شاہدرہ کی تاریخی عمارتیں

جہانگیر‘ نورجہاں اور آصف جاہ کے مقابر پر مشتمل پورے علاقے کو باہم منسلک کرکے اِن کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے


November 08, 2015
جہانگیر‘ نورجہاں اور آصف جاہ کے مقابر پر مشتمل پورے علاقے کو باہم منسلک کرکے اِن کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ فوٹو : فائل

ہندوستان کے افق پر اُبھرنے والا ایک عظیم افسانوی و رومانوی کردار، سلطنت مغلیہ کا تاجدار، اکبر کا ولی عہد نور الدین جہانگیر، پیدا ہوئے تو اُس دور کے ولی حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی نسبت سے شہزادہ محمد سلیم کہلائے۔

شیخ سلیمؒ اور محمد سلیم، ان دونوں شخصیات کی نسبت سے ہندوستان کی سر زمین پر دو نئے شہر بسائے گئے۔ حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی عقیدت میں اکبر نے فتح پور سیکری کے نام سے شہر آباد کیا جو شیخ سلیمؒ کی رہائش سے کچھ فاصلے پر تھا۔ دوسرا شہر لاہور کے قریب شیخوپورہ کے نام سے آباد کیا گیا جو کہ شہزادہ سلیم کے نام کی نسبت سے تھا۔ اکبر سلیم کو پیار سے شیخو کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

شیخوپورہ نام کا ایک ضلع ہندوستان کے صوبہ بہار میں بھی ہے لیکن اس کا مغل دیت سے کوئی تعلق نہیں۔ شہزادہ سلیم کا جنم مہارانی جودھا بائی کے بطن سے 17 ربیع الاول 977ھ بمطابق 13اگست 1569ء ہے۔ تاریخ پیدائش کی شہادت تزک جہانگیری اور شاہ جہاں نامہ دونوں میں ملتی ہے۔

شہزادہ سلیم نے اکبر کی وفات کے بعد تخت سلطنت سنبھالا تو خلیفہ الٰہی کا خطاب ملا اور جہانگیر کا لقب اختیار کیا۔ یوں مکمل شاہی نام اس طرح ملتا ہے، جنت مکانی نور الدین محمد جہانگیر ولد عرش آشیانی جلال الدین محمد اکبر شاہ غازی۔ تزک جہانگیری میں جہانگیر نے اپنا نام بمعہ شجرہ اس طرح بیان کیا ہے، ابو المظفر نور الدین محمد جہانگیر بن جلال الدین محمد اکبر بن نصیر الدیں ہمایوں بن ظہیر الدین بابر عمر شیخ بن ابوسعید بن سلطان محمد بن میرا شاہ بن قطب الدین صاحب قرآن امیر تیمور گورکان، اس کے ساتھ ساتھ بطور مصنف تزک جہانگیری ''نور الدین جہانگیر'' کا نام دکھائی دیتا ہے۔

شہزادہ سلیم کی پہلی شادی راجہ بھگوان داس کی بیٹی سے ہوئی جو کہ جودھا بائی کے رشتے داروں میں سے تھی ۔ دوسری شادی راجہ اودھے سنگھ کی بیٹی سے ہوئی اسی ملکہ کے بطن سے ولی عہد شہزادہ خرم نے لاہور میں جنم لیا۔ بادشاہ بننے کے بعد انہوں نے اپنی بچپن کی محبت مہر النساء (نور جہاں) سے جس طرح شادی کی اور اپنی جوانی میں خود اکبر کے خلاف بغاوت کرنے والے جہانگیر کے اپنے بیٹے خسرو نے جب ان کے خلاف بغاوت کی تو راوی اور شاہدرہ کے ساتھ ساتھ سڑک پر سات سو پھانسیاں اور گرو ارجن دیو کے ساتھ ہوا سلوک مؤرخین کے لئے اک لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ مؤرخین کی تحریروں میں یہ امر نمایاں ہے کہ جہانگیر کے عہد میں انصاف مذہبی اور لسانی تعصبات کے بغیر تھا۔

