ایک ظلم کرتا ہے ایک ظلم سہتا ہے
اللہ نے جب دنیا بنائی اور مٹی کا پتلا بنایا تو شیطان اپنے تئیں بڑے مضبوط عقیدے کے ساتھ اللہ کے سامنے ڈٹ گیا
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں تشریف لائے۔ ان کے پاس رب کی طرف سے کچھ تقاضے تھے جو انھوں نے دنیا والوں کے سامنے رکھے اور کہا ''انھیں پورا کرو اور فلاح پاؤ۔'' تقاضے کیا تھے! یہی کہ محبت کرو، انصاف کرو اور بس۔
اللہ نے جب دنیا بنائی اور مٹی کا پتلا بنایا تو شیطان اپنے تئیں بڑے مضبوط عقیدے کے ساتھ اللہ کے سامنے ڈٹ گیا اور بولا ''یہ فساد کی جگہ نہ بنائیں، یہ مٹی کے پتلے آپ کی دنیا میں بڑے بڑے فتنے تراشیں گے، ظلم کی انتہائیں کردیں گے'' مگر اللہ نے شیطان کو رد کردیا اور اس سے کہا ''یہ مٹی کے پتلے میری دنیا میں میرے نائب ہوں گے اور جو میرے تقاضے پورے کریں گے، وہی کامیاب ٹھہریں گے۔ دنیا امتحان گاہ ہوگی، جہاں مخصوص مدت گزار کر میرے نائبین کو میری طرف لوٹنا ہوگا۔''
اللہ قادر نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے علاوہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے نیک بندے اس دنیا میں آئے، وہ بھی آئے جو وحدانیت کے منکر تھے اور وہ بھی جو سرے سے اللہ کے وجود کے انکاری ہیں! مگر ان سب نے جو جو تقاضے دنیا والوں کے سامنے رکھے وہ محبت و بھائی چارے ہی کے تھے۔
مگر مٹی کے پتلوں نے کسی کی نہ سنی، نہ مانی۔ تقاضا تھا ''یہ جہان سانجھا ہے'' مٹی کے پتلوں نے کہا ''نہیں انصاف سب کے لیے '' جواب آیا نہیں بلکہ جو انصاف مانگے گا قتل کردیں گے۔
دنیا والوں نے تمام پیغمبروں، اوتاروں، نیک بندوں کو ان کے تقاضوں سمیت لپیٹ دیا اور ۔۔۔۔ اور پتا نہیں اب تک یہاں چھوٹی بڑی کتنی قیامتیں گزر چکیں۔ ؎
تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں اور آج!
آج تو روز ایک قیامت کا سامنا ہے
نصرت صدیقی کے نئے شعری مجموعے کا نام ''تقاضے'' ہے۔ نصرت صدیقی کے تین شعری مجموعے پہلے سے موجود ہیں۔ میں نے تقاضے کو کھولا، پڑھا تو مجھے اللہ کے تقاضوں کی دھجیاں بکھری نظر آئیں۔ نصرت صدیقی نے ظلم اور ناانصافی کو جو شاعری بنایا ہے۔ یہ کام بہت سے شاعر پہلے بھی کرچکے ہیں۔ نصرت صدیقی تو فقط اپنا اندراج اس گھرانے میں کروانا چاہتا ہے جو ظلم کرتا نہیں، ظلم سہتا ہے۔
ظالم و مظلوم یہی دو طبقے شروع سے موجود ہیں، اور رہیں گے۔ نصرت صدیقی جب سوال اٹھاتا ہے:
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے؟
تو وہ خود اپنے گھرانے کا انتخاب کرچکا ہوتا ہے۔ میں یہ بھی کہتا چلوں کہ اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے۔ نصرت صدیقی کے اس سفر کو تیز رفتار پہیے لگے ہوئے تھے سو یہ شعر دور دور تک پھیلا۔ بڑے شعر کی ایک یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ نہایت سادگی کے ساتھ کہہ دیا جائے اور سننے والے کے دل میں اترتا چلا جائے۔ خاطر غزنوی سے معذرت کے ساتھ خاطر کا مصرعہ تصرف کے بعد نذر نصرت ''اس سے پہلے ہر گلی میں اس کے افسانے گئے''۔
نصرت صدیقی زمین کا آدمی ہے اور زمین پر بسنے والے مجبوروں، مقہوروں کے بارے میں سوچتا ہے، لکھتا ہے۔ وہ دل و جان سے چاہتا ہے کہ سانجھے وسائل پر قابضین کا قبضہ ختم کیا جائے۔ وہ کہیں آنکھوں میں آنسو دیکھتا ہے تو اس کا دل بھر آتا ہے، وہ سوال اٹھاتا ہے:
یہ کون ہے جو انھیں کھیلنے نہیں دیتا
یہ کمسنی میں جو روزی کمانے لگتے ہیں
نصرت صدیقی نے بٹوارے میں جیسا بھی گھر تھا چھوڑ کر ''حصار'' (روہتک حصار) سے ہجرت کی تھی، پتا نہیں تھا، آگے ایک نیا حصار ہے۔ جہاں اپنے خرچ پر قید رہنا ہوگا۔ نئے حصار میں آکر نصرت نے کہا:
ان کی خاطر دعائیں مانگی تھیں!
