من کی آنکھیں ہزار ہوتی ہیں نابینا موسیقاراور گیت کار رویندر جین کی جیون کہانی
رویندر جین نے بطور شاعر بھی کمال کے گیت لکھے اور اُن کا شعری مجموعہ ’’اجالوں کا سلسلہ‘‘ کتابی شکل میں سامنے آیا
جس شخص کے نام کے ساتھ ''جین'' کا لاحقہ لگا ہو وہ تاجر بھی ہوسکتا ہے اورعلم و ادب کے ساتھ فنون لطیفہ کے آسمان کا ستارہ بھی۔بھارت کے قدیم مذہب جین سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ تجارت سے وابستہ ہیں، مگر نایاب کتابوں کے نسخے سنبھالنے، انہیں دوبارہ چھپوانے اور لوگوں تک پہنچانے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔
ایسے ہی جینیوں میں ایک نام اُس چھوٹے سے بچے رویندر جین کا بھی شامل کیا جا سکتا ہے، جس نے آنکھیں کھولیں تو اُسے سوائے اندھیروں کے اور کچھ دکھائی نہ دیا۔ اس کے باوجود جس مہارت سے اندھیروں میں بکھرے خزانوں تک رویندر جین پہنچے شاید وہ لوگ بھی نہ پہنچ پائیں، جو اپنی ساری زندگی مال و دولت کے خزانوں پر بیٹھ کر گزار دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجانے والے یہ منفرد موسیقار اپنی بنائی ہوئی دُھنوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
رویندر جین کی پیدائش 28فروری 1944کو علی گڑھ، اترپردیش کے ایک گاؤں میں ہوئی تو اُن کی ماں کرن دیوی اور والد اندر منی گیان جو آریو ویدک کے جانے مانے وید تھے، بہت خوش ہوئے کہ ان کے ہاں ایک اور بیٹے نے جنم لیا، مگر جب اُس کی بند آنکھوں کو دیکھا تو پورا کنبہ پریشان ہو گیا۔ پنڈت اندر منی گیان فوراً اپنے ایک دوست ڈاکٹر موہن لال کے پاس پہنچے۔ جنھوں نے سرجری کے ذریعے رویندر جین کی آنکھیں کھول دیں، مگر اُن آنکھوں میں دبی روشنی کو نہ ڈھونڈ سکے۔
اُن کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر اپنے دل اور دماغ میں چھپی روشنی سے سے ایک دنیا کو منور کرنے والا ہے۔ ڈاکٹر موہن لال نے اس بچے کے والدین کو یہ مشورہ ضرور دیا کہ اس سے کوئی ایسا کام مت کروانا جس سے آنکھوں پر زور پڑے۔ والدین نے ڈاکٹر کی نصیحت کو ذہن میں رکھا اور بیٹے کے اس مشغلے کے کبھی آڑے نہ آئے جو اُس نے اسکول کے دنوں میں اپنایا، یعنی گیت بھجن گانے اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا۔ سات بھائیوں اور ایک بہن میں وہ چوتھے نمبر پر تھے۔
ہوش سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے فرانسیسی، ہندی اور دوسری زبانوں کی کہانیاں اور مضمون سننے کا شغل اپنایا۔ وہ جو چیز ایک دفعہ سنتے اُسے ہمیشہ کے لیے یاد کر لیتے تھے۔ روزانہ مندر میں جاکر ایک بھجن گاتے اور واپس آکر انہیں اپنے والد صاحب سے ایک روپیہ ملتا، مگر اس دوران وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ شرارتیں بھی خوب کیا کرتے۔
جین مذہب میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ سورج غروب ہونے سے قبل ہی کھانا کھالیا جائے، مگر رویندر جین اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے کے بعد جب رات گئے گھر واپس آتے تو انہیں اپنے والد صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسے میں ان کی ماں بیچ بچاؤ کراتے ہوئے انہیں گھر کے اندر لے جاتیں اور اُن کے پلنگ کے نیچے پہلے سے ہی کھانا چھپا کر رکھ دیتیں، تاکہ بچہ بھوکا نہ رہے۔ ان کا یہ بھی معمول تھا کہ اپنے ہم جماعت دوستوں کے ساتھ ایک منڈلی بناکر علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن کے آس پاس گھومتے اور گاتے تھے۔
اُن کے ہاتھوں میں پیتل کی ایک گڑوی ہوتی جسے وہ بجاتے اور گاتے ہوئے ساری منڈلی اسٹیشن کے آس پاس گھومتی رہتی۔ ایک دن ایک دوست نے گڑوی کو سیدھا کر دیا۔ لوگ یہ سمجھے کہ مانگ رہے ہیں۔ ایک شخص نے اُس میں سکہ ڈال دیا جسے دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی یہی کچھ کیا، جس سے وہ برتن سکوں سے بھر گیا۔ گھر آکر انھوں نے وہ پیسے ماں کے پیروں میں ڈھیر کر دیے۔ اُن کے والد یہ دیکھ کر لال پیلے ہو گئے اور کہا کہ فوراً جاکر اُن لوگوں کو پیسے واپس کرو جنہوں نے دیے ہیں، مگر وہ اُن سب کو کہاں ڈھونڈتے، لہٰذا سب دوستوں نے دکان پر جاکر چاٹ کھالی۔
رویندرجین صرف پانچویں درجے تک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کر سکے، مگر موسیقی کے اہم اساتذہ پنڈت جی ایل جین، پنڈت جناردھن شرما اور پنڈت نتھو رام سے بہت کچھ سیکھا اور علی گڑھ کی تہذیب و ثقافت سے بھی خوب فائدہ اٹھایا، جہاں اردو اور ہندی کے ادیبوں کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے تایا کے بیٹے نے انھیں مشورہ دیا کہ کہ وہ کول کتہ چلے جائیں جہاں فلم اور موسیقی کی دنیا زیادہ وسیع تھی۔ والد نے انہیں جیب خرچ کے لیے 75روپے دیے اور ماں نے پوٹلی میں کپڑوں کے ساتھ دال چاول باندھ دیے۔ رویندر جین کول کتہ پہنچ گئے اور ایک بنگالی فیملی کے ساتھ رہنے لگے۔
ہندی فلم کے پروڈیوسر رادھے شیام جُھن جُھن والا کی کوشش سے انہیں میوزک سکھانے کی ایک ٹیوشن مل گئی، جس کا معاوضہ روزانہ چنے کی دال کے ساتھ ایک سموسہ اور چالیس روپے مہینہ طے پایا ۔ کول کتہ میں ہی اُن کا تعارف ہیم لتا سے ہوا اور وہ بنگالی کے ساتھ دوسری زبانوں کے گیتوں کی دھنیں بھی ترتیب دینے لگے۔ ہیم لتا کی قربت کے بعد انہیں گراموفون ریکارڈنگ کمپنیوں سے کام ملنے لگا اور عوامی محفلوں میں جاکر گانے کے بھی 151 روپے لینے لگے۔ یہیں اُن کی ملاقات معروف اداکار سنجیو کمار سے ہوئی، جس کے کچھ عرصے بعد وہ کول کتہ چھوڑ کر ممبئی آگئے۔
1968میں جب وہ رادھے شیام جُھن جُھن والا کے ساتھ ممبئی آئے تو ان کی پہلی ملاقات مکیش سے ہوئی اور رام رکھ منوہر نے کچھ محفلوں میں گانے کا موقع فراہم کیا۔ اسی دوران سنجیو کمار نے انہیں معروف فلم ساز اور پروڈیوسر این این سپی سے ملوایا، جہاں رویندر جین نے اپنے خزانے میں رکھی کئی انمول دھنیں سنائیں۔ اس محفل میں فریدہ جلال اور شترو گھن سنہا بھی موجود تھے۔ ممبئی میں اُن کا پہلا گانا محمد رفیع کی آ واز میں 1972میں ریکارڈ ہوا۔
انڈین فلم انڈسٹری اور موسیقی کے شائقین کے لیے یہ انتہائی اچھنبے کی بات تھی کہ ایسا شخص جو نابینا تھا نہ صرف موسیقی میں اچھا گیان رکھتا ہے، بل کہ دل کو چھو لینے والے گیت بھی تخلیق کر تا ہے۔
اس سے قبل انڈین فلم کی تاریخ میں معروف گلو کار مناڈے کے تایا کے ۔ سی۔ ڈے ہی ایسے نابینا موسیقار تھے جنہوں نے فلمی دنیا کو مدھرگیتوں سے نوازا تھا، مگر وہ بہت ساری فلموں میں تیس سال تک کام کرنے اور موسیقی کی دھنیں بنانے کے بعد نابینا ہوئے تھے۔ رویندر جین کی شاعری اور موسیقی کے کمالات بھی آہستہ آہستہ سامنے آتے گئے اور لوگوں کو یہ پتا چلتا گیا کہ جس شخص کی دو آنکھیں نہیں ہیں وہ آنکھیں رکھنے والے کتنے ہی لوگوں سے مختلف سوچ کا حامل ہے۔
80کی دہائی میں رویندر جین نے نہ صرف کئی فلموں کے لیے لاجواب گیت لکھے اور اُن کی دھنیں بھی بنائیں بل کہ اپنی معذوری کے باوجود دوسروں کے لیے مثال بنے۔ انھوں نے اپنے نابینا پن پر کبھی بھی افسوس نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا،''میں جانتا ہوں کہ دنیا میں ہر آدمی کسی نہ کسی پہلو سے معذور ہے، چاہے وہ جسمانی معذور ہو، ذہنی معذور ہو یا اُس کی زندگی میں کوئی اور کمی ہو۔
معذوری کا مطلب صرف جسم میں کسی چیز کی کمی نہیں بل کہ سب لوگ کہیں نہ کہیں سے محتاج ہیں 'اپاہج' ہیں اور انہیں اسی پر فتح حاصل کرنا ہے۔ اس کے لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔disability can be your ability also۔ اس سے آپ کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔'' یہی پیغام انہوں نے ایک بار نابینا بچوں کے اسکول میں بھی دیا، جہاں انہیں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ جب انھیں بچوں سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تو انھوں نے وہاں پر اپنی یہ نظم سنائی:
