دانائے راز
انھوں نے جسدِ ملّت کو لاحق بیماریوں کی صحیح تشخیص کی تو حکیم الامت کہلائے،
NEW DEHLI:
ہماری آزادی اور ہمارا پاکستان فکرِ اقبالؒ کا ثمر ہے۔ حکمرانوں کا اقتدار ، حکومتیں ، وزارتیں اور صدارتیں سب اقبالؒ کی فکر اور قائدؒ کی جدوجہد کے طفیل ہیں۔مسلم لیگ ۔ جس کا وجود ہی دو قومی نظرئیے پر قائم ہے، کی حکومت میں مفکر پاکستان کی حیثیّت کم کرنے کی کوشش کیوں ہوئی؟ وزیراعظم اور وزیرِاعلیٰ پنجاب دونوں اقبالؒ سے عقیدت رکھتے ہیں اور تقریروں میں اقبالؒ کے شعر پڑھتے ہیں پھر انھوں نے اس تجویز کے خطرناک اثرات کا ادراک کیوں نہ کیا اور اس کی مزاحمت کیوں نہ کی؟ حکومتیں اقبالؒ کے مقام کا تعین کیا کرینگی وہ تو وقت اور تاریخ نے کردیاہے لیکن پاکستان کے فکری قائد کی اہمیّت کم کرنے کی کسی بھی کوشش کوپاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرے گی۔
انھوں نے جسدِ ملّت کو لاحق بیماریوں کی صحیح تشخیص کی تو حکیم الامت کہلائے، مغربی فلسفیوں اور دانشوروں کے مقابلے میں دنیائے مشرق کی سب سے موثر نمایندگی کی تو شاعرِ مشرق کا خطاب پایا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی ،معاشی اور مذہبی حقوق کے تخفّظ کے لیے علیحدہ وطن کا نظریہ پیش کیا تو مفکّرِ پاکستان قرار پائے اور جب ان کی رگ و پے میں حضور نبی کریم ﷺ کی محبّت رچ بس گئی تو خالقِ کائنات نے انھیں دانائے راز بنادیا۔
ترک اور ایرانی دانشور کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ''پاکستانیوں نے اقبالؒ جیسے محسن کو بھلادیا ہے'' دنیا میں اپنا نظام نافذ کرنے کی خواہشمند قوتیں مفکّرِ پاکستان کو پہلے نصاب سے اوراب نئی نسل کے ذہنوں سے محو کرانے کی کوششیں کررہی ہیں، ان کے یومِ پیدائش پر چھٹی منسوخ کرانا ایسی ہی ایک سازش لگتی ہے۔ چھٹی کی علامتی اہمیّت سے انکار ناممکن ہے یہ اس بات کی مظہر ہے کہ کوئی قوم اپنے محسن کو کس ِقدر اہمیّت دیتی ہے۔
اس بات کا کو کھوج لگانا چاہیے کہ چھٹی ختم کرانے کی تجویز کس مشیرنے دی تھی اوراس کے کیا محرّکات ہیں۔ یہ فیصلہ غلط بھی ہے اورتشویشناک بھی جو کام کرنے کی جرأت پیپلز پارٹی نہ کرسکی وہ مسلم لیگی حکومت کے ہاتھوں کروادیا گیا۔ اس فیصلے پرپوری قوم کو دکھ ہے مگر سب سے زیادہ دکھ بابائے قوم قائداعظمؒ کی روح کو پہنچا ہوگااور پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریئے کے تمام مخالف اس فیصلے پربہت خوش ہوں گے، مرکزی حکومت اس فیصلے کی منسوخی کانہ صرف اعلان کرے بلکہ کلامِ اقبالؒ کو نصاب میں دوبارہ شامل کرنے اور تعلیمی اداروں میں طلبہ کو فکرِاقبالؒ سے روشناس کرانے کے لیے کم از کم آدھا گھنٹہ مخصوص کرنے کا حکم دے ۔
ایک بین الاقوامی کانفرنس میں عرب دانشوروں نے اقبالؒ کے چند شعروں کا ترجمہ سنا تو پکار اُٹھے کہ بلاشبہ اقبالؒ کا کلام الہامی اور پیغام آفاقی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت سے نامور شاعر تھِنکر اور فلاسفر پیدا ہوئے مگر اُمّتِ مُسلمہ کا مقدّمہ جس موثر اور پُر شکوہ انداز میں اقبالؒ نے پیش کیا کوئی اور نہ کرسکا۔ وہ تمام مسلم دانشوروں میں بلاشبہ سب سے زیادہ باعلم تھے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل، قدیم اور جدید علوم اور فلسفوں کے شناور۔ مسلم مورخین کا یہ کہنا درست ہے کہ دنیائے اسلام کی ایک ہزار سالہ تاریخ کاسب سے بڑا مفکّر اور شاعر بلاشبہ اقبالؒ ہے۔
