میں تو پتلی گلی پکڑوں

یہاں جو سبق یاد کرے گا اسے ہی چھٹی نہیں ملے گی۔ اندھوں کی اس بستی میں جو آنکھیں رکھے گا


انیس منصوری November 08, 2015
[email protected]

یہاں جو سبق یاد کرے گا اسے ہی چھٹی نہیں ملے گی۔ اندھوں کی اس بستی میں جو آنکھیں رکھے گا وہ ہی گناہگار کہلائے گا۔ جنگل میں جو قانون کا علم اُٹھائے گا اُسی کا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا۔ جو بھیڑوں کے ریوڑ کو انسانیت کا درس دینے کی ہمت کریگا اُسی کا جسم چوراہے پر عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا ۔

جس کسی نے عقل و شعور کا چراغ جلایا اُسے ہی جہالت کے پتھروں میں چنوا دیا جاتا ہے ۔ جو کوئی بھی یہاں پر آئینہ لے کر نکلے گا ساری مٹی اُسی کے چہرے پر ڈال دی جائے گی ۔ جس کسی نے اس اندھیر نگری میں روشنی کا درس دیا اُسی کو تاریک کوٹھڑی میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ یہاں یہ روایت بنا دی گئی ہے کہ اگر کوئی پھولوں کی خوشبو لے کر نکلے تو اُس کے چمن کو آگ لگا دی جائے ۔ جس نے انصاف کا ترازو ہاتھ میں تھام لیا بس اُس گھڑی کا انتظار کیجیے کہ کب اُس کے ہاتھ جسم سے کاٹ دیے جائیں گے ۔

میں نہیں جانتا اُن صاحب کو جس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سڑکوں پر بغیر ہیلمیٹ کے اسکوٹر چلانے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ کیوں اُس کے فیصلے پر عمل نہیں ہو سکا ۔ چلو میں مان لیتا ہوں کہ پولیس والے رشوت لیتے ہیں ۔ ہم تو اُن لوگو ں میں شامل تھے جو آفس ، گھر ، محلے اور ہوٹل میں بیٹھ کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فخر سے کہہ رہے تھے کہ '' ارے کون لے گا ہیلمٹ '' ۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں نا جس نے پیچھے بیٹھے ہوئے شخص کو ہیلمیٹ پہنانے کی مخالفت کی ۔ اور پھر ہوا کیا ؟ کیا کراچی میں موٹر سائیکل والوں کے حادثے رک گئے ؟ جا کر سرکاری اسپتالوں میں دیکھ لیں روزانہ سیکڑوں حادثات ہوتے ہیں ۔

لیکن ہمیں اس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ ہم نے اُس شخص کی آواز کو دبا دیا جو یہ کہہ رہا تھا کہ ہیلمٹ پہننا ضروری ہے ۔ کیا کمال کا کام ہم نے کیا ہے ۔ اس پر ہمیں جتنی داد ملے وہ کم ہے ۔ اور پھر کبھی آپ نے سڑکوں پر دیکھا ہے کہ اکثر جو خواتین پیچھے بیٹھی ہوتی ہیں ان کا دوپٹہ یا پھر برقعہ پھنس جاتا ہے ۔ نہیں آپ نے وہ نہیں دیکھا ہو گا۔ آپ کو تو بس یہ یاد رہنا چاہیے کہ ہم کس طرح سے سڑکوں پر قانون کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

اس میں کون سی شرم کی بات ہے کہ اس ملک میں اکثر گاڑیوں کے اندر لگی ہوئی CNG کی کٹ یا تو دو نمبر ہے یا پھر اُس کی سروس ہی نہیں ہوئی ہے ۔ اور اس سے کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے ۔ میں اُس پاگل آدمی سے کبھی نہیں ملا جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ ایسی گاڑیوں پر پابندی ہونی چاہیے ۔اس کو کیا سوجھی تھی کہ وہ یہ حکم نامہ جاری کرے کہ جناب اسکول کے بچوں کی حفاظت کیجیے اور اُن گاڑیوں میں لگی CNG کٹ کو اچھی طرح سے چیک کیا جائے اور ان کی وین کا رنگ بھی مختلف ہونا چاہیے ۔ یہ تو ہماری عزت اور انا کی بات تھی ۔

کوئی اورنہیں اس فیصلے کے خلاف اسکول انتظامیہ کھڑی ہوگئی کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔ وین والوں نے اس فیصلے کی حمایت کی بجائے ہڑتال کر دی ۔ ہم جیسے ماں باپ نے ایک دن وین نا آنے پر شورر مچا دیا اور کہا کہ یہ کون بے وقوف پولیس والا آگیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کو ایک دن کی تکلیف ہوئی ۔ پھر ہم جیسے سمجھ دار لوگوں کے سامنے وہ بے وقوف آدمی بھیگی بلی بن گیا ۔ اور فوراً اُسے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا ۔ ہم پھر جیت گئے ۔

اور ایک پاگل پھر ہم سے ہار گیا ۔ ہم نے پھر جشن بنایا ۔مجھے اُس دیوانے شخص سے ملنے کا بہت شوق ہے ۔ جس کے سامنے سارے سمجھدار اور سیانے پتھر لیے ہوئے کھڑے رہتے ہیں ۔ مگر بدقسمتی کہیے کہ میں آج تک اُس سے مل نہیں سکا ۔ کیا برا ہے اگر ہمارے پاس لائسنس ہو ۔ اور اس بات کو چیک کیا جائے کہ ہمیں گاڑی یا اسکوٹر چلانا آتا ہے یا بھی نہیں ۔ کیا جس کی مرضی آئے جب چاہے وہ سڑک پر نکل آئے ۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ زیادہ تر اسکوٹر کے حادثات کم عمر بچوں کے ہوتے ہیں جنھیں ان کے ماں باپ چھوٹی عمر میں اسکوٹر یا گاڑی دے کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔

چلیے مان لیتے ہیںآپ کی بات اور اتنی جلدی سب لوگوں کے ڈرائیونگ لائسنس نہیں بن سکتے ۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے کہ ہم لائسنس نہ بنائیں ۔ میڈیا میں اور ہر جگہ اس بات کا شور مچ گیا کہ یہ تو ظلم ہے اور آخری دن سب جگہ یہ خبریں چلنے لگ گئیں ۔ لیکن کیوں ۔ کیا اس سے پہلے سارے عقل مند سو رہے تھے ۔ پولیس آخری تاریخ کا پہلے ہی بتا چکی تھی ۔

ہم سب نے فخر سے چلایا کہ سندھ حکومت نے نوٹس لے لیا ۔ اور کچھ لوگ تو اس بات پر خوش تھے کہ اعلی حکام نے اُس شخص کے کان کھینچنے کی کوشش کی ہے جنھوں نے لوگوں کو یہ کہا کہ برائے مہربانی حادثات سے بچنے کے لیے اپنا لائسنس بنا لیں ۔ اب تو ہم سب کو بیچ چوراہے میں کھڑے ہو کر ناچنا چاہیے کہ یہ فیصلہ بھی واپس ہو گیا ۔ اب آپ کسی کو بھی دس روپے دیں اور سڑک پر ناچتے رہیں ۔ اُس پاگل کا جنون ختم کر دیں جو اس جنگل میں قانون چاہتا ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اب تک پولیس کا محکمہ اُس دیوانے کو برداشت کیوں کرتا ہے ۔

دنیا بھر کی مثالیں دینے والے ہمیشہ یہ رونا روتے ہیں کہ دنیا بھر میں قانون پر عمل ہوتا ہے ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ لیکن جب کوئی انھیں یہاں پر قانون کے دائرے میں لانا چاہے تو یہ سب مل کر وہ دھمال ڈالتے ہیں کہ کوئی ان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا ۔ مگر میرا یہ فرض ہے کہ میں اُس دیوانے کے ساتھ کھڑا رہوں جو ہماری جان اور بچوں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھا رہا ہے ۔ میںایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ میں اُس پولیس آفیسر کو نہیں جانتا لیکن اس بات کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں کہ '' یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے اس بات پر غور کرو کہ کیا کہہ رہا ہے '' ۔

ایسا ہی ایک اور دیوانہ ٹھٹھہ میں بھی ہے ۔ جہاں کینجھر جھیل اور ساحلی پٹی ہے ۔کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو۔۔۔۔ یہاں اکثر تفریح کے لیے آئے ہوئے لوگ ڈوب جاتے ہیں ۔ سیلاب یا طوفان کی وجہ سے پانی میں لوگ گھر جاتے ہیں مگر صدقے جائیے اس ریاست کے کہ یہاں اس ڈسٹرکٹ میں آج تک ریسکیو کا نظام نہیں بن سکا ہے ۔ اللہ اللہ کر کے یہاں کے ڈسٹرکٹ آفیسر نے غیر سرکاری تنظیم ریسکیو 555 کی مدد لی اور سیکڑوں لوگوں کو بچایا ۔ کئی ڈوبے ہوئے لوگوں کی لاشیں نکالی ۔ اور پھر بڑی محنت کے بعد اس سال جون میں ایک ویڈیو کانفرنس کر کے ریونیو والوں سے کہا کہ یہاں چھوٹی سی مستقل ریسکیو ٹیم بنائی جائے ۔ مگر آج تک یہ فائل گھوم رہی ہے ۔ جس میں کسی کا نہیں بلکہ ہم سب لوگوں کا فائدہ ہے ۔

وہ سر پھرے ، پاگل ، دیوانے جو کسی بھی سطح پر کچھ نا کچھ کرنا چاہتے ہیں اُن کا ساتھ دیجیے ۔ اُن کی ہار پر رقص مت کیجیے ۔ یہ چند لوگ ہی ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کا کچھ نہ کچھ نظام چل رہا ہے ۔

یہاں اگر قانون کی حکمرانی ہو گئی تو اس کا فائدہ مجھ سے زیادہ آپ کو ہو گا۔ تھوڑی دیر کی تکلیف کو برداشت کر لیجیے ۔ ہیلمٹ پہننے میں آپ کا فائدہ ہے ، CNG کٹ کی بہتری میں آپ کی زندگی ہے ۔ آپ کے بچوں کی وین آپ کے مستقبل کی حفاظت ہے ۔ چھوٹی سی ریسکیو ٹیم آپ خود بن جائیں ۔ ہمارے بہت سے مسئلے حل ہو جائینگے ۔ لیکن آپ تو مجھ سے زیادہ سمجھ دار ہیں ۔معاف کرنا ، میں جاہل کہاں عقل مندوں کے یہاں لیکچر دینے آ گیا ۔ میں تو کوئی پتلی گلی پکڑوں ۔ کہیں کوئی پتھر نہ آجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |