انگلینڈ کیخلاف نفسیاتی برتری کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اظہر علی

قومی ون ڈے ٹیم کے کپتان اظہر علی کا ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو


Saleem Khaliq November 08, 2015
قومی ون ڈے ٹیم کے کپتان اظہر علی کا ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو ۔ فوٹو : فائل

GILGIT: پاکستانی بیٹنگ میں استحکام کی علامت سمجھے جانے اظہر علی نے کرکٹ کیریئر کا آغاز تو ایک لیگ اسپنر کی حیثیت سے کیا لیکن جلد ہی اپنی ثابت قدمی کی بدولت بطور بیٹسمین پہچان بنانے لگے، اچھی تکنیک کے ساتھ ہر گیند کو لائن میں آکر میرٹ پر کھیلنے کی خوبی نے انھیں ایک قابل بھروسہ بیٹسمین کی شناخت دی، تحمل مزاجی کی بدولت اظہر علی قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

پہلی ففٹی ہیڈنگلے میں آسٹریلیا کیخلاف بنائی،جب پاکستان نے یواے ای سیریز 2012 میں اس وقت کی عالمی نمبر ون انگلش ٹیم کو کلین سویپ کیا تو اظہر علی نے بہترین ٹمپرامنٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لوہا منوایا۔ وہ دونوں ٹیموں میں واحد بیٹسمین تھے جن کی اوسط 50سے زائد رہی، ون ڈے کرکٹ میں قابل بھروسہ ہونے کے باوجود کم اسٹرائیک ریٹ ان کی پیش قدمی میں رکاوٹ بنتا رہا جس کی وجہ سے انھیں رواں سال ورلڈکپ سکواڈ میں بھی جگہ نہ مل سکی۔

مصباح الحق نے اس فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو متبادل قیادت کے بحران کا حل تلاش کرتے ہوئے اظہر علی کو کپتان بنادیا گیا، انھوں نے بھی اس ذمہ داری کو چیلنج کے طور پر قبول کیا اور نہ صرف اپنی بیٹنگ کو ایک روزہ کرکٹ کے مزاج سے ہم آہنگ کیا بلکہ نئے ٹیلنٹ سمیت تمام کھلاڑیوں کو ایک بہتر ٹیم میں بھی ڈھالنے میں کامیاب ہوگئے، ان کے ساتھ خصوصی انٹرویو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: اچانک ون ڈے اسکواڈ میں واپسی کے ساتھ قیادت بھی مل گئی، پرفارمنس ایسی رہی کہ میرے جیسے ناقدین بھی تعریف کرنے لگے، اس پرکیسا محسوس کرتے ہیں؟

اظہر علی: کسی بھی فارمیٹ میں کم بیک کرنا آسان نہیں، عمدہ پرفارمنس سے ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کا چیلنج درپیش ہوتا ہے، میرے لیے تو دہرا چیلنج تھا، ایک طرف انفرادی کارکردگی سے ون ڈے کرکٹ میں اپنی اہلیت منوانی تھی، دوسری جانب قیادت کا بوجھ بھی اٹھانا تھا۔

مصباح الحق جیسے سینئر اور قابل بھروسہ کھلاڑی کا خلا پُر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، میں نے یہ کوشش کی کہ بطور بیٹسمین اپنے کردار سے انصاف کروں اور جہاں تک ممکن ہوسکے قیادت کرتے ہوئے بھی ساتھی پلیئرز کی صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر انداز میں استعمال میں لائوں۔ خوشی کی بات ہے کہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا تاہم ابھی بہت محنت اور مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس: آپ ٹیسٹ بیٹسمین کے طور پر تو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکے تھے لیکن ون ڈے میں اسٹرائیک ریٹ پر سوالات اٹھائے جاتے رہے، قیادت سنبھالتے ہی انداز میں اتنی بڑی تبدیلی کیسے آگئی؟

اظہر علی: میں ون ڈے کرکٹ سے دوری کے دور میں سوچتا اور کام کرتا رہا تھا کہ دیگر ممالک کے کھیلنے کا انداز اور اس فارمیٹ کے تقاضے کیا ہیں، سب سے پہلے تو اپنے اسٹرائیک ریٹ کو بہتر کرنے اور اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے کیلیے محنت کرنے کی ضرورت تھی، میں نے کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے کامیابی بھی دی، خود جارحانہ کرکٹ کھیلنے کا انداز اپنایا، ٹیم کو بھی اسی انداز میں پرفارم کرنے کی ہدایت کرتا رہا، مینجمنٹ نے بھر پور ساتھ دیا، آج نتائج آپ کے سامنے ہیں، بتدریج بہتری کی جانب سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، کوشش ہے کہ ذاتی اور ٹیم کی پرفارمنس کا گراف بلندی کی جانب بڑھتا رہے۔

ایکسپریس: ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی اچھی اور اس کا ٹاپ ٹیموں میں شمار ہوتا ہے، مگر ون ڈے رینکنگ میں ہم آٹھویں نمبر پر ہیں، بہتری کا سفر مسلسل عمدہ پرفارمنس کی بدولت ہی شروع ہوسکتا ہے، خود کو اس چیلنج کیلیے کتنا تیار سمجھتے ہیں؟

اظہر علی: ورلڈ کپ کے بعد ہمیں کپتان مصباح الحق سمیت سینئرز کی خدمات سے محروم ہونا پڑا، سعید اجمل کے ایکشن اور اصلاح کے بعد ردھم کا مسئلہ آگیا، محمد حفیظ کی بولنگ پاکستان کے پاس ایک اضافی ہتھیار ہوتی تھی جس کو کسی وقت بھی استعمال کیا جاسکتا تھا، اب ان کی خدمات بھی میسر نہیں ہیں، تاہم ان سب مسائل کے باوجود قومی ٹیم اور پاکستان کرکٹ کو مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی مہم جاری رکھنا ہے، ورلڈکپ 1992کے فاتح ملک کو اپنا وجود اور طاقت منوانے کا چیلنج درپیش ہے۔

ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھے رہ سکتے، نئے ٹیلنٹ پر انحصار کرتے ہوئے انھیں گروم بھی کرنا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ نوجوان کھلاڑی دستیاب اور پرفارم بھی کررہے ہیں، سینئرز اور جونیئرز کے امتزاج سے تشکیل پانے والے اسکواڈ کی کارکردگی میں تسلسل ہی ہماری رینکنگ میں بہتری کی ضمانت ہوگا، اسی لیے نوجوانوں کو بھی مسلسل آزما رہے ہیں، زمبابوے کیخلاف سیریز میں پرفارم کرنے والوں کو بھی آرام دے کر نئے ٹیلنٹ کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا گیا، انہوں نے اچھی پرفارمنس سے اعتماد بھی حاصل کیا۔

پہلا انتخاب سمجھے جانے والے کسی کھلاڑی کی انجری سامنے آئے تو خلا پُر کرنے کیلیے کوئی نوجوان بیک اپ میں موجود ہوگا، ٹیم کے پلیئرز بھی اچھے اور بنچ پر متبادل بھی ہوں تو پرفارمنس میں تسلسل کی زیادہ امید رکھ سکتے ہیں، یہ نہیں کہ ایک کا مسئلہ ہوگیا تو جگہ لینے والا ہی نہ ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ون ڈے رینکنگ میں پوزیشن ہمارے شایان شان نہیں ہے مگر شائقین کرکٹ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ جلد بہتری دیکھیں گے۔

ایکسپریس: چیمپئنز ٹرافی میں شرکت سے محروم رہ جانے کے خدشات پر کتنا دبائو محسوس کررہے تھے؟

اظہر علی: سری لنکا کیخلاف سیریز میں پلیئرز کی اچھی کارکردگی سامنے لانے کے ساتھ میگا ایونٹ میں کوالیفائی کرنے کا دبائو بھی تھا، ہم نے درپیش چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اچھی جارحانہ کرکٹ کھیلی اور مشکل سری لنکن کنڈیشنز میں میزبان ٹیم کو زیر کیا، شعیب ملک نے کم بیک پر سینئر کی ذمہ داری بہترین انداز میں نبھائی، محمد رضوا ن ٹیم کی ضرورت کے مطابق کھیلے، دیگر بیٹسمین بھی اپنے کردار سے انصاف کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

اس ٹور میں خاص طور پر فیلڈنگ میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی اور اس نے فتوحات کا راستہ بنایا، یوں چیمپئنز ٹرافی سے اخراج کی جو تلوار لٹک رہی تھی وہ سر سے ہٹ گئی، اب انگلینڈ میں شیڈول 8 ملکی ٹورنامنٹ کی تیاری کیلیے ہمارے پاس اچھا وقت موجود ہے، اس عرصے میں ٹیم کی صفیں درست کرنا ہیں،کارکردگی میں تسلسل لائیں گے تو توقعات پر پورا اترسکیں گے۔

ایکسپریس: اب ایک اور چیلنج بھی درپیش ہے، ٹاپ ٹیموں میں جگہ نہ بنائی تو ورلڈ کپ کا کوالیفائنگ رائونڈ بھی کھیلنا پڑے گا؟

اظہر علی: ٹیم میں نیا ٹیلنٹ شامل ہوا اور پرفارمنس میں بھی بہتری آرہی ہے، پوری امید ہے کہ اپنی رینکنگ بہتر بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور کوالیفائنگ رائونڈ کھیلنے کی نوبت نہیں آئے گی، آئندہ چند سیریز میں ہی ہم کارکردگی میں تسلسل کی بنیاد پر اپنے اہداف کی جانب گامزن ہوں گے، ٹیم میں میچ ونرز موجود اور بتدریج اعتماد بھی حاصل کرتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں مزید بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

ایکسپریس: انگلینڈ کیخلاف سیریز میں کامیابی کیلیے کیا حکمت عملی اختیار کریںگے؟

اظہرعلی: انگلش ٹیم کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں کامیابی سے ہمارے کرکٹرز کو بڑا حوصلہ ملا ہے، ہمیں ایک طرح سے نفسیاتی برتری حاصل ہوگئی جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ون ڈے میچز میں بھی فتوحات کا تسلسل برقرار رکھنے کی کوشش کرینگے، حکمت عملی بڑی سادہ سی ہے کہ جارحانہ اور مثبت کرکٹ کھیلتے ہوئے زیادہ سے زیادہ رنز بنائے جائیں، ہماری بولنگ ایسی ہے کہ حریف کو بیک فٹ پر لاسکے، فیلڈرز کو بھرپور ساتھ دینا ہوگا، نوجوان کھلاڑی اچھے فیلڈرز بھی ہیں، امید ہے کہ ٹیسٹ سیریز کا دبائو ایک روزہ میچز میں بھی برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے تاہم کسی طور فتح کا یہ سفر آسان ہوگا، نہ کسی غفلت کے مظاہرے کی گنجائش ہوگی۔

ایکسپریس: کبھی ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کی خواہش بھی دل میں مچلتی ہے؟

اظہر علی: میرے خیال میں ہر کھلاڑی کو اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، کوئی کس فارمیٹ کیلیے موزوں اور ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اس کا فیصلہ سلیکٹرز پر چھوڑ دینا مناسب ہوگا، ہوسکتا ہے کہ میں کبھی خود کو ٹی ٹوئنٹی کا بھی اہل ثابت کرسکوں، فی الحال پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ون ڈے اور ٹیسٹ میں پرفارمنس سے اپنی افادیت ثابت کروں، البتہ میں موقع ملنے پر ضرور مختصر طرز کے میچز بھی کھیلنا چاہوں گا۔

ایکسپریس: مصباح الحق ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے چکے ہیں،اگرچہ انھوں نے فیصلہ فی الحال موخر کردیا لیکن اگر انھوں نے کھیل کو خیر باد کہہ دیا تو کیا آپ ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کا بوجھ بھی اٹھانے کیلیے تیار ہیں؟

اظہر علی: مصباح الحق نے مشکل وقت میں ٹیم کی قیادت سنبھال کر اسے عروج تک پہنچایا، ان کی اپنی کارکردگی اور فٹنس بھی دیگر کھلاڑیوں کیلیے مثال ہے، پی سی بی اور میں خود بھی چاہتا ہوں کہ وہ قیادت کا سلسلہ جاری رکھیں، پاکستان کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان کے ساتھ کھیل کر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے، اگر انھوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرلیا اور بورڈ نے مجھے اس ذمہ داری کا اہل سمجھا تو توقعات پر پورا اترنے کی پوری کوشش کروں گا۔

ایکسپریس:آپ کے کیریئر پر مصباح الحق کی بہت زیادہ چھاپ نظر آتی ہے، انھوں نے شروع سے ہی آپ کو بھرپور سپورٹ کیا، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

اظہر علی: مجھے صرف مصباح الحق ہی نہیں بلکہ یونس خان کی بھی بڑی رہنمائی حاصل رہی، دونوں نے سینئرز کے طور پر ہمیشہ نوجوانوں کا حوصلہ بڑھایا ہے، ٹیسٹ کپتان کے ساتھ اس حوالے سے بھی زیادہ تعلق رہاکہ ہم ایک ہی ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے ہیں، وہ میرے کھیل اور انداز کو سمجھتے اور اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے رہنمائی بھی کرتے ہیں، شکر گزار ہوں کہ انھوں نے کیریئر کے اچھے برے وقت میں سپورٹ کیا اور حقیقی سینئر پلیئر کا کردار ادا کیا ہے۔

ایکسپریس: ون ڈے کرکٹ میں اوپننگ کا تجربہ کیسا رہا، کیا اس سے اضافی دبائو کا شکار تو نہیں ہوتے؟

اظہر علی: میں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بطور اوپنر کھیلنے کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا، قومی ون ڈے ٹیم کا کپتان بنا تو خود کہا کہ اننگز کا آغاز کرنا چاہتا ہوں، اللہ کا شکر ہے کہ پرفارمنس اچھی رہی، مختلف کنڈیشنز میں نئی گیند کا سامنا واقعی ایک چیلنج ہوتا ہے تاہم اس سے لطف اندوز ہورہا ہوں، کوشش ہوتی ہے کہ اچھے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بناتے ہوئے بڑا اسکور کریں کیونکہ آج کی کرکٹ میں بڑے ہدف کا دفاع بھی بولرز کیلیے مشکل کام ہوگیا ہے۔

ایکسپریس: سعید اجمل ٹیم میں موجود نہیں، محمد حفیظ معطلی کے دور سے گزر رہے ہیں، کیا آپ باقاعدگی سے بولنگ شروع کریں گے؟

اظہر علی: قومی ٹیم میں شامل چند بیٹسمین اچھی بولنگ بھی کرسکتے ہیں، اس پہلو پر غور ہوتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر کسے بطورکارآمد ہتھیار استعمال کیا جائے، ون ڈے کرکٹ میں اضافی بولر کی موجودگی ہمیشہ ہی سود مند ہوتی ہے، میں خود کوبھی ایک آپشن کے طور پر دیکھتا ہوں، جہاں ضرورت ہو بولنگ کرسکتا ہوں، کسی بیٹسمین کو پریشان کرنے کیلیے بھی بولنگ کی تبدیلی موثر ثابت ہوسکتی ہے، فی الحال شعیب ملک موجود ہیں، فٹ ہوگئے توحارث سہیل کی خدمات بھی میسر ہوں گی، میں نے بطور لیگ اسپنر کرکٹ کا آغاز کیا تھا، میرا تجربہ ٹیم کے کام آسکتا ہے۔

ایکسپریس: بھارت کیخلاف سیریز خدشات کا شکار ہے، اگر ہوئی تو آپ کو بھی قیادت کا موقع ملے گا، اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟

اظہر علی: پاک بھارت مقابلے ہمیشہ ہی نہ صرف دونوں ممالک بلکہ دنیا بھر کے شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں، اگر یو اے ای میں باہمی مقابلوں کا انعقاد ہوجائے تو بڑی اچھی بات ہوگی، ہمارے کھلاڑی تو روایتی حریف کیخلاف میچز کیلیے بے تاب ہیں، دیکھتے ہیں اس حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

ایکسپریس: انگلینڈ کے خلاف ابتدائی دو ٹیسٹ میں آپ شرکت نہ کر سکے افسوس تو ہوا ہوگا؟

اظہر علی: دورئہ زمبابوے کے دوران میں فٹنس مسائل کا شکار ہوا تھا ، یہ مسئلہ یو اے ای میں بھی درپیش رہا ، پھر فٹ ہوا تو نجی مسئلے کی وجہ سے وطن واپس جانا پڑا، اسی لیے ابتدائی دونوں ٹیسٹ نہ کھیل سکا، مگر یہ سب کچھ کھیل کا حصہ ہے، کبھی کبھی آپ کو باہر بھی بیٹھنا پڑتا ہے۔

ایکسپریس: بطور اوپنر تیسرے ٹیسٹ میں آپ کامیاب ثابت نہ ہوئے کیا اس طرز میں اننگز کا آغاز کرتے ہوئے اطمینان محسوس نہیں کرتے؟

اظہر علی: ابھی صرف ایک ہی ٹیسٹ میں اوپننگ کی ہے لہذا کوئی اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا، میرے لیے ٹیم سب سے اہم ہے، اسی کی ضرورت کے مطابق کھیلتا ہوں، شارجہ میں اوپننگ میں ہی جگہ خالی تھی اس لیے کھیلنے کو تیار ہو گیا، آئندہ بھی ٹیم کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے کسی بھی پوزیشن پر کھیلوں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں