جون ایلیا کی یاد میں

جون ایلیا نے 14 دسمبر 1931 کو اُتّر پردیش (یوپی) کے مردم خیز قصبے امروہہ میں آنکھ کھولی۔

S_afarooqi@yahoo.com

KARACHI:
کسی سخنور نے کیا خوب کہا ہے:

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

بھائی جون ایلیا میں بھی بس یہی ایک برائی تھی۔ نومبر 2002 کی 8 تاریخ کو وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ:

صرف زندہ رہے ہم تو مرجائیں گے
بلاشبہ اس طرح کا مصرعہ ان کے سوائے کوئی اور نہیں کہہ سکتا۔

جون ایلیا نے 14 دسمبر 1931 کو اُتّر پردیش (یوپی) کے مردم خیز قصبے امروہہ میں آنکھ کھولی۔ ان کے گھرانے کے بارے میں پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔'' علم و ادب اور شعروشاعری ان کا پیشہ آبا قرار پایا۔ ان کے پَر دادا جان امیر حسن امیر اردو اور فارسی کے قادر الکلام شاعر اور صاحب اسلوب نثرنگار مانے جاتے تھے۔

جون کے دادا سید نصیر حسن نصیر بھی بڑے اچھے شاعر تھے اور والد گرامی سید شفیق حسن ایلیا توگویا بحر العلوم تھے۔ مختلف زبانوں پر دسترس حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ انھیں علم ہیئت پر مکمل عبور حاصل تھا۔

جون کے برادر بزرگ رئیس امروہوی کی عظمت کا تو بچہ بچہ معترف ہے جو ادب و صحافت میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں جب کہ منجھلے بھائی سید محمد تقی فلسفے کے بحر زخار سے اپنی آخری سانس تک علم و دانش کے سچے موتی تلاش کرتے رہے۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ علم ودانش اور شعروسخن ان کی گھٹی میں شامل تھے۔

چنانچہ ''مچھلی کے جائے کوکس نے تیرنا سکھایا'' والی کہاوت جون ایلیا پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ علم نجوم بھی ان کے گھرکی لونڈی تھی جس کی تصدیق ان کے اس قول سے ثابت ہے کہ ''عطارد، مریخ، زہرہ اور مشتری وغیرہ کا ہمارے گھر میں اتنا ذکر ہوتا تھا کہ جیسے یہ سیارے ہمارے افراد خانہ میں شامل ہوں۔''

وہ جو مرزا غالب فرما گئے ہیں کہ:
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

وہ بالکل بجا ہے۔ جون ایلیا کے ساتھ بھی یہی کچھ پیش آیا۔کم سنی میں ہی کیوپڈ کے تیرکا نشانہ بن کر مرض عشق میں مبتلا ہوگئے جس کے نتیجے میں بے اختیار ان کی زندگی کا درج ذیل اولین شعر وجود پذیر ہوا۔

چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو' سرخی مرے رُخسار کی

کم عمری میں آتش عشق کی لپیٹ میں آجانے سے ان کی طبیعت دو آتشہ ہوگئی۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف نفرت پروان چڑھ رہی تھی اور فرنگیوں کو ملک بدر کرنے کی منصوبہ سازیاں ہو رہی تھیں۔ اس فضا نے نو عمر جون کے ذہن کو بھی متاثرکیا جس کا اظہار اس نوجوان نے اپنی خیالی محبوبہ صوفیہ کے نام خط لکھ لکھ کر کیا۔ اس کے بعد وقت نے اس وقت ایک نئی کروٹ لی جب جون کے دو بڑے بھائیوں رئیس امروہوی اور سید محمد تقی نے انڈین نیشنل کانگریس سے ترک تعلق کیا اور قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی۔

جون ایلیا پر اس تبدیلی کا اثر انداز ہونا ایک فطری امر تھا۔ اسی دور میں انھوں نے ایک ڈرامہ کلب بھی قائم کیا جس کا نام ''بزمِ حق نما'' رکھا گیا۔ اس کلب کے پرچم تلے اسلامی تاریخ سے تعلق رکھنے والے ڈرامے ہی پیش کیے جاتے تھے جن میں خود ان کا کردار مرکزی ہوا کرتا تھا۔ یوں اداکاری ان کی شناخت بن گئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے قلم سے ایک ڈرامہ تحریر بھی کیا جس کا نام ''خونی خنجر'' تھا۔ ڈرامہ کلب سے وابستگی کا یہ دور 1943 سے شروع ہوکر 1946 میں جاکر اختتام پذیر ہوا۔


