جو بھی میئر کراچی آیا وہ بے اختیار ہوگا تمام اختیارات وزیر اعلیٰ کے پاس ہوں گے

بلدیاتی انتخابات کی مہم میں قائدین تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں تو سیاسی کارکن دست و گریباں نہیں ہوں گے

کراچی میں بلدیاتی انتخابات اور اپنے منشور کے حوالے سے سیاسی رہنماؤں کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

ISLAMABAD:
طویل انتظار کے بعد سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا موسم آگیا ہے، پہلے مرحلے کی سیاسی معرکہ آرائی کے بعد اب تمام سیاسی جماعتوں اور تجزیہ نگاروں کی نظریں 19 نومبر پر لگی ہوئی ہیں جب دونوں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے مختلف اضلاع میں پولنگ ہوگی اور عوام اپنے گلی محلوں اور علاقوں کی ترقی، بنیادی سہولتوں کے حصول اپنے مسائل کے حل کی امید کے ساتھ اپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کریں گے۔ بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ اسی سال 5 دسمبر کو ہوگا جب کراچی میں بھی شہری حکومت کے قیام کے لیے ووٹنگ ہوگی۔

ملک کے سب سے بڑے شہر اور عروس البلاد کہلائے جانے والے کراچی کے بلدیاتی انتخابات پر ہر ایک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ تجزیہ نگار اور مبصرین اپنے لحاظ سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے اپنی آرا پیش کررہے ہیں۔ ہر ایک متجسس بھی ہے اور سب جاننا بھی چاہتے ہیں کہ عبدالستار افغانی، ڈاکٹر فاروق ستار، نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کے بعد اب کون ناظم کراچی یا میئر کراچی بنتا ہے؟، اس سوال کا جواب تو الیکشن کے نتائج کے بعد ہی ملے گا تاہم شہر کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس حوالے سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ ہر جماعت گلی محلوں میں جاکر شہریوں سے بات کررہی ہے اور اپنے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگ رہی ہے۔ دعوے بھی کیے جارہے ہیں اور دوسروں پر تنقید بھی ہورہی ہے، جیسے جیسے 5 دسمبر کی تاریخ قریب آرہی ہے، سیاسی گرماگرمی اور انتخابی گہماگہمی بڑھتی جارہی ہے۔

کراچی میں نمایاں طور پر سرگرم سیاسی جماعتوں کا بلدیاتی نظام کے حوالے سے کیا کہنا ہے؟، بلدیاتی انتخابات میں شہریوں کے لیے ان کے پاس کیا منشورہے؟ ، اس اہم مقابلے کے لیے اُن کی کیا تیاری ہے؟ ۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے مسائل کے حل کے لیے وہ کتنا تیار ہیں؟ اور کیا عروس البلاد کراچی میں امن و امان کے ساتھ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوپائے گا؟ یہ اور ایسے ہی کئی سوالات کے جواب جاننے کیلیے کراچی میں ''ایکسپریس فورم '' کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے بات کی گئی۔ فورم کے شرکا میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) کے رکن سندھ اسمبلی خالد احمد، پاکستان پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے صدر نجمی عالم، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن اور پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی حفیظ الدین شامل تھے۔ تمام رہنماؤں نے اپنے پارٹی منشور اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو گفتگو کی وہ نذر قارئین ہے۔

٭ نجمی عالم (صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن)

کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اور مسائل کو حل کرنا بلدیاتی اداروں کی حدود سے باہر ہورہاہے ۔اس لیے سندھ حکومت مسائل کے حل کے لیے نئے ادارے قائم کررہی ہے اور اس لیے سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کا ادارہ قائم کیا گیا ہے تاکہ ایک جانب صفائی کا نظام بہتر ہوسکے تو دوسری جانب اس کچرے کو ری سائیکل کرکے اس سے کارآمد اشیا حاصل کی جاسکیں ۔انھوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ پورے صوبے میں بلڈنگ کی تعمیر کیلیے یکساں قوانین ہوں ۔ماضی میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ادارہ ترقیات کراچی کے بلڈنگ تعمیر کے قوانین الگ الگ تھے جس سے مسائل پیداہوئے ،اس لیے صوبائی سطح پرخود مختار ادارہ قائم کیا گیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ آمروں کے دور میں جو بلدیاتی نظام قائم کیے گئے وہ ان کی شخصیت کو مضبوط بنانے کے لیے تھے، اس نظام سے سیاسی جماعتوں کو الگ رکھا گیا جس کی وجہ سے سیاسی نظام کمزور ہوا۔آمروں نے بلدیاتی نظام کے ذریعے سیاسی نظام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے ۔ نجمی عالم کا کہنا تھا کہ واٹربورڈ میئر کراچی کے ماتحت ہونا چاہیے ،اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ سے بات کریں گے تاکہ میئر کی نگرانی میں کراچی شہر کے سیوریج اور پانی کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔

نجمی عالم نے کہا کہ ذوالفقار مرزا کی اپنی سیاسی سوچ ہے، اگر وہ کہتے ہیں کہ انتخابی میں سو بندے ماردوں گا تو وہ ماربھی سکتے ہیں ۔ذوالفقار مرزا نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو لیاری گینگ وار کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کیں لیکن جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے لیاری آپریشن شروع کیا تو وہ پارٹی سے الگ ہوگئے تھے ۔ذوالفقار مرزا ہر وقت لڑائی جھگڑے کی بات کرتے ہیں لیکن سندھ حکومت قانون کی حکمرانی کی بات کرتی ہے ۔ہم صوبے میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں امن و امان کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ پرامن انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کا ساتھ دیں ۔انتخابی مہم میں اشتعال انگیز تقاریر سے گریز کیا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان پر زور دیں کہ وہ پرامن الیکشن کے انعقاد کے لیے بھائی چارے کا مظاہرہ کریں اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

انھوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے کراچی کے لیے مشینری کو ڈیوٹی فری قرار دیدیاتھا، ابھی بھی کراچی میں جو پروجیکٹس چل رہے ہیں وہ سندھ حکومت کی فنڈنگ سے جاری ہیں، پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی کے لیے 150ارب روپے کا پیکیج دیا ہے۔ شہر میں جو بھی میئر آئے گا اسی پیکیج اور دیگر وسائل کے مطابق شہر کی ترقی کے لیے کام کرے گا۔ کراچی کے میگا پروجیکٹ کے لیے وفاق فنڈز فراہم نہیں کررہا ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ کراچی ترقی کرے ۔ پیپلزپارٹی نے بہتر بلدیاتی نظام دینے کی کوشش کی ہے، اب 5دسمبر کو تیسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام فیصلہ کریں گے وہ کس کو منتخب کرتے ہیں ۔انھوں نے سانحہ خیر پور کی مذمت کی اور کہا کہ کسی ایک شخص کی بھی جان نہیں جانی چاہیے، اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے تمام اداروں اور جماعتوں کو بھی مل کر کام کرنا ہوگا، سیکیورٹی صرف انتظامیہ کی ذمے داری نہیں ۔ آئندہ مراحل کے لیے مزید موثر اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ جو کمی پہلے رہ گئی تھی وہ دور کرکے پُر امن انتخابات کو یقینی بنایا جاسکے۔

٭ خالد احمد (رکن سندھ اسمبلی، رہنما ایم کیو ایم)

بدقسمتی سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001میں اتنی ترامیم کردی گئی ہیں جس کی وجہ سے میئر اور دیگر عوامی نمائندوں کے اختیارات کم ہوگئے ہیں ۔اس وقت عوامی نمائندوں کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔موجودہ صورتحال میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ جو بھی میئر بنے گا وہ تمام معاملات میں وزیر اعلیٰ کا محتاج ہوگا، ہر مسئلے پر اُسے وزیر اعلیٰ کی منظوری لینی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پرامن بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر یقین رکھتی ہے ۔کے ایم سی کی حدود میں کراچی کا صرف 34 فیصد حصہ آتا ہے باقی حصہ کنٹونمنٹ بورڈ،کے پی ٹی،اسٹیل مل اور دیگر اداروں کے پاس ہے ۔ اختیارات میں کمی کی وجہ سے میئر کراچی کے پاس جو 34فیصد اختیارات ہوتے تھے وہ بھی اب 14فیصد رہ گئے ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہ دینا آئین کے آرٹیکل 148کی خلاف ورزی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے پاس انتظامی اور مالی اختیارات ہونا چاہئیں ۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے کسی نہ کسی دور میں کراچی میں کام کیا ہے، تحریک انصاف کا کوئی ریکارڈ اس لیے نہیں ہے کہ کیونکہ انھوں نے ماضی میں عوام کی خدمت ہی نہیں کی ہے۔