تن کی آنکھیں تو دو ہی ہوتی ہیں
من کی آنکھیں ہزار ہوتی ہیں
تن کی آنکھیں تو سو ہی جاتی ہیں
من کی آنکھیں کبھی نہ سوتی ہیں
چاند سورج کے ہیں جو محتاج
بھیک نہ مانگو ان اجالوں سے
بند آنکھوں سے تم وہ کام کرو
آنکھ کھل جائے آنکھ والوں کی
ہیں اندھیرے بہت ستارے بنو
دوسروں کے لیے کنارے بنو
ہیں زمانے میں بے سہارے بہت
تم سہارے نہ لو سہارے بنو
رویندر جین کا لکھا ہوا ایک گیت کچھ یوں تھا جو بہت مشہور ہوا:
اکھیوں کے جھروکوں سے
میں نے دیکھا جو سانورے
تم دور نظر آئے بڑی دور نظر آئے
یہ گیت اس بات کی دلیل ہے کہ محبت کرنے والوں کو آنکھ سے دیکھیں تو وہ بہت دور نظر آتے ہیں لیکن دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ بالکل قریب نظر آ تے ہیں۔
اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
بند کر کے جھروکوں کو ذرا بیٹھی جو سوچنے
من میں تمھیں مسکائے
تو اس بات کا صاف پتا چلتا ہے کہ اُن کے دل کی آنکھیں جسم کی آنکھوں سے کتنی زیادہ بینا تھیں۔
یہ 1982کی بات ہے جب فلم ''ندیا کے پار'' میں دی گئی رویندر جین کی موسیقی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ یہ فلم ایک ناول پر مبنی تھی اور اس میں بھوج پوری لہجے میں ڈائیلاگ لکھے گئے تھے۔ ان ہی دنوں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی جس میں رویندر جین کو بلایا گیا۔ راج کپور بھی اس دعوت میں مدعو تھے۔ تقریب کے دوران رویندر جین سے گانے کی فرمائش کی گئی انہوں نے ایک بھجن گایا:
اک رادھا اک میرا
دونوں نے شیام کو چاہا
فرق کیا دونوں کی چاہ میں بولو
اک پریم دیوانی اک درس دیوانی
راج کپور اس مکھڑے کو بار بار سنتے رہے اور پھر اُن کے پاس آکر کہا،''یہ گیت کسی کو دیا تو نہیں؟'' رویندر جین نے کہا ''دے دیا '' راج کپور نے چونک کر پوچھا ''کسے ؟'' رویندر جین نے مسکراتے ہوئے کہا،''راج کپور جی کو۔'' بس پھر کیا تھا، یہیں سے اُن کے شان دار سفر کی ابتدا ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ فلم ''رام تیری گنگا میلی'' میں جب انھوں نے موسیقی دی تو اُن کی شہرت عروج پر پہنچ گئی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ راج کپور اس الجھن میں مبتلا تھے کہ میں ''جس دیش میں گنگا بہتی ہے'' نام کی فلم بنا چکا ہوں اور اس نے کافی شہرت بھی حاصل کی ہے، اب گنگا پر ایسی فلم کس طرح بناؤں جس میں بتایا جائے کہ اس کا پانی گدلا ہوچکا ہے۔ ان کے ذہن میں اس موضوع پر آنے والی فلم کا نام ''رام تیری گنگا میلی'' موجود تھا، مگر ہچکچا رہے تھے کہ لوگوں کے سامنے اس موضوع کو کس طرح پیش کروں، جس سے گنگا کا تقدس بھی برقرار رہے اور فلم بھی بن جائے۔ رویندر جین نے جب اُن کی یہ الجھن دیکھی تو فوراً بولے اسے یوں کرتے ہیں:
گنگا ہماری
کہے بات یہ روتے روتے
رام تیری گنگا میلی ہوگئی پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے
راج کپور یکا یک اٹھے اور بڑا ہونے کے باوجود انھوں نے رویندر جین کے پیر چھو لیے۔ جب ''رام تیری گنگا میلی'' تکمیل تک پہنچی تو اس کی موسیقی نے دھوم مچا دی، جس کے بعد راج کپور کے ساتھ اُن کی اگلی فلم ''حنا '' تھی۔ اس فلم کے ذریعے راج کپور نے یہ تجربہ کیا کہ اس کی ہیروئن پاکستانی اداکار زیبا بختیار تھی اور اس کے مقابلے میں رشی کپور کو فلم کا ہیرو بنایا۔
بدقسمتی سے اس فلم کی تکمیل کے دوران ہی راج کپور کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد اُن کے بیٹے رندھیر کپور نے اس فلم کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے۔ ''حنا'' کو راج کپور کی آخری فلم سمجھا جاتا ہے جو انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی تھی۔ پاکستان کی مشہور ڈرامانگار حسینہ معین سے اس کے ڈائیلاگ بھی لکھوائے گئے تھے۔