ایسے ہوئے ہیں دن رہائی کے!
شاعر غریب بستیوں کے کچے، نیم پکے مکانوں میں پلنے والے غموں کو جانتا ہے، ان ہی کچے راستوں اور گلیوں میں اس کی صحبتیں ہوتی ہیں، دوپہر، شام اور پھر رات اتر آتی ہے۔ وہ جانتا ہے، اس نے دیکھا ہے اس نے واقعے کو شعر بنایا ہے۔
وہ ہنستے کھیلتے بچے رُلا کر چھوڑ جاتا ہے
غبارے بیچنے والا گلی میں روز آتا ہے
بلاتمہید و بیان ایک اور شعر دیکھیے:
کچے گھروں میں رہتے ہیں شاید اسی لیے
سہمے ہوئے سے رہتے ہیں کالی گھٹا سے ہم
اللہ کی زمین پر ظالم قابض ہیں اور اس مکروہ فعل کا الزام اللہ پر لگاتے ہیں کہ یہ زمین انھیں اللہ نے دی ہے ''وہی فرسودہ بہانے'' غریب زمیندار کب اور کیسے بنتا ہے۔ نصرت صدیقی کہتے ہیں:
تدفین کے لیے ہی سہی مل گئی زمین
مر کر غریب لوگ زمیندار ہوگئے
تیس چالیس سال ہوگئے ہم یہ بربریت بھی دیکھ رہے ہیں ہائے! کیسے کیسے نیک لوگ بدمعاشوں نے مار ڈالے۔ نصرت نے بھی لکھا ہے:
ہوتا ہے روز ہم سے نہتوں کا سامنا
کسی نے درندے چھوڑ دیے ہیں گلی گلی
بھائی نصرت! ایک ہی مجرم زمانہ ہے جس پہ الزام تک نہیں آتا، یہ درندے اسی کے کارندے ہیں۔''
''ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے'' اس تماشے کا ذکر بھی نصرت نے کیا ہے:
کھڑے ہوجاتے ہیں سب علم و حکمت والے تعظیماً
کہیں جب صاحبِ ثروت کوئی تشریف لاتا ہے
نصرت ہی کا ایک شعر اور:
بہت سستے میں انساں بک رہے ہیں
ہمارے ہاں تو مہنگائی نہیں ہے
بھائی نصرت! جو تم نے شاعری کی ہے میں وہی بیان کر رہا ہوں تمہاری کڑھائی میں، میں اپنا ''لچ'' ہرگز نہیں تل رہا۔
چھوڑ مرے یار اب لائل پور کی بات کرتے ہیں۔ نصرت صدیقی حصار سے لائل پور آیا تھا۔ میں اس لائل پور کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جو ابھی فیصل آباد نہیں بنا تھا۔ اسی رومان پرور شہر میں لدھیانے سے م۔حسن لطیفی بھی آئے تھے۔ان کا مشہور زمانہ شعر سن لیں:
وابستہ مری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا کہ تم نے فراموش کردیا
اسی لائل پور میں بڑا شاعر احمد ریاض بھی روزانہ چک جھمرے سے آتا تھا ۔ اخبار ''غریب'' کی ایڈیٹری ان کے ذمے تھی۔ حبیب جالب نے اپنا پہلا شعری مجموعہ برگِ آوارہ انھی احمد ریاض کے نام کیا تھا۔ اور خود جالب کا دل بھی اسی شہر میں آباد تھا، ''لائل پور اک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد'' احمد ریاض اس زمانے کے لاعلاج مرض ٹی بی کا شکار ہوگئے اور جواں عمری ہی میں مرگئے۔ فتح محمد کی جہانگیر مرغ پلاؤ کی دکان مارکسٹ ادیبوں شاعروں کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ فیض، ساحر، احمد ندیم قاسمی، حمید اختر، احمد بشیر، حبیب جالب ودیگر کی لائل پور میں فتح محمد میزبانی کرتے تھے۔ بخش لائلپوری نے اسی نام کے ساتھ دنیا چھوڑی۔ اپنے حسن نثار بھی لائل پوری کہلاتے ہیں۔ لائل پور ایک علیحدہ موضوع ہے۔
فی الوقت نصرت صدیقی! آپ کے لیے ڈھیروں دعائیں ''رنگ رکھنا یونہی اپنا' اسی صورت لکھنا''
(مضمون 29 اکتوبر 2015 کی شام، آرٹس کونسل کراچی میں پڑھا گیا۔)