جہانگیر نے مغل سلطنت کے بانی بابر کے اس قول''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'' کو تمام عمر خوب نبھایا اور آخری ایام تک جام ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹ سکا۔ مئے نوشی اور انگلستانی شراب انگریز وں کی دربار تک باآسانی رسائی کا باعث تھی۔ ان کے اس شوق کے باعث کئی انگریز مؤرخین نے یہ تک کہہ دیا کہ جہانگیر عیسائی ہونا چاہتے تھے۔ جہانگیر تیموری بادشاہوں کی طرح ہاتھی کی سواری کو پسند کرتے تھے۔ رہائش کے لئے موسم گرما میں کشمیر اور موسم سرما میں لاہور پسندیدہ تھے۔ انہوںنے اپنے آخری ایام کشمیر ہی میں گزارے اور کشمیر سے لاہور واپسی کے دوران سفر میں انتقال ہوا۔ انتقال کی اس روداد کو ملا محمد صالح کمبوہ نے شاہ جہاں نامہ میں یوں تحریر کیا۔

''1036ھ بمطابق 1628ء کشمیر کی سیر کر رہے تھے کہ سات سال پرانے دمے کا مرض شدت اختیار کرگیا اور روز بروز بڑھتا گیا۔ زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور لاہور کی طرف روانگی کا حکم دیا۔ راجوری کے مقام پر تھے کہ مرض بہت بڑھ گیا اور چنگ ترھی میں پڑاؤ کے دوران سانس کی تنگی سے حالت غیر ہوگئی۔ 28 صفر 1037ھ بمطابق 8 نومبر1628ء کو اتوار کے دن بارہ گھڑی گزرنے پر انتقال فرمایا۔''

احوال عمارت مقبرہ:

شاہدرہ کی سرزمین کی ایک خاص اہمیت یہ بھی رہی کہ لاہور اور شاہدرہ کے درمیان سے دریائے راوی گزرتا ہے۔ دریا کے ساتھ ہی عہد اکبری کے ایک امیر، مہدی قاسم خان کا باغ تھا جو نور جہاں نے جہانگیر کی زندگی میں ہی خرید لیا تھا اور اس کا نام دلکشا باغ رکھ دیا تھا۔ جہانگیر کو وفات کے بعد اسی باغ میں دفنا یا گیا۔ مقبرے کی تعمیر کا کچھ احوال شاہ جہاں نامہ میں اس طرح تحریر ہے۔

''وفات کے وقت ان کی عمر قمری حساب سے 59 سال 11 ماہ '11روز تھی اور شمسی حساب سے 58 سال ' 1 ماہ اور 28 روز تھی۔ نعش لاہور لائی گئی اور دریائے راوی کے پار ایک بہشت منظر مقام پر دفن ہوئے۔ کھلے آسمان تلے قبر بنائی گئی۔ شاہ جہاں نے حسب وصیت سوگز لمبا سوگز چوڑا احاطہ سرخ پتھر سے ترتیب دے کر اس پر بیس گز مربع چبوترہ سنگ مرمر بنوایا جس پر چین کاری کا نہایت نازک کام تھا۔ اس کے عین وسط میں مزار بنا، یہ مقبرہ دس سال میں دس لاکھ روپے کی لاگت سے تیار ہوا۔''

شاہ جہاں نے ہندوستان کا تخت سنبھالا تو باپ کے مقبرے کی تعمیر خود اپنی نگرانی میں شروع کی۔ مقبرے کے مصارف کو پورا کرنے کے لئے بہت ساری جاگیریں وقف کر دی گئیں۔ اس کی تعمیر میں سنگ سرخ، سنگ مرمر، سنگ موسیٰ اور دیگر قیمتی پتھروں کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ تیموری خاندان کی روایات کے مطابق اصل قبر تہہ خانے میں بنائی گئی۔ جب کہ فرش پر قبر کا قیمتی تعویذ تیار کیا گیا۔

پیر والی سیدھ میں مرقد منور اعلیٰ حضرت غفران پناہ، نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ غازی 1037عیسوی کاشی میں مزین ہے۔

مقبرہ کی خوبصورتی کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے یوں تحریر کیا ہے۔

''اس عمارت کی خوبی و خوش اسلوبی و استحکام دیکھ کر معمار خود حیران ہے۔ سنہ 1037ہجری میں یہ مکان بہ حکم شاہ جہاں بادشاہ تعمیر ہوا اور لاکھوں روپے کا سامان ، جھاڑ، فانوس، قندیل، فروش شامیانہ، خیمہ وغیرہ شاہانہ مراتب کی مقدار پر یہاں رکھا گیا۔''

''اس مقبرے کے چھ درجے ہیں جس درجے میں بادشاہ کا مزار ہے وہ درجہ ہشت پہلو اندر سے گنبد نما ہے۔ عمارت سنگ مرمر کی، میانے میں ایک چبوترہ سنگ مرمر کا طول میں 13فٹ، عرض میں 9فٹ، ڈیڑھ فٹ ارتفاع کا نہایت مصفا و مقطع بنا ہے۔

اس کے میانے میں قبر کا تعویز ایک ٹکڑے سنگ مرمر کا، اڑھائی فٹ بلند، طول پونے دو درعہ ، عرض میں دس گرہ، نہایت خوش نما بنا ہوا ہے۔ چبوترے اور قبر پر گل کاری سنگ عقیق و لاجورد سلیمانی و نیلم و زہر مہرہ و مرجان و ابری وغیرہ قیمتی پتھروں سے کی ہے۔اس عظیم الشان مقبرے کی شان عہد اورنگ زیب تک قائم و دائم رہی۔ اس کے بعد جوں جوں مغل سرکار زوال پذیر ہوئی یہ عظیم الشان مقبرہ بھی حوادث کا شکار رہا۔ سکھ عہد میں اس مقبرے کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کا احوال کنہیا لال ہندی کی اس تحریر میںدکھائی دیتا ہے جو ان کی کتاب ''تاریخ لاہور'' (ص331) پر رقم ہے۔

''جب بادشاہ گردی، ہوئی سکھا شاہی زمانہ آیا تو مہاراجہ اس کی عمارت کی طرف بھی متوجہ ہوا اور حکم دیا کہ مقبرے کی منڈیروں پر جو ستون شمع جلانے کے اور جالیاں سنگ مرمر کی ہیں وہ اکھاڑ کر امرتسر لے جائیں اور سری دربار کے بل وغیرہ پرلگائی جائیں۔ چنانچہ فی الفور حکم کی تعمیل ہوئی اور بے شمار پتھر اس مقبرے سے اکھڑوا کر امر تسر بھیجا گیا اور اس کی جگہ پر چونے کی عمارت کر دی گئی۔ من بعد ارجن سنگھ پسر سردار ہری سنگھ نلوا اس مقبرے میں فروکش رہا۔

اس نے بھی پتھروں کے اکھڑوانے میں بہت توجہ کی اور میناروں کے ذہنوں سے بہت سی جالیاں سنگ مرمر کی اور پتھر اکھڑوا لئے۔ من بعد سردار سلطان محمد خان برادر سردار دوست محمد خان امیر کابل اپنے بھائی سے ناراض ہو کر لاہور آیا اور قصبہ شاہدرہ، مہاراجہ نے اس کی جاگیر میں دیا تو وہ اس مقبرے میں چند سال سکونت پذیر رہا۔ اس کے لشکر کے وحشی افغانوں نے اس مقبرے کا سخت نقصان کیا اور بے شمار نگینے اندر کی دیواروں سے نکلوا لئے، بہت سے پتھر توڑ ڈالے، باغیچے کو ویران کر دیا۔ اخیر سلطنت سکھی تک اس مقبرہ کو صدمے پر صدمہ پہنچتا رہا اور نقصان ہوتا رہا۔ لاکھوں روپے کی جالیاں اور سلیں سنگ مرمر کی اور سنگ سرخ کی اُتر گئیں۔

اسی دوران یہ مقبرہ فرانسیسی آفیسر ایم لیمس کی رہائش بنا، کئی مرتبہ مقبرے کی عمارت کو آگ بھی لگی۔ مقبرہ کی مشرقی سیدھ میں ایک عظیم الشان بارہ دری بھی موجود تھی جو سیلاب کے پانی کے باعث دریا برد ہو گئی۔ مقبرے کی ابتدائی تعمیر میں 12حوض تعمیر کے لئے گئے تھے ان میں سے ایک حوض بھی دریا برد ہوگیا۔

انگریز سرکار کے ابتدائی ایام میں بھی اس مقبرے کے ساتھ کچھ خاص اچھی نہ ہوئی۔ مقبرے کی عمارت کے ساتھ متصل سرائے اکبری میں کمروں کی موجودگی کے باعث مقبرہ جہانگیر کو لاہور ریلوے سٹیشن میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ لیکن شاید کاتب تقدیر کو کچھ ایسا منظور نہ تھا۔ سرکار کوا پنی عظیم ا لشان سلطنت کی دکھلائی کے لئے مقبرے کی عمارت کو ریلوے اسٹیشن میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بدلنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ 12500 روپے اس کی مرمت پر بھی مختص کئے گئے لیکن مقبرے کی عمارت کے ساتھ متصل نور جہاں کے مقبرے کی عمارت کو الگ کر دیا گیا اور ان کے درمیان سے ریلوے لائن گزارنے کا فیصلہ تبدیل نہ کیاگیا۔

یوں مقبرہ جہانگیر ، سرائے، مسجد شاہ جہاں اور مقبرہ آصف جاہ کی عمارات ایک ساتھ رہیں۔ ان کا احاطہ 96 ایکڑ پر تھا اور دوسری جانب مقبرہ نور جہاں کی عمارت 16ایکڑ پر الگ سے رہ گئی۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ یہاں پر آبادی نے قدم جمانے شروع کئے اور الگ سے سڑکیں بھی بنتی گئیں۔ اس سے ان عظیم الشان عمارات اور خصوصا مقبرہ نور جہاں کے ساتھ بربادیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مقبرے کی ابتدائی تعمیر میں موجودہ کنوئیں جو کبھی اندرونی حصے میں تھے وہ بیرونی حصے میں آ گئے۔

تقسیم کے بعد بننے والے پل سے آگے بڑھیں تو بائیں جانب جہانگیر ٹاؤن کی آبادی ہے۔ یہ آبادی مقبرے کے گردا گرد ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک اس آبادی میں کئی پرانے مکانات اور حویلیاں دیکھی جا سکتی تھیں جو کہ اب ناپید ہیں۔ 1980ء کی دہائی تک شاہدرہ کے علاقے تک رسائی کے لئے صرف اور صرف تانگے یا ذاتی سواری کی سہولت میسر تھی۔ لیکن تانگے اب تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں اوراس کی جگہ پر دھواں دار پبلک ٹرانسپورٹ نے لے لی ہے۔

شاہدرہ کے رہائشی اس کو جہانگیر کے قلعے کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ اگرچہ اردگرد کابہت سا علاقہ رہائشی اور تجارتی بن چکا ہے' لیکن پھر بھی جوں جوں آگے بڑھا جائے تو یہ گمان پیدا ہوتا ہے جیسے انسان مغل دور میں داخل ہورہا ہے۔ مقبرے کا اپنا اصل داخلی دروازہ جو کہ جنوب سیدھ میں تھا بند کر دیا گیا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ یہ دروازہ حوادث وقت کے باعث اجڑ کر رہ گیا ہے۔ اس دروازے کے قریب آج بھی کہیں کہیں سنگ مرمر کا نفیس کام دکھائی دیتا ہے۔ جہانگیر کا مقبرہ سرائے شاہ جہانی ( سرائے اکبری) ' مسجد شاہ جہانی اور آصف جاہ کے مقبرے میں داخلے کے لئے ایک ہی دروازہ مختص کر دیا گیا ہے جو کہ سرائے کا دروازہ ہے۔ اسی دروازے میں ٹکٹ گھر بھی بنا دیا گیا ہے۔

داخلی دروازے کے سامنے کی سیدھ میں سرائے، بائیں جانب مسجد شاہ جہانی اور اس سے آگے آصف جاہ کا مقبرہ ہے جبکہ دائیں جانب جہانگیر کا مقبرہ ہے۔ سرائے سے دائیں جانب مقبرے کا ایک اپنا الگ سے داخلی دروازہ ہے۔ یہ تمام عمارت سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہے۔ اس کی چھت پر چار چھوٹے چھوٹے خوبصورت مینار دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس دروازے سے گزر کر جب مڑ کر اس کے پچھلے حصے کو دیکھا جائے تو وہ صدیوں کی تاریخ عبرتناک کہانی کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس سے آگے کی جانب مقبرے کی شرقی سیدھ کی جانب دو رویہ راستہ ہے۔

اس کے درمیان فوارے نصب کئے گئے ہیں اور سرو کے درخت بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مقبرے کے چاروں جانب قدیم حوض بھی ہیں جو اکثر اوقات خشک رہتے ہیں لیکن جب کوئی بیرون ملک سے وفد آئے تو ان کو چالو بھی کر دیا جاتا ہے۔ مقبرے، چبوترے تک رسائی کے لئے چاروں جانب چار چار زمینوں کی سیڑھیاں بھی ہیں۔ مقبرے میں مزار تک رسائی کے لئے چاروں جانب سے در اور دالان ملتے ہیں۔

ان چوبی محرابی دروازوں پر نہایت نفیس کام آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن عوام کے لئے مغربی سیدھ ہی کا دروازہ کُھلا رکھا جاتا ہے۔ چبوترے کے چاروں جانب محرابی طرز کی روشیں ملتی ہیں جن میں کمرے بھی تعمیر کئے گئے تھے۔ جو آنے والوں کے لئے مختص تھے۔ ان کمروں میں آج بھی پرانا کاشی کا کام دیکھا جا سکتا ہے۔ مزار میں داخل ہوتے ہی داخلی کمرے کے فرش پر سنگ مرمر کا انتہائی نفیس کام دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے آگے عین وسط کمرے میں قبر کا تعویز ہے۔ اس تعویز کو دیکھتے ہی بندے کو پہلا احساس یہی ہوتا ہے کہ شاید پورے ہندوستان کے شہنشاہ کا مزار اس طرح ہی کا ہونا چاہئے تھا۔ تعویز کے اوپری حصے پرقرآنی آیات کندہ ہیں۔

تعویز کے نچلے حصے میں چاروں جانب کاشی کے انتہائی اعلیٰ درجے کے کام میں پھول بوٹیوں کے ساتھ ساتھ اسمائے ربی بھی کندہ ہیں۔مقبرے کی چھت پر چاروں کونوں پر خوبصورت مینار ہیں۔ انہی میناروں کی طرز پر تاج محل کے مینار بھی تعمیر کئے گئے تھے۔ مقبرے کی چھت ہی سے میناروں کے اوپر تک جانے کے لئے گردشی سیڑھیاں ہیں۔ یہ سیڑھیاں تعداد میں 61 ہیں اور چاروں میناروں کی یہی تعداد ہے۔

ان میناروں پر چڑھ کر آپ پورے لاہور کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ ادھر سے آپ اس قدیم دریائے راوی کا بھی دُکھ بھرا منظر دیکھ سکتے ہیں، وہ دریا جہاں پر کبھی مال برادر چھوٹے بحری جہاز چلا کرتے تھے اب ایک گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ان میناروں کی تعمیر کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ آپ اس کے کسی بھی مینار پر چڑھ کر بادشاہی مسجد کی جانب دیکھیں تو آپ کو تین مینار دکھائی دیں گے اور اسی طرح اگر بادشاہی مسجد کے کسی بھی مینار پر چڑھ کر مقبرہ جہانگیر کے مینار دیکھیں تو وہ بھی آپ کو تین ہی دکھائی دیں گے چوتھا مینار دکھائی نہیں دے گا۔