طالب علم نے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب توپاکستان بننے سے نو سال پہلے وفات پاگئے تھے وہ پاکستان کے بانی کیسے ہیں؟ جواب دینے والے قائداعظم کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے اور سب کا ایک ہی جواب تھاکہ ''اوّل توسنجیدگی سے علیحدہ وطن کاتصّور1930میں علامہ اقبالؒ نے ہی انگریزی میں لکھے ہوئے اپنے طویل خطبہء صدارت میں دیا تھا، اس کے علاوہ بّرِ صغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی اہمیّت سے آشنا کرنے ، انھیں غلامی سے نفرت دلانے اور ان میںحمیّت کی تڑپ اور آزادی حاصل کرنے کا جوش و ولولہ پیدا کرنے کا کارنامہ بھی علامہ اقبالؒ ہی کا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ہر جلسے میں اقبالؒ کے انقلابی شعروں سے ہی سامعین کو گرمایا جاتا تھا۔ وہ تو پوری تحریک میں ساتھ ساتھ رہے۔
مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبالؒ توہر گاؤں ہر قصبے ہر قریے اور ہر شہر میںہمارے ساتھ موجود رہے'' غیر منقسم ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے امراض کی تشخیص کر چکے تو علاج بھی اُمّت کے حکیم سے دریافت کیا گیا۔کہا اکثریتی علاقوں پر مشتمل علیحدہ وطن۔ مگر علیحدہ وطن کے لیے طویل جدّوجہد کرنا پڑتی ہے اور جدّوجہد کسی بڑے لیڈر اوررہنما کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ کام بھی دانائے راز نے کردیا جن کی دوربین نگاہوں نے سات سمندر پار بیٹھے ایسے رہنما کہ جس کی نگاہ بلند اور جاں پر سوز تھی کونہ صرف تلاش کیا بلکہ واپس آکر رہنمائی پر آمادہ بھی کر لیا۔
علامہ اقبالؒ قائدِ اعظم کو بّرِصغیر کے تمام مسلمانوں کا رہنما قرار دیتے تھے۔ ۔اپنا بھی۔۔ اور قائدِ اعظمؒ علامہ اقبالؒ کا روحانی مرشد کیطرح احترام کرتے تھے۔ وہ اقبالؒ کو اپنا فکری رہنما (indeological guide) قرار دیتے تھے۔1940 میں پاکستان حاصل کرنے کی قرارداد پاس کرچکے تو بڑی حسرت سے کہا "آج ڈاکٹرمحمد اقبالؒ زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے جو کام وہ چاہتے تھے ہم نے شروع کردیا ہے"۔
علامہ اقبالؒ برّ صغیر ( پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو ملا کر بننے والا خطّہ) کی وہ واحد شخصیّت ہیں جس نے اس خطّے کی حدود سے باہرکروڑوں لوگوں کو inspire کیا۔ تہران کی سڑکوں پر لاکھوں کے مجمعے کو اقبالؒ کی فارسی میں کہی گئی اے جوانانِ عجم اور انقلاب اے انقلاب جیسی نظموں سے گرمایا جاتا تھا۔ ایرانی قوم علامہ اقبالؒ کو انقلابِ ایران کا فکری قائدقرار دیتی ہے۔ سینٹرل ایشین ریاستیں روس کے فولادی شکنجے سے آزاد ہونے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئیں تو دس دس لاکھ کے مجمعے کے سامنے جو نظم پڑھی جاتی تھی جس نے نوجوانوں کو ولولوں سے سرشار کردیا تھا۔ وہ شاعرِ مشرق ہی کی نظم۔۔' از خوابِ گراں خیزگراں خیز گراں خیز' تھی۔
ڈاکٹر مہاتیر جنہوںنے چند سالوں میں ملائیشیا جیسے چھوٹے سے ملک کو ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا اور جو امریکی اور یورپی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأت رکھتے تھے۔ اوآئی سی کے اجلاس میںآخری صدارتی تقریر کی تو تمام وفود نے دادوتحسین دی، پاکستانی وفد نے اسٹیج پر جاکر کہا ''آپ نے اسلامی دنیا کی نمائیندگی کا حق ادا کردیا ہے''۔ مدّبر رہنما نے تشکّر سے جھکی ہوئی نظریں اوپر اٹھائیں اور کہا ''یہ فکری توانائی میں نے ڈاکٹر اقبالؒ کے کلام سے حاصل کی ہے مگر افسوس کہ آپ لوگوں نے اقبالؒ کی قدر نہیں کی اور فکرِ اقبالؒ کو فراموش کردیا ہے''۔
