وڈیروں کے مدمقابل پڑھے لکھے بلدیاتی اُمیدوار کی آپ بیتی
ہم ووٹ مانگنےبس اِس اُمید کیساتھ نکل پڑے کہ محلے میں ہمارے خاندان کا نام اچھا ہےمگربھول گئے تھے کہ نام سے کیا ہوتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کرکے نیا نیا میں گھر واپس آیا تھا، اخبار پڑھنا اب میرا پسندیدہ مشغلہ تھا، یہ مشغلہ بھی ویسے میں نے معروف وجوہات کی بناء پر اختیار نہیں کیا تھا، بلکہ تلاشِ روزگار کی فکر نے اخباروں کے طواف پر لگا دیا تھا، ناشتہ کرنے سے پہلے اخبار میں نوکری کے اشتہار کی تلاش کرنے کی کوشش ہوتی، ناشتہ کے بعد متعلقہ آسامیوں پر اپنی درخواستیں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوتا-
کچھ دن بعد مجھے خبریں ملنا شروع ہوگئیں کہ کہیں تو میرے کلاس فیلو اے کے لودھی کے بیٹے کو نوکری مل گئی ہے کیونکہ ان کے وزیرِ اعلیٰ کے سیکرٹری سے اچھے مراسم تھے، چند دن پہلے سنا کہ عزیز خان کو بھی نوکری مل گئی ہے کہ اس کے والد ایک شوگر مل میں جنرل مینیجر کے عہدے پر کام کرتے تھے ان کے لئے 10 لاکھ دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا، نادیہ کی خوبصورتی کی دیوانی تو ساری یونیورسٹی تھی، جاب کے لئے انٹرویو دیتے ہوئے انٹرویو لینے والے صاحب ویسے ہی ان پر فدا ہوگئے تھے اس لئے دوران انٹرویو، جاب کا پروانہ تھما دیا گیا تھا-
مسلسل ایسی خبروں کے ساتھ آخر ایک دن بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوا، نوکری تو ابھی مل نہیں رہی تھی، سوچا ابا جان کا علاقے میں اچھا احترام ہے، ہمارے خاندان کی شرافت کے قصے زبان زدِ عام رہتے ہیں، بھینس کی وچھی اب وہڑی بن چکی ہے کیوں نا اسے بیچ کر انتخابات لڑلیا جائے، سچ پوچھئے تو ہمارے پاس نہ اتنی طاقت تھی اور نہ روپیہ پیسہ کہ تھوڑے پیسے پھینکتے اور ووٹ اکھٹے کرلیتے لیکن ایک اُمید سی تھی کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور مریخ پر پلاٹ بک ہو رہے ہیں، بلوچ باغیوں نے ہتھیار پھینک دئیے ہیں، طالبان وانا، وزیرستان چھوڑ کر افغانستان کی طرف بھاگ گئے ہیں، خیبر پختونخوا کی پولیس سدھر گئی ہے، اور تو اور چاچے فرید کی چوتھی شادی کے بعد بالآخر اولادِ نرینہ کی خوشی حاصل کرچکے ہیں تو ضرور کچھ نہ کچھ جھنگ والے بھی بدل گئے ہوں گے، اس کے ساتھ ہماری تعلیم اور پڑھی لکھی صورت کا بھی کچھ پاس رہے گا اور ہم جیت جائیں گے۔
انتخابات کے ابتدائی لوازمات بڑی خوش اسلوبی اور باآسانی گذر گئے اور ہمیں محکمہِ انتخابات کی جانب سے بالٹی کا نشانِ عالی شان عطا ہوا۔ نشان ہماری توقعات سے کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم نے اس معاملے پر زیادہ حساس نہ ہونے کی کوشش کی، البتہ اس وقت ہمیں تھوڑی شرمساری ضرور ہوئی جب بالٹی میں اپنے اشتہار رکھ کر ووٹ مانگنے شروع کئے، خیر سے اسے بھی ہم نے اپنی پڑھی لکھی انا کا مسئلہ نہ بننے دیا-
