استدلال اور استفسار
ٹی وی مباحثوں میں بعض اوقات میزبان نازک سوالات چھیڑتے ہیں۔
ٹی وی مباحثوں میں بعض اوقات میزبان نازک سوالات چھیڑتے ہیں۔ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے نقطہ نظر کو مناسب سمجھتا ہے۔ مختلف خیالات رکھنے والے ایک دوسرے پر طنز کرتے ہیں تو کبھی چبھتے ہوئے جملے کستے ہیں۔ کبھی کوئی کسی کو بھولا بادشاہ کہتا ہے تو کوئی اپنے مخالف کو ''چوری اوپر سینہ زوری'' جیسا محاورہ طنزاً کہہ جاتا ہے۔ کبھی ناراض ہونے والا مہمان پروگرام کے درمیان سے ناراض ہوکر چلا جاتا ہے۔ جب میزبان وقفے کا اعلان کردیتا ہے تو ناظرین میں تجسس ہوتا ہے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے؟
مباحثے کا عنوان زلزلہ تھا اور دونوں مہمانوں کی گفتگو سے واقعی اسٹوڈیو میں بھونچال آگیا تھا۔ ایک کی رائے تھی کہ یہ سب کچھ سائنسی بنیادوں پر ہوتا ہے تو دوسرے کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ماڈرن مہمان بہت تیز تھے تو مولانا بھی کسی سے کم نہ تھے۔ ایک کا علم مشرق و مغرب کا احاطہ کرتا تھا تو دوسرے کا علم بھی سوا نیزے پر تھا۔ یہ سب کچھ دس سال پہلے آنے والے زلزلے میں نہ تھا۔ پوری قوم امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھی۔ اب تو ملا اور مغرب زدہ کی بھپتیاں کسی جاتیں ہیں تو کولہو کا بیل اور کنوئیں کا مینڈک جیسے محاورے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ زلزلوں کی شدت کم ہے۔ یہ سب کچھ ایک عشرے قبل آنے والے زلزلوں کے دوران نہیں ہوتا تھا۔ اربوں کے نقصان اور لاکھ کے لگ بھگ جانوں کے نقصان نے پوری قوم کو یکسو کردیا تھا۔ تمام لوگ 2005 کے زلزلوں سے سہم گئے تھے اور ایسی ''ذہنی عیاشی'' قسم کے بحث و مباحثوں کا کوئی موقع نہ تھا۔
صدی کا پانچواں برس تھا تو ٹی وی چینل بھی نئے نئے آئے تھے۔ اب جب ایک عشرے بعد زلزلہ آیا تو اس کے نقصانات کی شدت کم ہے۔ کہا گیا کہ یہ زمین تو کم لرزی لیکن پاکستان کا میڈیا زیادہ لرز گیا۔ نقصان کی اس کم شدت نے اس قسم کی بحث چھیڑی ہے۔ زلزلوں کو عذاب الٰہی قرار دینے کے جواب میں کہا گیا کہ بھونچال تو سمندروں میں آتے ہیں تو کیا مچھلیاں اور آبی مخلوق بھی کرپشن، بے حیائی، زنا، چوری اور بدکاری میں مبتلا ہیں؟ ہماری دنیا میں جب بڑی مچھلیاں کچھ زیادہ ہی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں تو بھونچال آتے ہیں۔
عذاب کی پراڈکٹ بیچنے کے طنز کے جواب میں طعنہ دیا گیا کہ آپ کے دلائل ہیں کذاب کے۔ گفتگو کی ابتدا ملائیشیا کے پہاڑوں پر غیر ملکی سیاحوں کی ننگ دھڑنگ تصاویر سے ہوئی۔ زلزلہ آیا تو مقامی لوگوں نے اس کا سبب سیاحوں کی برہنگی کو قرار دیا۔ متبرک مقام پر صرف انڈر ویئر پہن کر تصاویر کھنچوانے کی نامعقول حرکت کے سبب عمارتیں گرگئیں اور اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے۔ چار غیر ملکیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ماڈرن مہمان کی دلیل تھی کہ عذاب سیاحوں پر کیوں نہ ٹوٹا۔ مرنے والے تو ملائیشیا کے غریب غربا تھے۔ مولانا نے جواب دیا کہ سیاحوں کی گرفتاری ان کے لیے عذاب نہیں تو پھر کیا ہے؟ گھومنے پھرنے کے لیے جانے والا پکڑا جائے تو یہ کیا ہے؟ تفریح کے لیے جانے والے کو گرفتاری کے بعد عدالتیں و مقدمات بھگتنے پڑیں تو یہ چار سیاحوں کے لیے عذاب نہیں تو پھر کیا تھا؟