طرز تعمیر کے یہ بھید آج بھی بھید ہی ہیں۔ ان میناروں سے مقبرہ جہانگیر کی عظیم الشان چار دیواری کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو کسی قلعے کی دیواروں کی مانند دکھا ئی دیتی ہے۔ اس چار دیواری کے اوپر سے وہ قدیم آبی راستے بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن پر مقبرے میں موجود نو کنوؤں سے پانی بھیجا جاتا تھا جس سے مقبرے سے ملحقہ دوسری پانچ عمارتوں کے فواروں اور باغات کو سیراب کیاجاتا تھا۔ عین ممکن ہے کہ ان عمارات کی بنیادی تعمیر میں کنوؤں کی یہ تعداد زیادہ ہو ۔ مقبرے کی چھت پر عوام کو رسائی کی اجازت نہیں۔ چھت اور میناروں پر خاص لوگوں کو ہی جانے کی اجازت ہے۔ جہانگیر کے مزار کی اصلی قبر تک پہنچنے کا راستہ اور تہہ خانہ انگریز سرکار کے عہد ہی میں بند کر دیا گیا تھا۔

مقبرہ جہانگیر انگریز سرکار اور تقسیم کے بعد بھی بین الاقوامی ورثے میں شامل رہا۔ ثقافتی طور پر یہاں پر کئی موسموں کے میلے بھی لگتے تھے۔ اس لئے آج بھی لوگوں کی کثیر تعداد مقبرے کی سیر کو آتی ہے۔1990ء کی دہائی تک لوگ انتہائی اہتمام کے ساتھ یہاں آتے تھے۔ خصوصاً ساون کے مہینے میں درختوں پر جھولے ڈالے جاتے ، آم ٹھنڈے کر کے لائے جاتے لوگ اپنے گھروں سے آلو، بیسن اور قیمے والی روٹیاں تیار کر کے لاتے، مشروب میں کچی لسی کا استعمال بہت ہوتا تھا۔

اب ان کی جگہ دور جدید کے کھانوں نے لے لی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مقبرے کو اچھی خاصی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ مقبرے کی حالت لاہور کی دیگر قدیم عمارات کی نسبت کافی بہتر ہے۔ اس کو بہتر حالت میں رکھنے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بیرون ممالک سے آئے حکمران اور خاص طور پر عرب شہزادوں کو شاہی قلعہ اور شالا مار باغ کے ساتھ ساتھ یہ مقبرہ بھی خاصا من بھاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مقبرے کے ساتھ ہی آصف جاہ اور نور جہاں کے مقبرے کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔

مقبرے کی سیر کو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سکولوں کے طالب علموں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی آتی ہے مقبرے کی سیر کو تقریباً روزانہ ہی کسی نہ کسی سکول کی بس پاکستان کے دیگر حصوں سے بھی آئی دکھائی دیتی ہے۔ ان طالب علموں کے لئے معلومات کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے جو کہ وہاں پر نصب معلوماتی تختیاں ہیں۔

طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ بھی تاریخ سے نابلد ہیں وہ یہاں آتے ہیں کھیلتے کودتے اور کھا پی کر گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔ مقبرے اور اس سے ملحقہ عمارتوں کی بہت سی جگہوں پر مرمت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سرکار جو سارے زمانے میں پُل اور انڈر پاس تعمیر کرنے میں مصروف ہے، اگر وہ ان تمام عمارتوں کو مقبرہ نور جہاں کے ساتھ کسی اوور ہیڈ برج کے ذریعے ملا دے تو ان عمارتوں کی عظمت رفتہ کسی حد تک بحال ہو سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں