بھاری پتھر

زندہ کرداروں میں ایک یونس حبیب صاحب ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے میاں نواز شریف کو براہ راست اور اکثر سیاستدانوں۔۔۔

Abbasather@express.com.pk

KARACHI:
سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سُنا کر معاملات '' سیدھے'' کرنے کے بجائے مزید کنفیوژکر دیے ہیں۔

اور تو اور چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے یہ تک کہہ دیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے سپریم کورٹ نے اصغر خاں کیس کے حالیہ فیصلے سے خود کو متنازعہ بنالیا ہے، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ 90 ء کے انتخابات میں جرنیلوں اور سیاستدانوں نے مل کر دھاندلی کی اور نتائج تبدیل کرائے۔ بلاشبہ 88ء کے جمہوری دور میں '' دھاندلی'' کا لیبل ہر الیکشن پر چسپاں ہوا، ہر بار پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ محدود یا ملیامیٹ کیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب کو فیصلے کا جو نکتہ زیادہ اہم لگا ہے، وہ اپوزیشن کا یہ پسندیدہ مطالبہ ہے کہ آصف زرداری ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں سے گریز کریں اور اس نوعیت کی سرگرمیاں ایک یا دوسری شکل میں الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیں ۔

چیف الیکشن کمشنر نے یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے، اس سے سیاسی انتشار پھیلے گا، خیر تشویش کی اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ پاکستان سیاسی انتشار کے معاملے میں پہلے ہی خود کفیل ہے۔ مزید پیداوار کی ضرورت اس لیے نہیں کہ یہ ایسی جنس ہے، جس کی برآمد کی کوئی گنجائش نہیں۔ علاوہ ازیں کچھ اضافی سیاسی انتشار پھیلا بھی تو وہ خوامخواہ کی سرپلس پیداوار ہوگا۔
پیپلز پارٹی نئے امتحان میں پھنس گئی ہے۔ کچھ کچھ بات واضح ہو رہی ہے ،کچھ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گی۔ سیدھی سی بات ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد اس کی حکومت پابند ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔ مسلم لیگ ن نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ ایف آئی اے کے ذریعے وہ کسی تحقیقات میں تعاون نہیں کرے گی۔ مسلم لیگ ن نے جو بیان دیا ہے، اس کے الفاظ ہیں کہ یہ رحمن ملک کی ایف آئی اے ہے یعنی آزاد ادارہ نہیں ہے، اسے سیاسی انتقام کیلیے استعمال کیا جائے گا۔ ہم اس میں پیش نہیں ہوں گے، اس کے بجائے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔

اطلاع ہے کہ اس حوالے سے مسلم لیگ ن ایک رِٹ بھی دائر کرنے والی ہے جس میں اپیل کی جائے گی کہ عدالت عظمیٰ معاملے کی تحقیقات کیلیے کمیشن قائم کرے۔ عدالت کیلیے یہ رِٹ مسترد کرنا اس لیے مشکل ہوگا کہ وہ چیف جسٹس کے بیٹے پر لگنے والے الزام کیلیے کمیشن بنا چکی ہے۔ بہرحال، اب جو ہو گا، وہ یہ ہے کہ اگر حکومت نے خود تفتیش کی تو وہ چاہے کتنی ہی ایماندارانہ کیوں نہ ہو، اس بات کا غل مچانے کیلیے مسلم لیگ (ن) کے لیے میدان کھلا ہے کہ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ الیکشن قریب ہیں اور انتخابات کی گرما گرم فضا میں امکان ہے کہ عوام ''ن'' والوں کی یہ فریاد ہمدردی سے سنیں گے۔


دوسری طرف اگر پیپلز پارٹی کوئی اقدام نہیں کرتی تو عمران خان کو یہ واویلا کرنے کا ایک اور سنہری موقع مل جائے گا کہ زرداری اور نواز میں ملی بھگت ہے، دیکھ لو، عدالت کا واضح حکم ہے کہ اصغر خان کیس کے حوالے سے تفتیش اور کارروائی کی جائے لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ تیسری طرف اگر عدالت نے کمیشن بنا دیا تو اس کے سامنے سب سے بڑا سوال ثبوت اکٹھا کرنے کا ہو گا۔ اس کیس کے ایک مرکزی کرداری غلام اسحاق خان انتقال کر چکے ہیں۔

زندہ کرداروں میں ایک یونس حبیب صاحب ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے میاں نواز شریف کو براہ راست اور اکثر سیاستدانوں کو بالواسطہ رقوم دیں یا ان کے اکائونٹس میں جمع کرا دیں۔ بالواسطہ دینے کا الزام کیسے ثابت ہوگا؟۔ یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے اور کسی کے اکائونٹ میں کسی دوسرے کی طرف سے رقم جمع کرانے کا کام ایسا ہے کہ یہ طے کرنا مشکل ہو گا کہ کارروائی کیلیے کسے مجرم قرار دیا جائے۔ حکومت نے اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے اگرچہ بڑے بڑے دعوے کیے ہیں کہ سخت کارروائی ہوگی اور ایک ایک پیسہ وصول کریں گے لیکن لگتا کچھ ایسا ہے کہ حکومت کو بھی احساس ہے کہ انتخابات کے زمانے میں ایسی کارروائی اسے مہنگی پڑ سکتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کو ہمدردی کیش کرانے کا موقع مل جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اس بھاری پتھر کو اُٹھانے کا دکھاوا تو ضرور کیا جائے گا لیکن عملاً اسے نئی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے گا۔

عدالت اگر اس کیس کا فیصلہ دو سال پہلے کر دیتی تو حکومت کیلیے ایکشن لینا زیادہ آسان ہوتا۔ ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو یہ رائے دے رہا ہے کہ سپریم کورٹ کو خود بھی اس کیس سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی، اس نے جان چھڑائی ہے اور جان کچھ اس طریقے سے چھڑائی ہے کہ صدر صاحب کیلیے بھی مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اُمید رکھنی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن اور بعض دیگر جماعتوں کی طرف سے ایوان صدر کے سیاسی کردار کے حوالے سے پے در پے رٹیں کی جائیں گی۔ اِن پر فیصلے آئے تو پیپلز پارٹی کیلیے دفاعی انداز اپنانے کے سوا شاید کوئی راستہ نہ رہے گا۔ بات وہی ہے جو پاکستان کی پرانی روایت ہے کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ یعنی جو فیصلہ پیپلز پارٹی اپنی فتح سمجھ رہی ہے، اپنے نتائج کے لحاظ سے شاید اتنا مزیدار نہ ہو بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بد مزہ ہی نکلے۔

مسلم لیگ ن نے ابھی سے اپنی مظلومیت کا جس طرح سے شور مچایا ہے، اسے دیکھ کر آئندہ کی آہ و بکا کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہمارے ملک کی روایت ہے کہ عدلیہ اگر حق میں فیصلہ سنائے تو صرف وہی آزادانہ اور غیر جانبدار ہوتا ہے جبکہ مخالفانہ فیصلے کو متعصبانہ سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن نے ابھی تک عدالت پر کوئی براہ راست ایسا حملہ نہیں کیا جسے توہین عدالت کے مترادف قرار دیا جا سکے لیکن بین السطور یہی ہے کہ عدلیہ نے یہ کیا فیصلہ سنا دیا، ایسا بھی کوئی انصاف ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اسی حوالے سے یہ ریمارکس دیے ہیں کہ نیب تو پہلے ہی متنازعہ تھا، اب پتہ چلا کہ ایف آئی اے پر بھی لوگوں کو اعتماد نہیں۔ یہ ریمارکس کچھ حیران کن اس لیے ہیں کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کئی مواقع پر ایف آئی اے کی سرزنش کر چکی ہے اور ایسے ریمارکس دے چکی ہے کہ یہ ادارہ دیانتداری سے کام نہیں کر رہا۔ بہرحال، سپر یم کورٹ کے تازہ ریمارکس سے مسلم لیگ ن کی فریاد پر گویا مہر تصدیق لگ گئی ہے کہ ایف آئی اے میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔

حکومت نے کرپشن کے دوسرے کیسوں کے علاوہ اصغر خان کیس کے فیصلے میں جو کچھ بھی کرنا ہے، وہ انہی دو اداروں نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے سے کرنا ہے، اب جبکہ یہ دونوں ادارے اپوزیشن اور عدالت، دونوں کی نظر میں متنازعہ ہیں تو حکومت کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیا کرے؟ انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں، اِس کے باوجود صورتحال پر اچھی طرح غور وخوض کرنے کے لیے حکومت کے پاس خاصا وقت ہے۔ وہ فوری طور پر ایک اور تماشا شروع کروا سکتی ہے یا اگلی حکومت پر چھوڑ سکتی ہے۔ ہمارے چیف الیکشن کمشنر صاحب نے 90ء کے انتخابات چرانے کی واردات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ ممکن ہے کہ ایسی ڈکیتی اُن کے لیے کوئی خاص اہمیت نہ رکھتی ہو اور ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں جیسے الزامات ایسی ڈکیتیوں سے زیادہ سنگین ہوں۔
Load Next Story