محمد ہاشم میمن تجھ جیسا کہاں سے لائیں
انگریزوں کے زمانے میں ڈپٹی کلکٹر ہوتے تھے بعد میں ڈپٹی کمشنر کے نام سے کام کرنے لگے
انگریزوں کے زمانے میں ڈپٹی کلکٹر ہوتے تھے بعد میں ڈپٹی کمشنر کے نام سے کام کرنے لگے۔ اپنے بڑوں سے اور تاریخی کتب میں پڑھتے رہے کہ ڈپٹی کلکٹر حکومت کے انتظامی معاملات میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت رکھتے تھے اور پھر پاکستان بننے کے بعد ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے کام کرنے والے بیوروکریٹ ضلعی سطح پر عوامی مسائل کے حل کے لیے وہ بہت اہم ہوتے تھے مگر اس کے ساتھ اس کے پاس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات اگر نہ ہوتے تو شاید وہ کامیاب نہ جاتا جس کی مثال اس وقت ہے۔
اب وہ ڈی سی تو ہے مگر مجسٹریٹ کے اختیارات کے بغیر وہ اس طرح سے ہے کہ جیسے انسان کے پاس دانت نہ ہوں۔ جب ایک ڈپٹی کمشنر جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی تھا وہ اتنا پاور فل تھا کہ اس نے جنرل پرویز مشرف جو چیف آف آرمی اسٹاف بھی تھے ان کے جہاز کو کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ یہ دیکھ کر جب جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انھوں نے سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر کے مجسٹریٹ والے اختیارات چھین کر Devolution Plan کے تحت اسے ناظم کے Under کردیا جس سے اس کی حیثیت ایک کلرک کی مانند ہوگئی۔
میں نے اپنے انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے کئی ڈی سیز کے ساتھ کام کیا جس میں سے کچھ کو بہت ہی ایماندار اور محنتی پایا جنھوں نے اپنی نوکری کو اس طرح سے نبھایا جیسے کوئی عبادت کر رہا ہو۔ایک نام جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا وہ تھا محمد ہاشم میمن جس نے اپنی پوری زندگی انسانوں اور انسانیت کی خدمت میں گزار دی۔ وہ ڈپٹی کمشنر بن کر جب لاڑکانہ آئے تو اس وقت مارشل لا کا دور تھا مگر وہ کبھی بھی کسی بھی اثر اور طاقت کے نیچے نہیں دب سکے۔
وہ اپنے فرائض قانون اور انصاف سے پورے کرتے رہے وہ نہ صرف دلیر اور ایماندار تھے بلکہ جرأت مند بھی تھے مجھے یاد ہے جب جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کروایا تو اس میں ہر ضلع سے 99 فی صد Result بتائی گئی مگر اس مرد مجاہد نے جو رزلٹ بھیجی وہ کافی کم تھی کیونکہ اس نے صحیح فگر بھجوائی تھی۔ اس بات پر کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا کیونکہ مارشل لا والے بھی جانتے تھے کہ وہ غیر جانبدار اور فرض شناس افسر ہے۔
لاڑکانہ میں بھٹو صاحب نے اپنے والد کے نام پر سر شاہنواز بھٹو میموریل لائبریری بنوائی تھی تاکہ اس میں لاڑکانہ کے لوگ خاص طور پر نوجوان کتابوں کا مطالعہ کرسکیں اور اپنی علمی اور ذہنی طاقت کو بڑھائیں اور غیر ضروری Activities سے دور رہیں۔ مگر جب مارشل لا نافذ ہوا تو اس لائبریری میں مارشل لا کورٹس بنادی گئیں۔
اب کسی میں بھی یہ ہمت نہیں تھی کہ اس جگہ کو خالی کروا سکے مگر جب یہ مرد مجاہد لاڑکانہ کے ڈی سی بنے تو اس نے مارشل لا کے افسران سے میٹنگ کر کے انھیں قائل کیا اور پھر یہ کورٹس کسی اور جگہ پر منتقل کردی گئیں اور لائبریری آزاد ہوگئی جہاں سے اب تک لاتعداد نوجوان فائدہ حاصل کرچکے ہیں جن میں چانڈیکا میڈیکل کالج کے طلبا بھی شامل ہیں۔ یہاں سے سی ایس ایس کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت بھی بڑی بڑی پوزیشنوں پر کام کر رہے ہیں۔