پھر برصغیر کی تقسیم ہوگئی اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ہی جون کے دونوں بڑے بھائی جو ان کے لیے استاد اور Mentor کا درجہ بھی رکھتے تھے لاکھوں دیگر لوگوں کی طرح ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان آگئے جس کے بعد جون نازش امروہوی کے زیر سایہ چلے گئے جو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، امروہہ کے صدارتی منصب پر فائز تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوجوان جون نے فلسفہ و منطق سے گہرا شغف حاصل کیا اور کمیونزم کا اثر بھی قبول کیا۔ پروفیسر اعجاز حسین کی تصنیف ''نئے ادبی رجحانات'' نے بھی انھیں بہت متاثر کیا۔ ان تمام چیزوں نے ان کے قلب و ذہن پر ایک عجیب سی کیفیت طاری کرتی۔

اسی اضطرابی کیفیت کے نتیجے میں یہ اشعار تخلیق ہوئے جن کے اثرات ان کی پوری زندگی پر محیط نظر آتے ہیں:

میرے سینے میں چبھ رہا ہے وجود
اور دل میں سوال سا کچھ ہے
وقت مجھ کو نہ چھین لے مجھ سے
سر خوشی میں ملال سا کچھ ہے

اپنے بڑے بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جون بھی 1957 میں ترک وطن کرکے ہندوستان سے پاکستان چلے آئے اور اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں مقیم ہوگئے۔ علم و ادب کے فروغ کے اعتبار سے یہ بڑا خوش گوار دور تھا اور شہر میں شعروسخن کی محفلیں بہت گرم ہوا کرتی تھیں۔ جون کو یہ فضا بہت راس آئی اور انھوں نے مشاعروں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا۔ اپنے مخصوص ڈکشن اور منفرد لب و لہجے کی بنا پر بہت جلد انھوں نے اپنی ایک شناخت بنائی اور ان کی مقبولیت میں روز بروزخوب اضافہ ہوتا چلا گیا۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ترجمہ نگاری میں بھی اپنی خداداد صلاحیت کے جوہر دکھانے شروع کردیے اور اس میدان میں بھی بہت جلد اپنا لوہا منوالیا۔ مسیح بغداد حلاج، حسن بن صباح اور اسلام میں اسماعیلی فرقہ کے عنوانات سے ان کے تراجم کو ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

اس کے بعد انھوں نے رئیس امروہوی کے جاری کردہ ادبی رسالے ''انشاء'' کے اداریے لکھ کر اپنی انشاء پردازی کی دھاک بٹھا دی۔ ان ہی دنوں وہ ازدواجی زندگی کے بندھنوں میں بندھ گئے جس کے نتیجے میں ان کی زندگی میں ایک خوش گوار موڑ آگیا مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکا جس کے بعد وہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ اس کیفیت کا اظہار ان کے اشعار میں کچھ اس طرح سے ملتا ہے:

عشق سمجھے تھے جس کو' وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

جون بھائی سے ہماری پہلی ملاقات کب ہوئی، اس کا دن اور تاریخ تو ہمیں ٹھیک سے یاد نہیں البتہ یہ ہم کبھی بھی نہیں بھلا سکتے کہ Love at first sight کا یہ واقعہ بھائی شکیل عادل زادہ کے یہاں ''سب رنگ'' ڈائجسٹ کے دفتر میں پیش آیا، جسے ہم شاعروں اور ادیبوں کی بیٹھک کہتے ہیں۔ یہ قصہ بھی برسوں پرانا ہے، مگر لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ یہ بھی بڑا عجیب اتفاق ہے کہ جون بھائی سے ہماری آخری ملاقات بھی یہیں پر ہوئی تھی۔ تاہم اس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوگی۔

ان کا پہلا مجموعہ کلام ''شاید'' بہت تاخیر سے اشاعت پذیر ہوا تاہم اس نے شایع ہوتے ہی ہر طرف دھوم مچا دی اور یہ Hot Cakes کی طرح فروخت ہوا۔ اس کے اب تک 9 ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں جس سے اس کی غیر معمولی مقبولیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ان کے دیگر مجموعے 'یعنی ،گمان، لیکن اور گویا منظر عام پر آئے اور یہ بھی بہت مقبول ہوئے حالانکہ یہ ان کی وفات کے بعد شایع ہوئے۔ ''فرنود'' کے زیر عنوان شایع ہونے والی کتاب میں ان کے وہ نثری شہ پارے شامل ہیں جو انھوں نے اپنے رسالے ''انشاء'' اور اس کے بعد ''سسپنس ڈائجسٹ'' کے لیے وقتاً فوقتاً تحریر کیے تھے۔

اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان کے ساتھ جب کوئی واقعہ یا سانحہ پیش آنے والا ہوتا ہے تو اس کے سگنل اسے اپنے اندر سے آتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ انتقال سے پہلے جون ایلیا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا جس کی غمازی ان کے اس آخری شعر کی صورت میں ہمیں نظر آتی ہے:

جانے کیا واقعہ ہے ہونے کو
جی بہت چاہتا ہے رونے کو
Load Next Story