رویندر جین کو پرانے فلمی گانے بہت پسند تھے۔ وہ مدن موہن، روشن اور ایس ڈی برمن کو بہت پسند کرتے تھے اور گانے والوں میں لتا منگیشکر اُن کی پسندیدہ گلوکارہ تھیں۔ لتا سے ملنے اور اُن کی آواز میں اپنا گیت ریکارڈ کروانے کی اُن کی حسرت بھی عجیب طرح سے پوری ہوئی۔ اُن کے فلم ساز نے لتا سے یہ کہا کہ آپ کو ایک نئے موسیقار کے لیے گیت گانا ہے۔ جب رویندر جین سے اُن کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے رویندر جین سے پوچھا کہ کیا آپ نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کی ہے؟ رویندر جین نے سر ہلایا تو انھوں نے کہا کہ دھن سنائیے۔ دھن سننے کے بعد لتا منگیشکر اتنی خوش ہوئیں کہ انھیں اُس گیت کا جو معاوضہ یعنی تین ہزار روپے ملے اُس میں سے دو ہزار روپے انھوں نے رویندر جین کو واپس کر دیے۔
رویندر جین نے بطور شاعر بھی کمال کے گیت لکھے اور اُن کا شعری مجموعہ ''اجالوں کا سلسلہ'' کتابی شکل میں سامنے آیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھیں اس مجموعے پر اترپردیش ہندی اردو ساہتیہ کمیٹی کی طرف سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھیں 1985میں نہ صرف بیسٹ میوزک ڈائریکٹر کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا بل کہ وہ 2015 میں انڈیا کے چوتھے بڑے سول ایوارڈ پدما شری کے بھی حق دار قرار پائے۔
1980سے1990 کا زمانہ اُن کے عروج کا زمانہ تھا اور مرتے دم تک انہیں اس لیے بھی عروج حاصل رہا کہ انہوں نے ٹی وی کے لیے لکھی گئی سیریل ''رامائن'' ، ''مہا بھارت'' ، ''شری کرشن'' ، ''الف لیلیٰ'' ، ''جے گنگا میا''، ''سائیں بابا'' ، اور ''اتہاس کی پریم کہانیاں'' کو بھی اپنی آواز اور موسیقی کے زیور سے آراستہ کیا۔ ایک انٹرویو میں اُن سے جب یہ سوال کیا گیا،''اگر بینائی واپس آ جائے تو سب سے پہلے کس کو دیکھنا پسند کریں گے؟'' تو اُن کا جواب تھا،''یسو داس کو ۔'' جی ہاں یہ وہی یسو داس تھے ہیں جن کا تعلق کرناٹک سے ہے اور سنسکرت، تمل، ملیالم، تلگو، کنڑ، بنگالی، گجراتی، اردو، مراٹھی اور پنجابی کے علاوہ کئی دوسری زبانوں میں اب تک 40000سے زیادہ گانے ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
انہیں اپنی مدھر دھنوں کی لہروں پر بٹھا کر رویندر جین ہی ہندی فلموں کے نگر میں لے کر آئے تھے۔ گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا، میں تو گیا مارا، آ کے یہاں رے۔ جیسے گیت نے یسو داس کو راتوں رات مشہور کر دیا تھا۔
رویندر جین کے مشہور گیتوں کی تعداد تو کافی ہے مگر ان میں سے چند ایسے ہیں جو اُن کی پہچان بن چکے ہیں:
1۔ اکھیوں کے جھروکوں سے میں نے دیکھا جو سانورے
2۔ گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا، میں تو گیا مارا آ کے یہاں رے
3۔ جب دیپ جلے آنا، جب شام ڈھلے جانا
4۔ گھنگرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں
5۔ لے تو آئے ہو ہمیں سپنوں کے گاؤں میں
6۔ دل میں تجھے بٹھا کے کر لوں گی میں بند آنکھیں
7۔ طوطا مینا کی کہانی تو پرانی، پرانی ہو گئی
8۔ گیت گاتا چل او ساتھی گیت گاتا چل
9 ۔ چھوڑیں گے نہ ہم تیرا ساتھ او ساتھی جنم جنم تک
10۔ سن صاحبا سن، پیار کی دھن
11۔ رام تیری گنگا میلی ہو گئی، پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے
دہلی میں فلم ''سوداگر'' کی نمائش کے سلسلے میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا، جہاں ودیا جین نامی لڑکی اپنی ماں نرملا جین کے ساتھ رویندر جین سے متعارف ہوئی۔
بعد میں ودیا جین نے کہا کہ اگر وہ شادی کریں گی تو رویندر جین سے ورنہ کبھی نہیں کریں گی۔ 1982میں رویندر جین اور ودیا جین کی شادی ہوگئی اور ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایوشمان جین رکھا گیا۔ 9اکتوبر 2015 کو طبیعت خراب ہونے پر رویندرجین کو ممبئی کے ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا، مگر وہ وہاں سے واپس نہ آئے اور سب کو اُداس کر کے ہمیشہ کے لیے اُس جگہ پر چلے گئے جہاں سب چلے جاتے ہیں۔
ایسے ہی جینیوں میں ایک نام اُس چھوٹے سے بچے رویندر جین کا بھی شامل کیا جا سکتا ہے، جس نے آنکھیں کھولیں تو اُسے سوائے اندھیروں کے اور کچھ دکھائی نہ دیا۔ اس کے باوجود جس مہارت سے اندھیروں میں بکھرے خزانوں تک رویندر جین پہنچے شاید وہ لوگ بھی نہ پہنچ پائیں، جو اپنی ساری زندگی مال و دولت کے خزانوں پر بیٹھ کر گزار دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجانے والے یہ منفرد موسیقار اپنی بنائی ہوئی دُھنوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
رویندر جین کی پیدائش 28فروری 1944کو علی گڑھ، اترپردیش کے ایک گاؤں میں ہوئی تو اُن کی ماں کرن دیوی اور والد اندر منی گیان جو آریو ویدک کے جانے مانے وید تھے، بہت خوش ہوئے کہ ان کے ہاں ایک اور بیٹے نے جنم لیا، مگر جب اُس کی بند آنکھوں کو دیکھا تو پورا کنبہ پریشان ہو گیا۔ پنڈت اندر منی گیان فوراً اپنے ایک دوست ڈاکٹر موہن لال کے پاس پہنچے۔ جنھوں نے سرجری کے ذریعے رویندر جین کی آنکھیں کھول دیں، مگر اُن آنکھوں میں دبی روشنی کو نہ ڈھونڈ سکے۔
اُن کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر اپنے دل اور دماغ میں چھپی روشنی سے سے ایک دنیا کو منور کرنے والا ہے۔ ڈاکٹر موہن لال نے اس بچے کے والدین کو یہ مشورہ ضرور دیا کہ اس سے کوئی ایسا کام مت کروانا جس سے آنکھوں پر زور پڑے۔ والدین نے ڈاکٹر کی نصیحت کو ذہن میں رکھا اور بیٹے کے اس مشغلے کے کبھی آڑے نہ آئے جو اُس نے اسکول کے دنوں میں اپنایا، یعنی گیت بھجن گانے اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا۔ سات بھائیوں اور ایک بہن میں وہ چوتھے نمبر پر تھے۔
ہوش سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے فرانسیسی، ہندی اور دوسری زبانوں کی کہانیاں اور مضمون سننے کا شغل اپنایا۔ وہ جو چیز ایک دفعہ سنتے اُسے ہمیشہ کے لیے یاد کر لیتے تھے۔ روزانہ مندر میں جاکر ایک بھجن گاتے اور واپس آکر انہیں اپنے والد صاحب سے ایک روپیہ ملتا، مگر اس دوران وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ شرارتیں بھی خوب کیا کرتے۔
جین مذہب میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ سورج غروب ہونے سے قبل ہی کھانا کھالیا جائے، مگر رویندر جین اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے کے بعد جب رات گئے گھر واپس آتے تو انہیں اپنے والد صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسے میں ان کی ماں بیچ بچاؤ کراتے ہوئے انہیں گھر کے اندر لے جاتیں اور اُن کے پلنگ کے نیچے پہلے سے ہی کھانا چھپا کر رکھ دیتیں، تاکہ بچہ بھوکا نہ رہے۔ ان کا یہ بھی معمول تھا کہ اپنے ہم جماعت دوستوں کے ساتھ ایک منڈلی بناکر علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن کے آس پاس گھومتے اور گاتے تھے۔
اُن کے ہاتھوں میں پیتل کی ایک گڑوی ہوتی جسے وہ بجاتے اور گاتے ہوئے ساری منڈلی اسٹیشن کے آس پاس گھومتی رہتی۔ ایک دن ایک دوست نے گڑوی کو سیدھا کر دیا۔ لوگ یہ سمجھے کہ مانگ رہے ہیں۔ ایک شخص نے اُس میں سکہ ڈال دیا جسے دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی یہی کچھ کیا، جس سے وہ برتن سکوں سے بھر گیا۔ گھر آکر انھوں نے وہ پیسے ماں کے پیروں میں ڈھیر کر دیے۔ اُن کے والد یہ دیکھ کر لال پیلے ہو گئے اور کہا کہ فوراً جاکر اُن لوگوں کو پیسے واپس کرو جنہوں نے دیے ہیں، مگر وہ اُن سب کو کہاں ڈھونڈتے، لہٰذا سب دوستوں نے دکان پر جاکر چاٹ کھالی۔
رویندرجین صرف پانچویں درجے تک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کر سکے، مگر موسیقی کے اہم اساتذہ پنڈت جی ایل جین، پنڈت جناردھن شرما اور پنڈت نتھو رام سے بہت کچھ سیکھا اور علی گڑھ کی تہذیب و ثقافت سے بھی خوب فائدہ اٹھایا، جہاں اردو اور ہندی کے ادیبوں کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے تایا کے بیٹے نے انھیں مشورہ دیا کہ کہ وہ کول کتہ چلے جائیں جہاں فلم اور موسیقی کی دنیا زیادہ وسیع تھی۔ والد نے انہیں جیب خرچ کے لیے 75روپے دیے اور ماں نے پوٹلی میں کپڑوں کے ساتھ دال چاول باندھ دیے۔ رویندر جین کول کتہ پہنچ گئے اور ایک بنگالی فیملی کے ساتھ رہنے لگے۔
ہندی فلم کے پروڈیوسر رادھے شیام جُھن جُھن والا کی کوشش سے انہیں میوزک سکھانے کی ایک ٹیوشن مل گئی، جس کا معاوضہ روزانہ چنے کی دال کے ساتھ ایک سموسہ اور چالیس روپے مہینہ طے پایا ۔ کول کتہ میں ہی اُن کا تعارف ہیم لتا سے ہوا اور وہ بنگالی کے ساتھ دوسری زبانوں کے گیتوں کی دھنیں بھی ترتیب دینے لگے۔ ہیم لتا کی قربت کے بعد انہیں گراموفون ریکارڈنگ کمپنیوں سے کام ملنے لگا اور عوامی محفلوں میں جاکر گانے کے بھی 151 روپے لینے لگے۔ یہیں اُن کی ملاقات معروف اداکار سنجیو کمار سے ہوئی، جس کے کچھ عرصے بعد وہ کول کتہ چھوڑ کر ممبئی آگئے۔
1968میں جب وہ رادھے شیام جُھن جُھن والا کے ساتھ ممبئی آئے تو ان کی پہلی ملاقات مکیش سے ہوئی اور رام رکھ منوہر نے کچھ محفلوں میں گانے کا موقع فراہم کیا۔ اسی دوران سنجیو کمار نے انہیں معروف فلم ساز اور پروڈیوسر این این سپی سے ملوایا، جہاں رویندر جین نے اپنے خزانے میں رکھی کئی انمول دھنیں سنائیں۔ اس محفل میں فریدہ جلال اور شترو گھن سنہا بھی موجود تھے۔ ممبئی میں اُن کا پہلا گانا محمد رفیع کی آ واز میں 1972میں ریکارڈ ہوا۔
انڈین فلم انڈسٹری اور موسیقی کے شائقین کے لیے یہ انتہائی اچھنبے کی بات تھی کہ ایسا شخص جو نابینا تھا نہ صرف موسیقی میں اچھا گیان رکھتا ہے، بل کہ دل کو چھو لینے والے گیت بھی تخلیق کر تا ہے۔
اس سے قبل انڈین فلم کی تاریخ میں معروف گلو کار مناڈے کے تایا کے ۔ سی۔ ڈے ہی ایسے نابینا موسیقار تھے جنہوں نے فلمی دنیا کو مدھرگیتوں سے نوازا تھا، مگر وہ بہت ساری فلموں میں تیس سال تک کام کرنے اور موسیقی کی دھنیں بنانے کے بعد نابینا ہوئے تھے۔ رویندر جین کی شاعری اور موسیقی کے کمالات بھی آہستہ آہستہ سامنے آتے گئے اور لوگوں کو یہ پتا چلتا گیا کہ جس شخص کی دو آنکھیں نہیں ہیں وہ آنکھیں رکھنے والے کتنے ہی لوگوں سے مختلف سوچ کا حامل ہے۔
80کی دہائی میں رویندر جین نے نہ صرف کئی فلموں کے لیے لاجواب گیت لکھے اور اُن کی دھنیں بھی بنائیں بل کہ اپنی معذوری کے باوجود دوسروں کے لیے مثال بنے۔ انھوں نے اپنے نابینا پن پر کبھی بھی افسوس نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا،''میں جانتا ہوں کہ دنیا میں ہر آدمی کسی نہ کسی پہلو سے معذور ہے، چاہے وہ جسمانی معذور ہو، ذہنی معذور ہو یا اُس کی زندگی میں کوئی اور کمی ہو۔
معذوری کا مطلب صرف جسم میں کسی چیز کی کمی نہیں بل کہ سب لوگ کہیں نہ کہیں سے محتاج ہیں 'اپاہج' ہیں اور انہیں اسی پر فتح حاصل کرنا ہے۔ اس کے لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔disability can be your ability also۔ اس سے آپ کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔'' یہی پیغام انہوں نے ایک بار نابینا بچوں کے اسکول میں بھی دیا، جہاں انہیں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ جب انھیں بچوں سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تو انھوں نے وہاں پر اپنی یہ نظم سنائی:
تن کی آنکھیں تو دو ہی ہوتی ہیں
من کی آنکھیں ہزار ہوتی ہیں
تن کی آنکھیں تو سو ہی جاتی ہیں
من کی آنکھیں کبھی نہ سوتی ہیں
چاند سورج کے ہیں جو محتاج
بھیک نہ مانگو ان اجالوں سے
بند آنکھوں سے تم وہ کام کرو
آنکھ کھل جائے آنکھ والوں کی
ہیں اندھیرے بہت ستارے بنو
دوسروں کے لیے کنارے بنو
ہیں زمانے میں بے سہارے بہت
تم سہارے نہ لو سہارے بنو
رویندر جین کا لکھا ہوا ایک گیت کچھ یوں تھا جو بہت مشہور ہوا:
اکھیوں کے جھروکوں سے
میں نے دیکھا جو سانورے
تم دور نظر آئے بڑی دور نظر آئے
یہ گیت اس بات کی دلیل ہے کہ محبت کرنے والوں کو آنکھ سے دیکھیں تو وہ بہت دور نظر آتے ہیں لیکن دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ بالکل قریب نظر آ تے ہیں۔
اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
بند کر کے جھروکوں کو ذرا بیٹھی جو سوچنے
من میں تمھیں مسکائے
تو اس بات کا صاف پتا چلتا ہے کہ اُن کے دل کی آنکھیں جسم کی آنکھوں سے کتنی زیادہ بینا تھیں۔
یہ 1982کی بات ہے جب فلم ''ندیا کے پار'' میں دی گئی رویندر جین کی موسیقی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ یہ فلم ایک ناول پر مبنی تھی اور اس میں بھوج پوری لہجے میں ڈائیلاگ لکھے گئے تھے۔ ان ہی دنوں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی جس میں رویندر جین کو بلایا گیا۔ راج کپور بھی اس دعوت میں مدعو تھے۔ تقریب کے دوران رویندر جین سے گانے کی فرمائش کی گئی انہوں نے ایک بھجن گایا:
اک رادھا اک میرا
دونوں نے شیام کو چاہا
فرق کیا دونوں کی چاہ میں بولو
اک پریم دیوانی اک درس دیوانی
راج کپور اس مکھڑے کو بار بار سنتے رہے اور پھر اُن کے پاس آکر کہا،''یہ گیت کسی کو دیا تو نہیں؟'' رویندر جین نے کہا ''دے دیا '' راج کپور نے چونک کر پوچھا ''کسے ؟'' رویندر جین نے مسکراتے ہوئے کہا،''راج کپور جی کو۔'' بس پھر کیا تھا، یہیں سے اُن کے شان دار سفر کی ابتدا ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ فلم ''رام تیری گنگا میلی'' میں جب انھوں نے موسیقی دی تو اُن کی شہرت عروج پر پہنچ گئی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ راج کپور اس الجھن میں مبتلا تھے کہ میں ''جس دیش میں گنگا بہتی ہے'' نام کی فلم بنا چکا ہوں اور اس نے کافی شہرت بھی حاصل کی ہے، اب گنگا پر ایسی فلم کس طرح بناؤں جس میں بتایا جائے کہ اس کا پانی گدلا ہوچکا ہے۔ ان کے ذہن میں اس موضوع پر آنے والی فلم کا نام ''رام تیری گنگا میلی'' موجود تھا، مگر ہچکچا رہے تھے کہ لوگوں کے سامنے اس موضوع کو کس طرح پیش کروں، جس سے گنگا کا تقدس بھی برقرار رہے اور فلم بھی بن جائے۔ رویندر جین نے جب اُن کی یہ الجھن دیکھی تو فوراً بولے اسے یوں کرتے ہیں:
گنگا ہماری
کہے بات یہ روتے روتے
رام تیری گنگا میلی ہوگئی پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے
راج کپور یکا یک اٹھے اور بڑا ہونے کے باوجود انھوں نے رویندر جین کے پیر چھو لیے۔ جب ''رام تیری گنگا میلی'' تکمیل تک پہنچی تو اس کی موسیقی نے دھوم مچا دی، جس کے بعد راج کپور کے ساتھ اُن کی اگلی فلم ''حنا '' تھی۔ اس فلم کے ذریعے راج کپور نے یہ تجربہ کیا کہ اس کی ہیروئن پاکستانی اداکار زیبا بختیار تھی اور اس کے مقابلے میں رشی کپور کو فلم کا ہیرو بنایا۔
بدقسمتی سے اس فلم کی تکمیل کے دوران ہی راج کپور کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد اُن کے بیٹے رندھیر کپور نے اس فلم کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے۔ ''حنا'' کو راج کپور کی آخری فلم سمجھا جاتا ہے جو انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی تھی۔ پاکستان کی مشہور ڈرامانگار حسینہ معین سے اس کے ڈائیلاگ بھی لکھوائے گئے تھے۔
رویندر جین کو پرانے فلمی گانے بہت پسند تھے۔ وہ مدن موہن، روشن اور ایس ڈی برمن کو بہت پسند کرتے تھے اور گانے والوں میں لتا منگیشکر اُن کی پسندیدہ گلوکارہ تھیں۔ لتا سے ملنے اور اُن کی آواز میں اپنا گیت ریکارڈ کروانے کی اُن کی حسرت بھی عجیب طرح سے پوری ہوئی۔ اُن کے فلم ساز نے لتا سے یہ کہا کہ آپ کو ایک نئے موسیقار کے لیے گیت گانا ہے۔ جب رویندر جین سے اُن کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے رویندر جین سے پوچھا کہ کیا آپ نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کی ہے؟ رویندر جین نے سر ہلایا تو انھوں نے کہا کہ دھن سنائیے۔ دھن سننے کے بعد لتا منگیشکر اتنی خوش ہوئیں کہ انھیں اُس گیت کا جو معاوضہ یعنی تین ہزار روپے ملے اُس میں سے دو ہزار روپے انھوں نے رویندر جین کو واپس کر دیے۔
رویندر جین نے بطور شاعر بھی کمال کے گیت لکھے اور اُن کا شعری مجموعہ ''اجالوں کا سلسلہ'' کتابی شکل میں سامنے آیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھیں اس مجموعے پر اترپردیش ہندی اردو ساہتیہ کمیٹی کی طرف سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھیں 1985میں نہ صرف بیسٹ میوزک ڈائریکٹر کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا بل کہ وہ 2015 میں انڈیا کے چوتھے بڑے سول ایوارڈ پدما شری کے بھی حق دار قرار پائے۔
1980سے1990 کا زمانہ اُن کے عروج کا زمانہ تھا اور مرتے دم تک انہیں اس لیے بھی عروج حاصل رہا کہ انہوں نے ٹی وی کے لیے لکھی گئی سیریل ''رامائن'' ، ''مہا بھارت'' ، ''شری کرشن'' ، ''الف لیلیٰ'' ، ''جے گنگا میا''، ''سائیں بابا'' ، اور ''اتہاس کی پریم کہانیاں'' کو بھی اپنی آواز اور موسیقی کے زیور سے آراستہ کیا۔ ایک انٹرویو میں اُن سے جب یہ سوال کیا گیا،''اگر بینائی واپس آ جائے تو سب سے پہلے کس کو دیکھنا پسند کریں گے؟'' تو اُن کا جواب تھا،''یسو داس کو ۔'' جی ہاں یہ وہی یسو داس تھے ہیں جن کا تعلق کرناٹک سے ہے اور سنسکرت، تمل، ملیالم، تلگو، کنڑ، بنگالی، گجراتی، اردو، مراٹھی اور پنجابی کے علاوہ کئی دوسری زبانوں میں اب تک 40000سے زیادہ گانے ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
انہیں اپنی مدھر دھنوں کی لہروں پر بٹھا کر رویندر جین ہی ہندی فلموں کے نگر میں لے کر آئے تھے۔ گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا، میں تو گیا مارا، آ کے یہاں رے۔ جیسے گیت نے یسو داس کو راتوں رات مشہور کر دیا تھا۔
رویندر جین کے مشہور گیتوں کی تعداد تو کافی ہے مگر ان میں سے چند ایسے ہیں جو اُن کی پہچان بن چکے ہیں:
1۔ اکھیوں کے جھروکوں سے میں نے دیکھا جو سانورے
2۔ گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا، میں تو گیا مارا آ کے یہاں رے
3۔ جب دیپ جلے آنا، جب شام ڈھلے جانا
4۔ گھنگرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں
5۔ لے تو آئے ہو ہمیں سپنوں کے گاؤں میں
6۔ دل میں تجھے بٹھا کے کر لوں گی میں بند آنکھیں
7۔ طوطا مینا کی کہانی تو پرانی، پرانی ہو گئی
8۔ گیت گاتا چل او ساتھی گیت گاتا چل
9 ۔ چھوڑیں گے نہ ہم تیرا ساتھ او ساتھی جنم جنم تک
10۔ سن صاحبا سن، پیار کی دھن
11۔ رام تیری گنگا میلی ہو گئی، پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے
دہلی میں فلم ''سوداگر'' کی نمائش کے سلسلے میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا، جہاں ودیا جین نامی لڑکی اپنی ماں نرملا جین کے ساتھ رویندر جین سے متعارف ہوئی۔
بعد میں ودیا جین نے کہا کہ اگر وہ شادی کریں گی تو رویندر جین سے ورنہ کبھی نہیں کریں گی۔ 1982میں رویندر جین اور ودیا جین کی شادی ہوگئی اور ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایوشمان جین رکھا گیا۔ 9اکتوبر 2015 کو طبیعت خراب ہونے پر رویندرجین کو ممبئی کے ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا، مگر وہ وہاں سے واپس نہ آئے اور سب کو اُداس کر کے ہمیشہ کے لیے اُس جگہ پر چلے گئے جہاں سب چلے جاتے ہیں۔