ہاشم میمن ایک سادہ طبیعت کے آدمی تھے جس کے آفس اور گھر کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے تھے اور چپڑاسی کبھی بھی کسی بھی آدمی کو روکنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ وہ 24 گھنٹوں میں سے بڑا حصہ اپنے کام اور عبادت میں گزار دیتے تھے۔ جب وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے وقت میں Arm License کا کوٹا ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دیا گیا تو ہاشم صاحب نے فی لائسنس 500 روپے اضافی رقم مقررکی جس سے کئی لاکھ جمع ہو رہے تھے جسے بینک کے ایک اکاؤنٹ میں جمع کردیا جاتا تھا اور اس رقم سے وہ غریب طلبا اور طالبات کو اسکالر شپ دیا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ اسکولوں اور کالجوں میں اگر بجلی کا پنکھا نہیں ہے یا پھر پینے کے پانی کی سہولت نہیں ہے بیت الخلا کا بندوبست نہیں ہے وہ سب کچھ اس رقم میں سے کروا دیتے تھے۔
انھوں نے لاڑکانہ میں ایک بڑا شاندار پبلک اسکول بنوایا جس کے لیے وہاں کے مخیر حضرات سے مدد مانگی، کسی سے پلاٹ لیا، کسی سے فرنیچر۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے ڈی سی شپ میرپورخاص میں بھی ایک پبلک اسکول بنوایا جس کے لیے پلاٹ اور پیسے لوگوں نے دل کھول کر دیے کیونکہ صرف ہاشم میمن کی سچائی اور ایمان داری کی وجہ سے سب لوگ جانتے تھے کہ ان کا ایک پیسہ بھی ضایع یا پھر خورد برد نہیں ہوگا۔ وہ ایک غریب ماں باپ کا بیٹا تھا اور یہ جانتا تھا کہ منزل غریبوں کی اولاد کو صرف علم پانے سے ہی حاصل ہوگی۔ اس کے گھر پر یا پھر آفس میں اگر کوئی سوالی آگیا تو وہ خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔
اس کی دلیرانہ مثال مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب شاہنواز بھٹو کو زہر دے کر شہید کیا گیا اور اس کی Body کو لاڑکانہ لایا جا رہا تھا تو مارشل لا کے حکمران ضیا الحق کافی پریشان تھے مگر ہاشم میمن نے کہا کہ وہ اپنا فرض نبھانا جانتے ہیں۔ وہ خود موئن جو دڑو ایئرپورٹ پر گئے اور وہاں سے جلوس کے ساتھ گڑھی خدابخش تک بھٹو فیملی کے قبرستان میں تدفین تک ان کے ساتھ رہے۔ اس دوران انھوں نے فوجی جوانوں اور پولیس کو بڑی دور رکھا اور کہا کہ جب تک وہ نہ کہیں کوئی بھی آگے نہیں آئے گا۔ انھیں کہا کہ اس وقت لوگ بڑے غصے میں ہیں اور وہ کبھی بھی کسی بھی چھوٹی بات پر مشتعل ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ غلط یا جذبات انگیز نعرہ بھی لگائیں تو انھیں خاموش رہنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا ہے۔
اس کے علاوہ ضلع کی فوجی قیادت سے بھی کہا کہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہیں اور انھیں کال دے کر بلایا گیا ہے اس لیے وہ اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی قدم نہیں اٹھاسکتے۔ اس کی اس لائحہ عمل سے یہ ہوا کہ کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا اور ہر کام خیر و خوبی سے ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی انتظامی صلاحیتوں کو مانا گیا۔
لاڑکانہ کی تاریخ میں یہ پہلا ڈی سی تھا جس نے کبھی بھی کسی بھی سیاسی پارٹی، فرقے، مذہب، ذات وغیرہ کو ترجیح نہیں دی بلکہ جائز اور قانونی مسائل کو بغیر کسی تاخیر کے حل کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کی بڑی عزت کی جاتی تھی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کے ساتھ کئی ناانصافیاں بھی ہوئیں جس میں ایک بڑی ناانصافی یہ تھی کہ جب بھٹو نے 1300 کرپٹ لوگوں کی نوکری ختم کرنے کا آرڈر جاری کیا تو اس میں محمد ہاشم میمن کا نام بھی شامل تھا ۔
(جاری ہے)