عوام جانتے ہیں کہ ان کی حکومت خیبرپختونخوا میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔ خالد احمد کا کہنا تھا کہ موجودہ بلدیاتی نظام میں جو قانون سازی کی گئی ہے اس میں جو خامیاں ہیں، ہم نے اسمبلی کی سطح پر ان کی بھرپور نشاندہی کی ہے اور عدالتوں سے بھی رجوع کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن میں ذاتیات کی سیاست نہیں ہونی چاہیے تمام جماعتیں تحمل اور برداشت سے انتخابات میں حصہ لیں تاکہ پرامن ماحول میں انتخابات کا انعقاد ہوسکے ۔ میئر کراچی اور عوامی نمائندوں کو اختیارا ت ملنے چاہئیں ۔صوبوں کے ساتھ ساتھ ضلعی اور یونین کمیٹیوں کی سطح پر بھی مالیاتی کمیشن قائم ہونے چاہئیں اور اس کے لیے ہم سب کو مل کر بلدیہ عظمیٰ کراچی میں بات کرنی چاہیے۔ ادارہ ترقیات لیاری،ادارہ ترقیات ملیر اور دیگر عوامی اداروں کو دوبارہ کے ایم سی میں شامل کیا جائے۔

رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ ماضی میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات جیت کر عوام کی خدمت کی ہے اور 2005کے بعد ایم کیو ایم نے کراچی کی نظامت سنبھالی تو ہم نے بڑے ترقیاتی پروجیکٹس کراچی میں مکمل کیے جس کا اعتراف یواین ڈی پی نے بھی اپنی رپورٹ میں کیا ہے ۔ 5دسمبر کو بھی کراچی کے عوام ایم کیو ایم کو کامیاب کریں گے اور ایم کیو ایم کراچی کے عوام کے مسائل کے حل اور امن و امان کے قیام کے لیے اپنی بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی، الزامات لگانے والوں اور تنقید کرنے والوں کو اپنے ہر سوال کا جواب 5 دسمبر کو مل جائے گا۔ ہمارا وژن ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام بااختیار ہونا چاہیے تاکہ بااختیار حکومتیں ہی عوام کے مسائل کو حل کرسکیں ۔ 18ویںترمیم کے بعد جو اختیارات صوبوں کو ملے ہیں ۔صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ مقامی حکومتوں کو بھی اختیارات دیے جائیں تاکہ نچلی سطح پر عوام اپنے مسائل منتخب نمائندوں کے توسط سے حل کرسکیں۔

٭ حافظ نعیم الرحمٰن (امیر جماعت اسلامی کراچی)

کراچی شہر کو باصلاحیت اور دیانت دار قیادت کی ضرورت ہے ہم کراچی کو اس کا حق دلوائیں گے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا اتحاد کراچی کے شہریوں کو دیانت دار قیادت فراہم کرے گا۔ ہم بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں کیونکہ بلدیاتی الیکشن کو نہیں چھوڑ سکتے، کراچی کے شہریوں کو بڑے مسائل درپیش ہیں جنھیں حل ہونا چاہیے اورکراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں میسر آنی چاہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ بلدیاتی نظام کے تحت شہر کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، موجودہ بلدیات اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو پانی فراہم کرسکتی ہے نہ شہر سے کچرا اٹھاسکتی ہے۔ سب سے پہلے کراچی کا انفرااسٹرکچر درست ہونا چاہیے اور بدامنی ختم ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری مہم اختیارات کے حصول کی بھی ہے، ہم نے ماضی میں بھی کراچی کے شہریوں کی خدمت کی تھی اور اب بھی کریں گے۔ ماضی میں جب ہمارا میئر تھا تو ہم نے4 ارب روپے کے بجٹ کو 42 ارب روپے تک پہنچا دیا تھا، اُس وقت بلدیہ عظمیٰ کے پاس گاڑیاں تھیں نہ پارک تھے اور انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ تھا۔

ایسے حالت میں ہم نے تمام 178یونین کونسلوں میں یکساں فنڈز تقسیم کیں اور کسی بھی علاقے میں کوئی امتیاز نہیں برتا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایم کیو ایم سے اختلافات اس لیے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اتنے بڑے مینڈیٹ کے باوجود کراچی کو اس کے حقوق نہیں ملے تو اس کی ذمے دار ایم کیو ایم بھی ہے۔ اپنا حق لینے کے لیے دَم چاہیے، اگرکسی کے ہاتھ صاف ہیں تو وہ کسی بھی فورم پر اپنے حقوق کے لیے ڈٹ کر بات کرسکتا ہے۔کراچی ہم سب کا ہے، ہم اس شہر کو تخریب کاری، بھتہ خوری سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔تمام قوانین اور آرڈیننس میں کراچی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ہم نمبر ون میئر کی دوڑ میں بھی شامل نہیں ہوئے ۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جس پارٹی کے پاس مینڈیٹ رہا ہے اس نے کراچی کے شہریوں کیلیے کچھ نہیں کیا۔کراچی کو اس کی ضروریات کے مطابق پانی نہیں مل رہا، پانی کے جو منصوبے نعمت اللہ ایڈوکیٹ کے دور میں بنائے گئے تھے ان پرعملدرآمد نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے آج کراچی کے شہری پانی سے محروم ہیں۔

ہم نے مالی معاملات کا ہمیشہ آڈٹ کرایا لیکن 2003 سے 2009 کے دوران بلدیاتی نظام جن لوگوں کے پاس تھا، ان لوگوں نے مالی معاملات کا آڈٹ نہیں کرایا۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کے مسائل بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک ایک ہزار گز کے مکان پر 10,10 منزلہ رہائشی عمارتیں بناکر ان میں سیکڑوں خاندانوں کو بسادیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کی بات بھی کی تھی لیکن یہ منصوبہ بھی تاحال التوا کا شکار ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی لوکل گورنمنٹ کو تمام اختیار دیے جائیں ، ہم بلدیاتی الیکشن میں عوام کی طاقت سے کامیابی حاصل کریں گے۔کراچی سب لوگوں کا شہر ہے، اس شہر میں مہاجر، سندھی، بلوچ، پٹھان سمیت تمام زبانیں بولنے والے شہری رہتے ہیں ہم ان سب کی خدمت کریں گے ۔

٭ حفیظ الدین (رہنما پاکستان تحریک انصاف، رکن سندھ اسمبلی)

کراچی کے شہریوں کو ہمیشہ بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے اور مینڈیٹ حاصل کرنے والی دونوں جماعتوں نے کراچی کے عوام کو دھوکا دیا ہے لیکن اب کراچی کے شہریوں کو ان کا حق ملنا چاہیے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ دو جماعتیں سندھ میں مینڈیٹ حاصل کرتی رہی ہیں لیکن ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہوتا ہے، جب سندھ اسمبلی سے کوئی بل پاس کرانا ہوتا ہے تو ایم کیو ایم اسمبلی سے اٹھ کر چلی جاتی ہے اور بل پاس ہوجاتا ہے۔ درحقیقت سندھ لوکل گورنمنٹ کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں، اگر ایم کیو ایم چاہتی تو کراچی کے عوام کے مسائل حل کرسکتی تھی۔ ایم کیو ایم والے صوبے کی بات کرتے ہیں لیکن اسمبلی میں آواز بلند نہیں کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ جماعتیں بتائیں کہ کیا ان کو ووٹ ملتا رہا ہے یا نہیں ؟ انھوں نے عوام کو کیا ڈیلیور کیا ہے آپ نے مستقبل کی کیا منصوبہ بندی کی ہے؟۔ آپ عوام کو پانی اور بجلی نہیں دے سکے آپ کس منہ سے عوام کی نمائندگی کی بات کرتے ہیں۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا رویہ غیر سنجیدہ رہا ہے، یہ بلدیات کی بات کرتے ہیں لیکن انھوں نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے۔

آج رینجرز اور سندھ حکومت آمنے سامنے ہیں جولمحہ فکریہ ہے ۔ ملک میں صرف عدلیہ میرٹ پر کام کر رہی ہے ہمیں اور کوئی ایسا ادارہ نظر نہیں آتا، فوج کا اپنا نظام ہے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی کو ملنے والا پانی اب بھی چوری ہورہا ہے۔بلدیاتی نظام میں کافی نقائص ہیں، شہر کی یونین کونسلیں بالکل بانجھ ہیں، ایسا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔اب بہت ہوچکا ، کراچی کے عوام بہت تکالیف برداشت کرچکے، اب عوامی مسائل کے حل کیلئے طریقہ کار طے ہونا چاہیے۔ کراچی آج بھی ایک ایسا سستا شہر ہے جہاں ایک مزدور کو روٹی مل جاتی ہے لیکن کراچی کو اس کا جائز شیئر نہیں مل رہا۔کراچی میں تمام قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں کراچی تمام زبانیں بولنے والے لوگوں کا شہر ہے ان تمام لوگوں کو ان کے حقوق ملنے چاہیں ۔انھوں نے کہا کہ کراچی ملک بھر کو 80 فیصد ریونیو کماکر دیتا ہے لیکن بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔کراچی کے شہری باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور بل ادا کرتے ہیں، اس کی مثال پورے ملک میں نہیں ملتی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب ملکر دیانت داری سے شہر کی خدمت کریں اور کراچی کے عوام کو ان کے حقوق دلوائیں۔
Load Next Story