موجودہ حالات اوراقبال کے نظریات

9 نومبر شاعر مشرق، مصور پاکستان، حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا یوم پیدائش ہے

9 نومبر شاعر مشرق، مصور پاکستان، حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا یوم پیدائش ہے۔ علامہ اقبالؒ علم و حکمت کا ایک روشن چراغ ہیں، جسے ہم برصغیر میں دانشوری کی نئی روایت کا نقطہ عروج بھی کہہ سکتے ہیں۔ دانشوری کی اس نئی روایت کا آغاز اس دور میں ہوا، جب ہم عمل میں لکیر کے فقیر تھے، ماضی کے اندھیروں میں بے عملی کی چادر اوڑھے گہری نیند سونا ہمارا شعار ہوگیا، سرسید احمد خان نے ہمیں خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی تو ہم نے آنکھیں کھول کر انھیں دیکھا، لیکن خواب کی لذت ہمیں اس قدر عزیز تھی کہ ہم سوچنے کے عوض بیداری کی مشقت کیوں مول لیتے، لیکن بیداری کا نقیب بھی اپنی دھن کا پکا تھا اور چیخ چیخ کر لوگوں کو بیدارکرتا رہا، نیند بھی تو ایسی نیند تھی کہ اس کو ٹوٹنے میں مدت درکار تھی۔ یہ علامہ اقبالؒ کی آمد تک جاکر پوری ہوتی محسوس ہوتی ہے۔

علامہ اقبالؒ نے اپنی قوم کی بدحالی کو دیکھا، اس کے اسباب کو دریافت کرنے میں پورے انہماک سے کام لیا۔ علامہ اقبالؒ کی زندگی پر بہت سی کتابیں ہیں، جن کے تناظر میں آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہی مسائل اور وہی حالات مسلمانوں اور بالخصوص ہم پاکستانیوں کے آج بھی قائم ودائم ہیں جو سو سال پہلے تھے۔ ہمیں علامہ اقبالؒ کی فکر، خودی اور رہنمائی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ سو سال پہلے تھی۔ ان کی زندگی میں مسلمانوں کے جو حالات زندگی تھے، اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی شاعری کو محور بنایا، وہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا انھیں ادراک بھی تھا، تدارک بھی چاہتے تھے اور دکھ بھی رکھتے تھے ۔

علامہ اقبالؒ کے نزدیک مسلمانوں کی زبوں حالی کی ساری وجہ مسلمانوں کا دین سے بے بہرہ ہونا ہے، بے عمل ہونا ہے، اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن اس میں عمل اور اسلامی اوصاف برائے نام ہوتے ہیں، یہی صورت حال ہمارے موجودہ دور میں بھی نظر آتی ہے، علامہ کے نزدیک یقین، عمل اور محبت تعمیر خودی کے لازمی اجزاء ہیں، خودی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ''اللہ نے انسان کو بے شمار امکانات کے ساتھ پیدا کیا اور ان امکانات میں اس کی تقدیر پوشیدہ ہوتی ہے، ان امکانات کو بروئے کار لاکر وہ اپنی تقدیر بناتا ہے۔

انھوں نے خودی کو اس کائنات کی بنیادی حقیقت کہا ہے جس کو ہم ذہن اور شعور سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں جہاں جہاں ذہن باشعور موجود ہے وہاں وہاں زندگی موجود ہے، لیکن اس سلسلے میں یہ فرق ضرور ذہن نشین رہنا چاہیے کہ انسان خودی سے آگاہ اور حیوان اس سے محروم ہوتا ہے۔ اس لیے علامہ فرماتے ہیں کہ جب انسان اس حقیقت کو فراموش کر ڈالتا ہے تو کائنات کی اشیاء اس کی حاکم بن جاتی ہیں اور ان کے حصول کے لیے خود کو گنوانے پر مجبور ہوجاتا اور بھول جاتا ہے کہ یہ سب اس کی عظمتوں کے آگے کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتیں۔ علامہ اقبالؒ نے خودی کے لیے زندگی اور حیا ت کا لفظ استعمال کیا ہے، یہی کچھ آج کے دور میں بھی ہورہا ہے کہ ہم محنت اور دیانت کو پس پشت ڈال کر اپنے قومی وقار کو ختم کرکے دوسروں کے آگے بھیک مانگنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ ہمارا ملک وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔

علامہ اقبالؒ نے اجماع اور اجتہاد پر بھی بہت زور دیا ہے، ان کے نزدیک علما، سیاسی رہنما، قانونی ماہرین کے علاوہ مختلف علوم وفنون اور شعبہ ہائے زندگی کے افراد جمع ہو کر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، مگر قیام پاکستان کے بعد ہم ہر شعبے میں زوال پذیری کا شکار ہوتے گئے، جس طرح ہمارے سب سے بڑے ادارے کو جہاں سے تمام فیصلے تشکیل دیے جانے تھے، عوامی نمایندوں کو منتخب ہوکر جو کردار ادا کرنا تھا، وہ اپنے فرائض سے منحرف ہو کر ذاتی اغراض کی دوڑ میں شامل ہوگئے، جس طرح جمہوریت کی مٹی پلید ہوئی ہے اور ارا کین اسمبلی جس طرح جاہ طلبی، خودغرضی اور خردبازاری میں مبتلا رہے ہیں، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔


ہمارے حکمراں اور بیورو کریسی خواہ منتخب ہو کر آئیں یا غضب کے راستے سے آئیں، انھوں نے لوٹ کھسوٹ اور فضول خرچی کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں، جس طرح سرکاری وسائل بڑے پیمانے پر ہڑپ یا ضایع کیے جاتے ہیں، علامہ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو ہماری قانون ساز اسمبلیوں کی ایسی افسوس ناک کارکردگی دیکھ کر سخت مایوس ہوتے۔ موجودہ حالت میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی اور کر پشن ہے جو ہر سطح پر موجود ہے۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی، مکر وفریب کا کاروبار جس عروج پر ہے، امراء اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے محافظین کا دستہ لیے پھرتے ہیں، عوام کی جان و مال کی فکر کون کرے، یہ غریب مخلوق کبھی آتشزدگی، کبھی ٹارگٹ کلنگ اور خودکش بم دھماکے میں اپنی جان گنوا رہی ہے۔ زندگی کی حقیقت اس کے معنی اور سیاسی حالت پر نظر ڈالنے کے بعد علامہ اقبال مسلمانوں کی زبوں حالی کی تصویر کھینچتے ہوئے کہتے ہیں۔

ہوگیا مانند آب ارزاں مسلمانوں کا لہو
مست تو ہے کہ تیرا دل نہیں دانا راز

ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کی نوعیت اور حقیقت یہ نہیں کہ لوگ بے رحم اور سفاک ہوگئے ہیں اور قتل و غارت گری ان کی فطرت کا تقاضا بن گئی ہے، بلکہ اس کے پس پردہ جاگیردارانہ نظام اور مراعات یافتہ طبقے کے اپنے مفادات ہیں جن کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ طبقہ خود ایسے حالات پیدا کرتا ہے، جن کا لازمی نتیجہ تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جاگیردارانہ نظام حکومت کی سختی سے مخالفت اقبالؒ کی فکر میں نظر آتی ہے۔ اقبالؒ انسان کی انسان پر حکمرانی کو کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیتا، اپنی نظم ''طلوع اسلام'' میں کہتے ہیں۔

ابھی تک آدمی پہ زبوں شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انسانی نوع انسان کا شکاری ہے

علامہ اقبالؒ مغربی نظام کی فریب کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہل مغرب خواہ کتنے ہی بڑے بڑے دعوے کیوں نہ کریں لیکن اس میں شک نہیں کہ مراعات یافتہ طبقہ طاقت کا ناروا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ آج کے تناظر میں اقبال ہوتے تو کیا کرتے، یہ ایک الگ بحث ہے مگر واضح بات یہ ہے کہ ان کی شاعری زندہ اور مستحکم شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اسلامی بصیرت پر مبنی فکر اقبال ہماری بہترین رہنمائی کرسکتی ہے کیونکہ سو سال پہلے مسلمانوں کو کامیابی کے لیے جو نسخہ اقبالؒ اپنی شاعری کی صورت میں دے گئے وہ ہمارے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ ہم آج بھی انھی مسائل میں گھری ہوئی قوم ہیں اور ہماری نجات علامہ اقبالؒ کے افکار میں پنہاں ہے، بس اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story