بات بے بات سرزنش تو کرتے ہیں مگر ان کے سامنے چونکہ وہ خود عملی نمونہ پیش نہیں کرتے تو وہ بچے بھی ان کی ڈانٹ کو ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔
انھوں نے اپنی حیات طیبہ میں جو بھی کیا وہ وہی ہے جس کا درس ہمیں ہماری کتاب ہدایت یعنی قرآن کریم میں ملتا ہے، جہاں قرآن کو سمجھنا مشکل لگے وہاں سنت اور حدیث سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے، یعنی یہ عمل ہیں قرآن کا۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں سنت سے راہنمائی ملتی ہے اور اس پر عمل کرنے سے دوگنا ثواب بھی، ایک تو نیک کام کرنے کا اور اس پر یہ کہ وہ کام سنت کی تقلید میں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً مذہب کی ان ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے جو اپنے فائدے کے لیے ہوں اور بتا کر کیا جاتا ہے کہ دوسرا بیاہ میں سنت کی تقلید میں کر رہا ہوں کیونکہ ہمارے نبی پاک ﷺ نے اتنی شادیاں کیں ۔
چاہے تو شادیوں میں بے شمار غیر اسلامی رسومات ہو رہی ہوں ، جہیز لیا جا رہا ہو، ہندوؤں سے لی گئی ساری رسومات پر عمل ہو رہا ہو، نماز روزہ چاہے ٹوٹا پھوٹا ہو، روزہ نہ بھی رکھیں تو افطاری کی '' سنت '' ضرور پوری کرتے ہیں۔ایک طرف ہم یتیموں کا مال کھا کر ڈکار بھی نہیں لیتے اور دوسری طرف چولے پہن کر یتیموں کے حق میں تقریریں کر رہے ہوتے ہیں، دوسروں کو یتیم سے شفقت کا درس دیتے ہیں اور اپنے گھر پر چاہے کسی یتیم کا استحصال ہو رہا ہو۔
کسی ایک معاملے میں اصراف پر دوسروں کو لیکچر دیں اور جب اپنے گھر میں معاملہ آئے تو کہیں کہ دنیا داری ہے، کرنا پڑتا ہے، مجبوری سے کر رہا ہوں ، بیوی بچوں کے ہاتھوں مجبور ہو گیا ہوں ۔ اپنے گھر میں کوئی معاملہ ہو تو اس کے لیے رازداری برتی جائے اور دوسروں کے گھروں کے معاملات کی ٹوہ میں رہا جائے، اپنے لیے دوسروں سے توقع کی جائے کہ وہ ہمارا راز افشاء نہ کریں اور دوسروں کا ڈھول گلے میں پہن کر بجاتے پھریں ۔
بات ہو رہی تھی زندگی کے ہر معاملے میں سنت کی تقلید کی، ایک واقعے سے ہی اس کا اندازہ کریں۔ اگلے روز ایک شادی پر جانے کا اتفاق ہوا، مدعو کرنے والوں نے تقریب کی صبح پیغام بھیجا کہ امید ہے آپ اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عین چھ بجے فلاں ہال میں موجود ہوں گے تاکہ تقریب بر وقت انجام پا سکے، حکومت کی طرف سے مقرر کر گئی وقت کی حد کے باعث ایسا بے حد ضروری ہے۔
اسلام آباد سے کھاریاں تک کا سفر درپیش تھا مگر اس بات کو یقینی بنایا حسب سابق اور چھ بجے مقررہ جگہ جا پہنچے، وہاں ہو کا عالم تھا، کال کرکے معلوم کیا تو علم ہوا کہ ہمارے میزبان ابھی اپنے گھر پر تیار ہو رہے تھے، ہم ایک قریبی ہوٹل میں جا کر بیٹھ گئے اور اپنی جیب سے خرچہ کر کے سوپ نوش کیا۔ پورے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہمارے میزبانوں کی گاڑیاں نظر آئیں اور اس کے بعد آدھا گھنٹہ لگا کر وہ گاڑیوں سے نکل کر گروپ کی شکل میںایک فرلانگ کا فاصلہ طے کر کے ہال کے باہر پہنچے جہاں ان کا انتظار ہو رہا تھا۔
کوفت کی انتہا ہو گئی جب ساڑھے نو بجے مردوں کو کھانا دیا گیا، بھوک سے نڈھال بچے بلک بلک کراپنی بنی سنوری ماؤں کے چہروں پر بیزاری اور غصے کا لیپ کیے ہوئے تھے۔ ان کی ماؤں کو سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ وہ اپنا غصہ کس پر اور کس طرح نکالیں، مرد کھانا کھا کر ہضم کر چکے اور ہم عورتوں کو کھانے کی امید بھی ختم ہو گئی کیونکہ شنید ہے کہ دس بجے تک ہال کا وقت ہوتا ہے۔ دس بج کر گزرگئے اور اس کے پانچ منٹ کے بعد ٹھنڈا کھانا خواتین کے لیے کھول دیا گیا کیونکہ وہ گرم کھانا کھانے کی نہ گھروں میں مستحق ہوتی ہیں نہ تقریبات میں۔