افغانستان کے پڑھے لکھے لوگ اقبالؒ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں اور ترک تو ایرانیوں کی طرح اقبالؒ کو جدید دنیائے اسلام کا فکری مرشد مانتے ہیں۔ کسی ترک رہنما کی تقریر اقبالؒ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ترکی کے کرشماتی لیڈر طیب اردوان جو آج بلاشبہ مسلم دنیا کے سب سے بڑے رہنما ہیں ، پاکستان کے دورے پر آئے تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران انھوں نے بارہا اقبالؒ کا شاعرِ اعظم کہہ کر ذکر کیا۔
دنیائے عرب کے دانشور اور نوجوان فکرِ اقبالؒ سے inspireہیں۔ پاک و ھند میں اقبالؒ کی حیثیّت مسلّمہ ہے۔ بہت بڑے ادیب انتظار حسین کہتے ہیں اردو شاعری میں "عظِیم" کا لفظ کسی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے تو وہ صرف اقبالؒ ہے ۔ نامور کالم نگار ، ادیب اور شاعر محترم عطاء الحق قاسمی نے لکھا ہے کہ اقبال کا فارسی میں لکھا گیا جاوید نامہ پڑھ کر آدمی سوچ میں پڑھ جاتا ہے کہ کیا اقبالؒ ہماری طرح کا گوشت پوست کا ایک فانی انسان تھا یا اس میں کوئی الوہی روح بھی سرایت کی ہوئی تھی۔
معروف شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد نے ایک بار راقم کو بتایا کہ چند کمیونسٹ دوست فیض احمد فیضؔ صاحب سے ملنے آئے اور ملاقات کے دوران کہا کہ 'اردو شاعری میں بیسویں صدی تو آپ ہی کی صدی کہلائے گی'۔ فیض صاحب فوراً کہا ''نہیںبھائی بیسوی صدی تو اقبال کی صدی ہے''۔ فیض صاحب خود کو اقبالؒ کا مرید کہتے تھے۔ روشن ضمیر بیوروکریٹ مختار مسعود کہتے ہیں، اقبالؒ پیغمبروں کے شاعر اور شاعروں کے پیغمبر تھے، ملّت کے روشن دماغ کا نام اقبالؒ ہے۔ معروف اسکالر جناب احمد جاوید کا کہنا ہے کہ اسلامی تہذیب کا دل بھی اقبالؒ ہے اور دماغ بھی اقبالؒ۔ کل ایوانِ صدر میں یومِ اقبال کی تقریب میں صاحبانِ علم و دانش نے صحیح کہا کہ مفکّرِ پاکستان ہونا اقبالؒ کی ایک حیثیّت ہے، وہ تو مفکّرِ اسلام بھی ہے اور شاعرِ انسانیت بھی۔
علامہ اقبالؒ نے نوجوانی میں جب یہ شعر کہا ؎موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے۔قطرے جوتھے مرے عرق اِنفعال کے تو بڑے بڑے شعراء چونک اُٹھے ۔ پھر انھوں گورنمنٹ کالج لاھور کے زمانہ ء طالب علمی میں 'ہمالیہ' جیسی نظم تخلیق کی تو اس وقت کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر ان کی ہمالیہ جیسی بلند فکر کے معترف ہوگئے، ایک طالب علم کی نظم کے یہ شعر پڑھکر قاری آج بھی فیلِ بے زنجیر کی طرح جھومنے لگتا ہے۔
مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہ دل دامن کشِ انساں ہے تو
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہرِ عالم تاب پر
ہائے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیلِ بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
بڑے بڑے شعراء یہ تو جان گئے تھے کہ یہ نوجوان شعروادب کے آسمان پر ایک روشن ستارہ بنکر اُبھرے گا مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ قدرت اُس سے بہت بڑا کام لینے والی ہے۔ (جاری ہے)
ہماری آزادی اور ہمارا پاکستان فکرِ اقبالؒ کا ثمر ہے۔ حکمرانوں کا اقتدار ، حکومتیں ، وزارتیں اور صدارتیں سب اقبالؒ کی فکر اور قائدؒ کی جدوجہد کے طفیل ہیں۔مسلم لیگ ۔ جس کا وجود ہی دو قومی نظرئیے پر قائم ہے، کی حکومت میں مفکر پاکستان کی حیثیّت کم کرنے کی کوشش کیوں ہوئی؟ وزیراعظم اور وزیرِاعلیٰ پنجاب دونوں اقبالؒ سے عقیدت رکھتے ہیں اور تقریروں میں اقبالؒ کے شعر پڑھتے ہیں پھر انھوں نے اس تجویز کے خطرناک اثرات کا ادراک کیوں نہ کیا اور اس کی مزاحمت کیوں نہ کی؟ حکومتیں اقبالؒ کے مقام کا تعین کیا کرینگی وہ تو وقت اور تاریخ نے کردیاہے لیکن پاکستان کے فکری قائد کی اہمیّت کم کرنے کی کسی بھی کوشش کوپاکستانی قوم کبھی قبول نہیں کرے گی۔
انھوں نے جسدِ ملّت کو لاحق بیماریوں کی صحیح تشخیص کی تو حکیم الامت کہلائے، مغربی فلسفیوں اور دانشوروں کے مقابلے میں دنیائے مشرق کی سب سے موثر نمایندگی کی تو شاعرِ مشرق کا خطاب پایا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی ،معاشی اور مذہبی حقوق کے تخفّظ کے لیے علیحدہ وطن کا نظریہ پیش کیا تو مفکّرِ پاکستان قرار پائے اور جب ان کی رگ و پے میں حضور نبی کریم ﷺ کی محبّت رچ بس گئی تو خالقِ کائنات نے انھیں دانائے راز بنادیا۔
ترک اور ایرانی دانشور کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ''پاکستانیوں نے اقبالؒ جیسے محسن کو بھلادیا ہے'' دنیا میں اپنا نظام نافذ کرنے کی خواہشمند قوتیں مفکّرِ پاکستان کو پہلے نصاب سے اوراب نئی نسل کے ذہنوں سے محو کرانے کی کوششیں کررہی ہیں، ان کے یومِ پیدائش پر چھٹی منسوخ کرانا ایسی ہی ایک سازش لگتی ہے۔ چھٹی کی علامتی اہمیّت سے انکار ناممکن ہے یہ اس بات کی مظہر ہے کہ کوئی قوم اپنے محسن کو کس ِقدر اہمیّت دیتی ہے۔
اس بات کا کو کھوج لگانا چاہیے کہ چھٹی ختم کرانے کی تجویز کس مشیرنے دی تھی اوراس کے کیا محرّکات ہیں۔ یہ فیصلہ غلط بھی ہے اورتشویشناک بھی جو کام کرنے کی جرأت پیپلز پارٹی نہ کرسکی وہ مسلم لیگی حکومت کے ہاتھوں کروادیا گیا۔ اس فیصلے پرپوری قوم کو دکھ ہے مگر سب سے زیادہ دکھ بابائے قوم قائداعظمؒ کی روح کو پہنچا ہوگااور پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریئے کے تمام مخالف اس فیصلے پربہت خوش ہوں گے، مرکزی حکومت اس فیصلے کی منسوخی کانہ صرف اعلان کرے بلکہ کلامِ اقبالؒ کو نصاب میں دوبارہ شامل کرنے اور تعلیمی اداروں میں طلبہ کو فکرِاقبالؒ سے روشناس کرانے کے لیے کم از کم آدھا گھنٹہ مخصوص کرنے کا حکم دے ۔
ایک بین الاقوامی کانفرنس میں عرب دانشوروں نے اقبالؒ کے چند شعروں کا ترجمہ سنا تو پکار اُٹھے کہ بلاشبہ اقبالؒ کا کلام الہامی اور پیغام آفاقی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت سے نامور شاعر تھِنکر اور فلاسفر پیدا ہوئے مگر اُمّتِ مُسلمہ کا مقدّمہ جس موثر اور پُر شکوہ انداز میں اقبالؒ نے پیش کیا کوئی اور نہ کرسکا۔ وہ تمام مسلم دانشوروں میں بلاشبہ سب سے زیادہ باعلم تھے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل، قدیم اور جدید علوم اور فلسفوں کے شناور۔ مسلم مورخین کا یہ کہنا درست ہے کہ دنیائے اسلام کی ایک ہزار سالہ تاریخ کاسب سے بڑا مفکّر اور شاعر بلاشبہ اقبالؒ ہے۔