ووٹ مانگنے کیلئے ہم نے پلاننگ یہ کی کہ اپنے حلقے کے ایک طرف سے گھر گھر جائیں گے، تعارف کروائیں گے، ووٹ مانگیں اور نشان والے اشتہار تھما دیں گے، تاکہ شکل و صورت اور بالٹی کا نشان یاد ہوجائے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ الیکشن مہم کے پہلے دن ہم نے حلقے کے دائیں جانب کی آبادی کے دائیں نُکڑ سے آغاز کیا۔ پہلا گھر چاچے سُلے کا تھا، چاچے سُلے کا اصلی نام سلطان محمود ہے، گھر سے دور انہوں نے ایک ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے رکھی ہے جہاں وہ سبزیاں اور اپنے دو جانوروں کا چارہ اگاتا ہے- چاچا سُلا میرے ماموں کا جگری دوست ہے، ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ان کا پوتا نکلا جس نے بتایا کہ دادا جی گھر پر نہیں، کھیتوں میں گئے ہیں، اس کے ساتھ ہی چاچا سُلے کی بیوی مونداں بھی دروازے پر آگئیں اور پہچان کر کہنے لگی ''پترا تسی ایتھے بوو، میں ُسلے نوں ہن ہی صدا لینی ہاں'' (بیٹا! آپ بیٹھیں، میں ابھی سلطان کو بلوا لیتی ہوں) آغاز پر ہی اتنی محبت ملنے کی اس قدر بھی امید نہیں تھی، خیر ہم بیٹھے، اماں نے فٹافٹ ہمارے لئے کولڈ ڈرنک منگوالی-
اتنے میں چاچا سُلا بھی آگیا، سلام دعا کے بعد عرض گذاری کی کہ ووٹ مانگنے کے لئے آپ کی چوکھٹ پر آئے ہیں، ہمارا مدعا سن کر وہ غمگین ہوئے اور گہری سوچ میں چلے گئے، پھر خود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوئے''پتر سچ پوچھو تے مینو شرم آندی پئی اے، لیکن میرے واسطے ایہہ ڈاڈھا اوکھا کم اے، میں چودھری صاب اوراں کولوں زمین لئی ہوئی ہے تے انہاں ہی مینوں پرسوں کہیا سی کہ سلیا اپنے گھر تے بھراواں دے ووٹاں کا وعدہ کسے ہور نوں نہ کریں، اے میری مرضی نال ہی کسے نوں پین گے ورنہ میری زمین تے قدم نا رکھیں'' (بیٹے سچ پوچھو تو مجھے بہت شرم محسوس ہو رہی ہے لیکن میرے لئے یہ کام بہت مشکل ہے، میں نے چودھری صاحب سے مزارع کے لئے زمین لے رکھی ہے، انہوں نے پرسوں مجھے کہا تھا کہ سلطان اپنے اور اپنے بھائیوں کے ووٹوں کا فیصلہ مت کیجئے گا ان کا فیصلہ میں کروں گا، ورنہ میری زمین پر قدم نہ رکھنا) چاچے کی یہ بات سن کر میں دم بخود رہ گیا، لیکن چاچے کو کہا کہ ٹھیک ہے آپ کے لیے مشکل ہے تو آپ کو ہم کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
اپنے پہلے تجربے کے بعد ہم چاچے سُلے کے بھائیوں کے 3 گھر چھوڑ کر اگلے گھروں کی طرف نکلے، اگلا گھر ماسی سکینہ کا تھا، ان کے خاوند 5 سال پہلے فوت ہوچکے ہیں، ماشاءاللہ سے ان کے 5 بیٹے اور2 بیٹیاں، سب شادی شدہ ہیں مل جل کر محنت مزدوری کرکے گھر چلاتے ہیں- دروازہ کھٹکھٹایا تو ماسی خود ہی دروازے پر آئیں، لیکن ووٹ دینے سے انہوں نے معذرت ہی کی، ان کے بیٹے چودھری صاحب کی زمینوں پر کام تو نہیں کرتے تھے البتہ 3 بیٹے ایوب چوک کے اڈوں پر ہاکری کرتے تھے جبکہ 2 بیٹے بسوں میں کنڈیکٹری نبھاتے تھے، ہم نے مزید کوئی بات نہ کی، کر بھی کیسے سکتے تھے، غریب باقی مسائل میں تو شاید زندہ رہ لیں لیکن دو نوالے نہ ملے تو فاقے کرنے لگیں گے۔
اگلے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی تو اندر سے ایک اچھی وضع قطع کے صاحب باہر نکلے، شکل سے ہی تھوڑے سلجھے لگتے تھے لیکن تعلیم بس ان کی پانچویں تک تھی، امیرالدین صاحب، ووٹ کا مطالبہ کیا تو کہنے لگے بیٹا ہمارا دل بھی چاہتا ہے کہ نوجوان آگے آئیں اور باگ ڈور سنبھالیں، لیکن میں ایک لائیو اسٹاک فارم پر کام کرتا ہوں جس کے مالک شہر کی مشہور سیاسی شخصیت ہیں، جس پارٹی میں وہ ہیں اس سے باہر ہم نہیں سوچ سکتے، ویسے بھی میرا بڑا بیٹا جاوید جس نے ڈسپنسری کا کورس کر رکھا ہے، شام کو انہی کے کلینک پر نوکری کرتا ہے اسی لئے ہماری طرف سے معذرت ہی سمجھیں-
ہم نے دل نہ ہارا، سوچا ساری آبادی کا حال تو یہ نہیں ہوگا، کوئی تو ہوگا جو چودھری کے کھیتوں میں کام نہیں کرتا ہو، کسی کے بیٹے تو ہاکری اور کنڈیکٹری نہیں کرتے ہوں گے، کوئی تو سیاست دان کے فارم پر ملازم نہیں ہوگا، کسی کا بیٹا تو شام میں کسی سیاسی کلینک پر کام نہیں کرتا ہو، انہی سوچوں میں چار قدم ہی آگے گئے تو گلی ہی میں ہماری ملاقات چراغ آرائیں سے ہوگئی، عمر میں ہی نہیں اپنے عہد میں بھی وہ میرے دادا جی کے ہم جولی رہے ہیں، لیکن جب سے دادا جی اللہ میاں کو پیارے ہوئے ان کے ساتھ ہی انکا پیار اور تعلق بھی فوت ہوگیا، خیر ہمارے ماموں نے ان کو روکا اور ہمارا تعارف کروایا کہ صاحبزادے پنجاب کی مشہور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، پڑھے لکھے ہیں، عوام کے مسائل سمجھتے ہیں- لیکن بابا چراخ جیسے سب کچھ بھول چکا تھے، پوچھنے لگے ''تسی کون ہوندے ہو؟'' ماموں نے عرض کیا کہ ہم بٹ ہیں تو، انہوں نے ووٹ کا فیصلہ ہی کر دیا کہا اور کہا کہ،
اس کے ساتھ ہی عشاء کی اذانیں شروع ہوگئیں اور ہماری الیکشن مہم کی ایک گلی بھی مکمل ہوگئی جس کے اختتام کے ساتھ ہی ہم ناکام اور تشنہ بہت سے زمینی حقائق سے آشنا ہو کر بوجھل دل سے آگے چل دئے۔
[poll id="756"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
کچھ دن بعد مجھے خبریں ملنا شروع ہوگئیں کہ کہیں تو میرے کلاس فیلو اے کے لودھی کے بیٹے کو نوکری مل گئی ہے کیونکہ ان کے وزیرِ اعلیٰ کے سیکرٹری سے اچھے مراسم تھے، چند دن پہلے سنا کہ عزیز خان کو بھی نوکری مل گئی ہے کہ اس کے والد ایک شوگر مل میں جنرل مینیجر کے عہدے پر کام کرتے تھے ان کے لئے 10 لاکھ دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا، نادیہ کی خوبصورتی کی دیوانی تو ساری یونیورسٹی تھی، جاب کے لئے انٹرویو دیتے ہوئے انٹرویو لینے والے صاحب ویسے ہی ان پر فدا ہوگئے تھے اس لئے دوران انٹرویو، جاب کا پروانہ تھما دیا گیا تھا-
مسلسل ایسی خبروں کے ساتھ آخر ایک دن بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوا، نوکری تو ابھی مل نہیں رہی تھی، سوچا ابا جان کا علاقے میں اچھا احترام ہے، ہمارے خاندان کی شرافت کے قصے زبان زدِ عام رہتے ہیں، بھینس کی وچھی اب وہڑی بن چکی ہے کیوں نا اسے بیچ کر انتخابات لڑلیا جائے، سچ پوچھئے تو ہمارے پاس نہ اتنی طاقت تھی اور نہ روپیہ پیسہ کہ تھوڑے پیسے پھینکتے اور ووٹ اکھٹے کرلیتے لیکن ایک اُمید سی تھی کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور مریخ پر پلاٹ بک ہو رہے ہیں، بلوچ باغیوں نے ہتھیار پھینک دئیے ہیں، طالبان وانا، وزیرستان چھوڑ کر افغانستان کی طرف بھاگ گئے ہیں، خیبر پختونخوا کی پولیس سدھر گئی ہے، اور تو اور چاچے فرید کی چوتھی شادی کے بعد بالآخر اولادِ نرینہ کی خوشی حاصل کرچکے ہیں تو ضرور کچھ نہ کچھ جھنگ والے بھی بدل گئے ہوں گے، اس کے ساتھ ہماری تعلیم اور پڑھی لکھی صورت کا بھی کچھ پاس رہے گا اور ہم جیت جائیں گے۔
انتخابات کے ابتدائی لوازمات بڑی خوش اسلوبی اور باآسانی گذر گئے اور ہمیں محکمہِ انتخابات کی جانب سے بالٹی کا نشانِ عالی شان عطا ہوا۔ نشان ہماری توقعات سے کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن پھر بھی ہم نے اس معاملے پر زیادہ حساس نہ ہونے کی کوشش کی، البتہ اس وقت ہمیں تھوڑی شرمساری ضرور ہوئی جب بالٹی میں اپنے اشتہار رکھ کر ووٹ مانگنے شروع کئے، خیر سے اسے بھی ہم نے اپنی پڑھی لکھی انا کا مسئلہ نہ بننے دیا-
ووٹ مانگنے کیلئے ہم نے پلاننگ یہ کی کہ اپنے حلقے کے ایک طرف سے گھر گھر جائیں گے، تعارف کروائیں گے، ووٹ مانگیں اور نشان والے اشتہار تھما دیں گے، تاکہ شکل و صورت اور بالٹی کا نشان یاد ہوجائے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ الیکشن مہم کے پہلے دن ہم نے حلقے کے دائیں جانب کی آبادی کے دائیں نُکڑ سے آغاز کیا۔ پہلا گھر چاچے سُلے کا تھا، چاچے سُلے کا اصلی نام سلطان محمود ہے، گھر سے دور انہوں نے ایک ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے رکھی ہے جہاں وہ سبزیاں اور اپنے دو جانوروں کا چارہ اگاتا ہے- چاچا سُلا میرے ماموں کا جگری دوست ہے، ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ان کا پوتا نکلا جس نے بتایا کہ دادا جی گھر پر نہیں، کھیتوں میں گئے ہیں، اس کے ساتھ ہی چاچا سُلے کی بیوی مونداں بھی دروازے پر آگئیں اور پہچان کر کہنے لگی ''پترا تسی ایتھے بوو، میں ُسلے نوں ہن ہی صدا لینی ہاں'' (بیٹا! آپ بیٹھیں، میں ابھی سلطان کو بلوا لیتی ہوں) آغاز پر ہی اتنی محبت ملنے کی اس قدر بھی امید نہیں تھی، خیر ہم بیٹھے، اماں نے فٹافٹ ہمارے لئے کولڈ ڈرنک منگوالی-
اتنے میں چاچا سُلا بھی آگیا، سلام دعا کے بعد عرض گذاری کی کہ ووٹ مانگنے کے لئے آپ کی چوکھٹ پر آئے ہیں، ہمارا مدعا سن کر وہ غمگین ہوئے اور گہری سوچ میں چلے گئے، پھر خود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوئے''پتر سچ پوچھو تے مینو شرم آندی پئی اے، لیکن میرے واسطے ایہہ ڈاڈھا اوکھا کم اے، میں چودھری صاب اوراں کولوں زمین لئی ہوئی ہے تے انہاں ہی مینوں پرسوں کہیا سی کہ سلیا اپنے گھر تے بھراواں دے ووٹاں کا وعدہ کسے ہور نوں نہ کریں، اے میری مرضی نال ہی کسے نوں پین گے ورنہ میری زمین تے قدم نا رکھیں'' (بیٹے سچ پوچھو تو مجھے بہت شرم محسوس ہو رہی ہے لیکن میرے لئے یہ کام بہت مشکل ہے، میں نے چودھری صاحب سے مزارع کے لئے زمین لے رکھی ہے، انہوں نے پرسوں مجھے کہا تھا کہ سلطان اپنے اور اپنے بھائیوں کے ووٹوں کا فیصلہ مت کیجئے گا ان کا فیصلہ میں کروں گا، ورنہ میری زمین پر قدم نہ رکھنا) چاچے کی یہ بات سن کر میں دم بخود رہ گیا، لیکن چاچے کو کہا کہ ٹھیک ہے آپ کے لیے مشکل ہے تو آپ کو ہم کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
اپنے پہلے تجربے کے بعد ہم چاچے سُلے کے بھائیوں کے 3 گھر چھوڑ کر اگلے گھروں کی طرف نکلے، اگلا گھر ماسی سکینہ کا تھا، ان کے خاوند 5 سال پہلے فوت ہوچکے ہیں، ماشاءاللہ سے ان کے 5 بیٹے اور2 بیٹیاں، سب شادی شدہ ہیں مل جل کر محنت مزدوری کرکے گھر چلاتے ہیں- دروازہ کھٹکھٹایا تو ماسی خود ہی دروازے پر آئیں، لیکن ووٹ دینے سے انہوں نے معذرت ہی کی، ان کے بیٹے چودھری صاحب کی زمینوں پر کام تو نہیں کرتے تھے البتہ 3 بیٹے ایوب چوک کے اڈوں پر ہاکری کرتے تھے جبکہ 2 بیٹے بسوں میں کنڈیکٹری نبھاتے تھے، ہم نے مزید کوئی بات نہ کی، کر بھی کیسے سکتے تھے، غریب باقی مسائل میں تو شاید زندہ رہ لیں لیکن دو نوالے نہ ملے تو فاقے کرنے لگیں گے۔
اگلے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی تو اندر سے ایک اچھی وضع قطع کے صاحب باہر نکلے، شکل سے ہی تھوڑے سلجھے لگتے تھے لیکن تعلیم بس ان کی پانچویں تک تھی، امیرالدین صاحب، ووٹ کا مطالبہ کیا تو کہنے لگے بیٹا ہمارا دل بھی چاہتا ہے کہ نوجوان آگے آئیں اور باگ ڈور سنبھالیں، لیکن میں ایک لائیو اسٹاک فارم پر کام کرتا ہوں جس کے مالک شہر کی مشہور سیاسی شخصیت ہیں، جس پارٹی میں وہ ہیں اس سے باہر ہم نہیں سوچ سکتے، ویسے بھی میرا بڑا بیٹا جاوید جس نے ڈسپنسری کا کورس کر رکھا ہے، شام کو انہی کے کلینک پر نوکری کرتا ہے اسی لئے ہماری طرف سے معذرت ہی سمجھیں-
ہم نے دل نہ ہارا، سوچا ساری آبادی کا حال تو یہ نہیں ہوگا، کوئی تو ہوگا جو چودھری کے کھیتوں میں کام نہیں کرتا ہو، کسی کے بیٹے تو ہاکری اور کنڈیکٹری نہیں کرتے ہوں گے، کوئی تو سیاست دان کے فارم پر ملازم نہیں ہوگا، کسی کا بیٹا تو شام میں کسی سیاسی کلینک پر کام نہیں کرتا ہو، انہی سوچوں میں چار قدم ہی آگے گئے تو گلی ہی میں ہماری ملاقات چراغ آرائیں سے ہوگئی، عمر میں ہی نہیں اپنے عہد میں بھی وہ میرے دادا جی کے ہم جولی رہے ہیں، لیکن جب سے دادا جی اللہ میاں کو پیارے ہوئے ان کے ساتھ ہی انکا پیار اور تعلق بھی فوت ہوگیا، خیر ہمارے ماموں نے ان کو روکا اور ہمارا تعارف کروایا کہ صاحبزادے پنجاب کی مشہور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، پڑھے لکھے ہیں، عوام کے مسائل سمجھتے ہیں- لیکن بابا چراخ جیسے سب کچھ بھول چکا تھے، پوچھنے لگے ''تسی کون ہوندے ہو؟'' ماموں نے عرض کیا کہ ہم بٹ ہیں تو، انہوں نے ووٹ کا فیصلہ ہی کر دیا کہا اور کہا کہ،
''آرائیں ساڈے مرگئے نے جے اسی ہن بٹاں نوں ووٹ پانے شروع کردئیے''۔
اس کے ساتھ ہی عشاء کی اذانیں شروع ہوگئیں اور ہماری الیکشن مہم کی ایک گلی بھی مکمل ہوگئی جس کے اختتام کے ساتھ ہی ہم ناکام اور تشنہ بہت سے زمینی حقائق سے آشنا ہو کر بوجھل دل سے آگے چل دئے۔
[poll id="756"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