بہت پہلے پڑھا ہوا یاد آتا رہا ، جو کہ میں اکثر اپنے خاندان میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ آنحضور ﷺ جب اپنے اہل خاندان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتے تو سب سے پہلے کھانا چھوٹے بچوں کو دیتے پھر گھر کی خواتین اور پھرخوداپنے لیے لیتے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت سنت ہے جس کے پیچھے کئی معانی چھپے ہیں، بچوں کے دل بے صبرے ہوتے ہیں، ان کی طبیعت میں جلد بازی اور انھیں پہلے کھانا اسی مقصد سے دیتے تھے کہ ان کا دل اتنی دیر تک للچاتا نہ رہے۔
خواتین کی عزت اور احترام جو صرف مغربی معاشرے کی روایات کا حصہ سمجھی جاتی ہے کہ وہاں ladies first کا اصول روا رکھا جاتا ہے، مگر اصل میں یہ خوبصورت سبق اور روایت ہمارے مذہب کی ہے۔ عورتیں دن بھر گھر کے کام کاج کی مشقت کرتی ہیں، سب کے لیے پکاتی ہیں مگر جب کھانے کی باری آتی ہے تو وہ انتظار کرتی ہیں کہ سب کھانا ڈال لیں اور جو بچ جائے وہ اسے ملے، بسا اوقات بلکہ عموما تو وہ اس بات کی مستحق بھی نہیں سمجھی جاتیں کہ وہ اسی دستر خوان پر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیں، کولہو کے بیل کی طرح جتی ہوئی ، دن بھر خدمت کے فرض پر مامور عورت جو بیٹی ہو، بہو، بہن، بھابی یا ماں ... دوسروں کے لیے اپنا آپ مار کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش میں سرگرداں مگر ناکام۔ حکومت کا احکامات جاری کرنے کا کیا فائدہ جب تک اس کی چیکنگ نہ کی جائے کہ آیا تقریبات بر وقت ختم ہو رہی ہیں کہ نہیں، ایک ڈش کے کھانے کے حکم کی پابندی ہو رہی ہے یا کہ گوشت کے سالن کے ساتھ چاولوں میں بوٹیاں اور مسالے ڈال کر بریانی بنا لینا... کیا یہ احکامات کی خلاف ورزی نہیں؟
کیا کوئی ایسا قانون بن سکتا ہے کہ شادیوں میں شادی ہال والے خواتین و حضرات کو ایک وقت پر کھانا دیں ؟ اگر ان کے پاس کھانا سرو کرنے والوں کا فقدان ہے تو پھر اپنی سروس اتنے ہی لوگوں تک محدود کر دیں جتنے لوگوں کو وہ یکمشت سرو کر سکتے ہیں، ہزار لوگوں کی گنجائش کا ہال، دو ہزار کی گنجائش کا ہال، یہ دعوے بے فائدہ ہیں اگر ان ہالوںمیں لوگ ایک دوسرے سے گھٹنے ٹکراتے ہوئے جڑ کر بیٹھے ہوں یا اتنے نفوس ہوں کہ سانس لینے میں دشواری ہو ۔
صرف یہ نہیں کہ تقریبات کے اختتام کے اوقات مقرر کر دیے جائیں اور ایک ڈش کے کھانے کی پابندی کا حکم جاری کیا جائے بلکہ شادی کی تقریبات کے زیادہ سے مہمانوں کی حد بھی مقرر ہونی چاہیے، آج کل کے دور میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کے دو سو رشتہ دار بھی ہوں ، اگر زیادہ سے زیادہ مہمانوں کی حد مقرر ہو جائے توجو شخص ہزار دو ہزار مہمانوں کوبلانا چاہتا ہے وہ اسی حساب سے چار یا پانچ تقریبات کر لے۔
اہم بات یہ ہے کہ صرف احکامات جاری نہ کیے جائیں، ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنوایا جائے مگر ہم عوام ان ڈھیٹ بچوں کی طرح ہو چکے ہیں جن کے والدین انھیں بات بے بات سرزنش تو کرتے ہیں مگر ان کے سامنے چونکہ وہ خود عملی نمونہ پیش نہیں کرتے تو وہ بچے بھی ان کی ڈانٹ کو ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