طالب علم نے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب توپاکستان بننے سے نو سال پہلے وفات پاگئے تھے وہ پاکستان کے بانی کیسے ہیں؟ جواب دینے والے قائداعظم کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے اور سب کا ایک ہی جواب تھاکہ ''اوّل توسنجیدگی سے علیحدہ وطن کاتصّور1930میں علامہ اقبالؒ نے ہی انگریزی میں لکھے ہوئے اپنے طویل خطبہء صدارت میں دیا تھا، اس کے علاوہ بّرِ صغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی اہمیّت سے آشنا کرنے ، انھیں غلامی سے نفرت دلانے اور ان میںحمیّت کی تڑپ اور آزادی حاصل کرنے کا جوش و ولولہ پیدا کرنے کا کارنامہ بھی علامہ اقبالؒ ہی کا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ہر جلسے میں اقبالؒ کے انقلابی شعروں سے ہی سامعین کو گرمایا جاتا تھا۔ وہ تو پوری تحریک میں ساتھ ساتھ رہے۔
مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبالؒ توہر گاؤں ہر قصبے ہر قریے اور ہر شہر میںہمارے ساتھ موجود رہے'' غیر منقسم ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے امراض کی تشخیص کر چکے تو علاج بھی اُمّت کے حکیم سے دریافت کیا گیا۔کہا اکثریتی علاقوں پر مشتمل علیحدہ وطن۔ مگر علیحدہ وطن کے لیے طویل جدّوجہد کرنا پڑتی ہے اور جدّوجہد کسی بڑے لیڈر اوررہنما کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ کام بھی دانائے راز نے کردیا جن کی دوربین نگاہوں نے سات سمندر پار بیٹھے ایسے رہنما کہ جس کی نگاہ بلند اور جاں پر سوز تھی کونہ صرف تلاش کیا بلکہ واپس آکر رہنمائی پر آمادہ بھی کر لیا۔
علامہ اقبالؒ قائدِ اعظم کو بّرِصغیر کے تمام مسلمانوں کا رہنما قرار دیتے تھے۔ ۔اپنا بھی۔۔ اور قائدِ اعظمؒ علامہ اقبالؒ کا روحانی مرشد کیطرح احترام کرتے تھے۔ وہ اقبالؒ کو اپنا فکری رہنما (indeological guide) قرار دیتے تھے۔1940 میں پاکستان حاصل کرنے کی قرارداد پاس کرچکے تو بڑی حسرت سے کہا "آج ڈاکٹرمحمد اقبالؒ زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے جو کام وہ چاہتے تھے ہم نے شروع کردیا ہے"۔
علامہ اقبالؒ برّ صغیر ( پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو ملا کر بننے والا خطّہ) کی وہ واحد شخصیّت ہیں جس نے اس خطّے کی حدود سے باہرکروڑوں لوگوں کو inspire کیا۔ تہران کی سڑکوں پر لاکھوں کے مجمعے کو اقبالؒ کی فارسی میں کہی گئی اے جوانانِ عجم اور انقلاب اے انقلاب جیسی نظموں سے گرمایا جاتا تھا۔ ایرانی قوم علامہ اقبالؒ کو انقلابِ ایران کا فکری قائدقرار دیتی ہے۔ سینٹرل ایشین ریاستیں روس کے فولادی شکنجے سے آزاد ہونے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئیں تو دس دس لاکھ کے مجمعے کے سامنے جو نظم پڑھی جاتی تھی جس نے نوجوانوں کو ولولوں سے سرشار کردیا تھا۔ وہ شاعرِ مشرق ہی کی نظم۔۔' از خوابِ گراں خیزگراں خیز گراں خیز' تھی۔
ڈاکٹر مہاتیر جنہوںنے چند سالوں میں ملائیشیا جیسے چھوٹے سے ملک کو ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا اور جو امریکی اور یورپی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأت رکھتے تھے۔ اوآئی سی کے اجلاس میںآخری صدارتی تقریر کی تو تمام وفود نے دادوتحسین دی، پاکستانی وفد نے اسٹیج پر جاکر کہا ''آپ نے اسلامی دنیا کی نمائیندگی کا حق ادا کردیا ہے''۔ مدّبر رہنما نے تشکّر سے جھکی ہوئی نظریں اوپر اٹھائیں اور کہا ''یہ فکری توانائی میں نے ڈاکٹر اقبالؒ کے کلام سے حاصل کی ہے مگر افسوس کہ آپ لوگوں نے اقبالؒ کی قدر نہیں کی اور فکرِ اقبالؒ کو فراموش کردیا ہے''۔
افغانستان کے پڑھے لکھے لوگ اقبالؒ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں اور ترک تو ایرانیوں کی طرح اقبالؒ کو جدید دنیائے اسلام کا فکری مرشد مانتے ہیں۔ کسی ترک رہنما کی تقریر اقبالؒ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ترکی کے کرشماتی لیڈر طیب اردوان جو آج بلاشبہ مسلم دنیا کے سب سے بڑے رہنما ہیں ، پاکستان کے دورے پر آئے تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران انھوں نے بارہا اقبالؒ کا شاعرِ اعظم کہہ کر ذکر کیا۔
دنیائے عرب کے دانشور اور نوجوان فکرِ اقبالؒ سے inspireہیں۔ پاک و ھند میں اقبالؒ کی حیثیّت مسلّمہ ہے۔ بہت بڑے ادیب انتظار حسین کہتے ہیں اردو شاعری میں "عظِیم" کا لفظ کسی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے تو وہ صرف اقبالؒ ہے ۔ نامور کالم نگار ، ادیب اور شاعر محترم عطاء الحق قاسمی نے لکھا ہے کہ اقبال کا فارسی میں لکھا گیا جاوید نامہ پڑھ کر آدمی سوچ میں پڑھ جاتا ہے کہ کیا اقبالؒ ہماری طرح کا گوشت پوست کا ایک فانی انسان تھا یا اس میں کوئی الوہی روح بھی سرایت کی ہوئی تھی۔
معروف شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد نے ایک بار راقم کو بتایا کہ چند کمیونسٹ دوست فیض احمد فیضؔ صاحب سے ملنے آئے اور ملاقات کے دوران کہا کہ 'اردو شاعری میں بیسویں صدی تو آپ ہی کی صدی کہلائے گی'۔ فیض صاحب فوراً کہا ''نہیںبھائی بیسوی صدی تو اقبال کی صدی ہے''۔ فیض صاحب خود کو اقبالؒ کا مرید کہتے تھے۔ روشن ضمیر بیوروکریٹ مختار مسعود کہتے ہیں، اقبالؒ پیغمبروں کے شاعر اور شاعروں کے پیغمبر تھے، ملّت کے روشن دماغ کا نام اقبالؒ ہے۔ معروف اسکالر جناب احمد جاوید کا کہنا ہے کہ اسلامی تہذیب کا دل بھی اقبالؒ ہے اور دماغ بھی اقبالؒ۔ کل ایوانِ صدر میں یومِ اقبال کی تقریب میں صاحبانِ علم و دانش نے صحیح کہا کہ مفکّرِ پاکستان ہونا اقبالؒ کی ایک حیثیّت ہے، وہ تو مفکّرِ اسلام بھی ہے اور شاعرِ انسانیت بھی۔
علامہ اقبالؒ نے نوجوانی میں جب یہ شعر کہا ؎موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے۔قطرے جوتھے مرے عرق اِنفعال کے تو بڑے بڑے شعراء چونک اُٹھے ۔ پھر انھوں گورنمنٹ کالج لاھور کے زمانہ ء طالب علمی میں 'ہمالیہ' جیسی نظم تخلیق کی تو اس وقت کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر ان کی ہمالیہ جیسی بلند فکر کے معترف ہوگئے، ایک طالب علم کی نظم کے یہ شعر پڑھکر قاری آج بھی فیلِ بے زنجیر کی طرح جھومنے لگتا ہے۔
مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہ دل دامن کشِ انساں ہے تو
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہرِ عالم تاب پر
ہائے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیلِ بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
بڑے بڑے شعراء یہ تو جان گئے تھے کہ یہ نوجوان شعروادب کے آسمان پر ایک روشن ستارہ بنکر اُبھرے گا مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ قدرت اُس سے بہت بڑا کام لینے والی ہے۔ (جاری ہے)