ماڈرن مہمان نے دوسری دلیل امریکا کی دی۔ سمندری طوفان شروع ہوا تو چرچ نے متنبہ کیا کہ یہ سب سیاہ کاریوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اب بھی سدھر جاؤ تاکہ تم پر عذاب نازل نہ ہو۔ عقلمند امریکیوں نے پادری کی بات ماننے کے بجائے طوفان کی آمد کا کھوج لگایا اور تدابیر اختیار کرکے 45 ارب ڈالر کے نقصان کو کم کیا۔ اب میزبان نے مولانا سے پوچھا کہ آپ اس دلیل کے جواب میں کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مذہب تدابیر اختیار کرنے کی ممانعت نہیں کرتا۔ پہلے اونٹ کو باندھنے اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اگر تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ بے حیائی، فحاشی اور شراب نوشی سے پرہیز کرلیا جائے تو ماڈرن لوگوں کو کیا اعتراض ہے۔ اس طرح کئی درجن بلکہ سیکڑوں 45 ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ ماڈرن مہمان نے کہا کہ تقدیر پر مکمل بھروسہ کرنے کے بجائے تدبیر بھی اختیار کرنی چاہیے۔ مولانا نے کہا کہ بھولے بادشاہ! آپ سے کس نے کہہ دیا کہ مذہب تدبیر اختیار کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔ بھولے بادشاہ کہنے پر ماڈرن مہمان ناراض ہوگئے۔ انھوں نے مولانا کو وارننگ دی کہ آیندہ ایسے الفاظ سے اجتناب کریں۔
میزبان نے صورتحال کو سنبھالتے ہوئے مولانا سے پوچھا کہ زلزلے تو ان مقامات پر بھی آتے ہیں جہاں آبادیاں نہیں ہوتیں۔ آتش فشاں وہاں بھی آگ اگلتے ہیں جہاں انسانوں کا وجود بھی نہیں ہوتا۔ پھر مذہبی طبقہ کیوں لوگوں کو ڈراتا ہے کہ وہ گناہ چھوڑ کر سدھر جائیں؟ مولانا نے کہا کہ اگر اسی طرح انسان اسے قدرت کی وارننگ سمجھ کر سدھر جائے اور انسانوں پر ظلم کرنا بند کردے تو اس میں کیا برائی ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ امیر آدمی صدقہ خیرات کرکے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتا ہے۔ اس طرح دولت کا بہاؤ غریبوں کی طرف ہوجاتا ہے۔ استدلال ضرور ہو لیکن استغفار بھی ہوجائے تو کیا برائی ہے۔ مولانا نے مثال دی کہ جب دوسری جنگ عظیم میں چرچل سے پوچھا گیا کہ برطانیہ یہ جنگ جیت جائے گا؟ وزیراعظم نے سوال کا جواب دینے کے بجائے سوال کیا کہ کیا انگلینڈ کی عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے؟ جب ایک اچھے کام کا نتیجہ اچھا ہوسکتا ہے تو مذہب کے معاملات میں اس دلیل سے آپ کو کیا اعتراض ہے۔ حضرت عمرؓ نے زلزلہ آنے پر زمین پر لاٹھی مار کر پوچھا تھا کہ کیا عمر تجھ پر انصاف نہیں کرتا۔
ٹی وی میزبان کا رخ اب ماڈرن مہمان کی طرف تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو توبہ تائب ہونے پر کوئی اعتراض ہے؟ ماڈرن مہمان نے بڑی جانثاری سے کہا کہ استغفار اور استدلال میں کوئی تضاد نہیں۔ دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے جنھیں آپس میں گڈ مڈ کرنا پرلے درجے کی لاعلمی اور بے خبری کے سوا کچھ نہیں۔ ماڈرن مہمان کے اس جواب پر مولانا نے کہا کہ اب تو بات ہی ختم ہوگئی۔ یہ صاحب تو میری دلیل کے قائل ہوگئے۔ ہمیں عذاب اور کذاب جیسی باتیں کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ انسانوں کو کسی بھی حوالے سے بہتری کی طرف بلایا جائے تو اس میں انسانیت کا فائدہ ہے۔ میزبان نے خوشگوار لہجے میں کہا کہ دونوں مہمانوں کا اتفاق ہے کہ کوئی تضاد نہیں استدلال اور استغفار میں۔