سانحہ سندر اور قاتل نظام حصہ اول

بہت سے دلخراش اورپرسوز تاثرات لیے یہ سانحہ تو گزر گیا مگر بہت سوں کے خاندان اُجاڑ گیا۔


علی احمد ڈھلوں November 11, 2015

LONDON: وطن عزیز میں نااہل اور کرپٹ حکمرانوں و بیوروکریسی کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے آج ایک اور سانحہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔ 55انسانی جانیں آخری وقت تک ،جب تک انھیں موت نے گلے نہیں لگا لیا مدد کو پکارتی رہیں لیکن انسانی بے بسی کا عالم یہ تھا کہ لوگ وہاں موجود پتھروں سے لپٹ لپٹ کر اپنے پیاروں کی آوازں کے ساتھ اپنی آوازیں ملاتے رہے کہ بس کچھ دیر اور... لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔

بہت سے دلخراش اورپرسوز تاثرات لیے یہ سانحہ تو گزر گیا مگر بہت سوں کے خاندان اُجاڑ گیا۔ ہر کوئی اسی آس میں تھا کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے اورکچھ لوگ زندہ سلامت نکل ہی آئیں، لیکن شاید یہ دن معجزوں کے نہیں تھے، اس لیے ملبے کے ڈھیر سے جو کوئی بھی نکلا اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ ایمبولینس جب ہوٹربجاتی میت کو اسپتال لیجانے کے لیے روانہ ہوتی توسینوں پرآراسا چل جاتا۔ حادثے کے بعد حکومتی اداروں نے بڑی جاں فشانی سے کام کیا... سیاستدان بھی بھاگتے پھرتے نظرآئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے دورہ کیا۔ امدادی رقم کا اعلان کیا۔

یہ سب لائق تحسین سہی مگربات یہ ہے حکومت کا کام کسی حادثے کے بعد محض پھرتیاں دکھانا نہیں بلکہ اسے روکنے کی ہرممکن تدبیر اور دیرپا منصوبہ بندی کرنا ہوتا ہے۔ قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ معمول کی بات ہے کہ جب کسی خاتون سے ریپ ہوتا ہے تو وزیراعلیٰ اس سے ہمدردی کے لیے پہنچتے ہیں، لیکن ایسے واقعات میں کمی پھربھی نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کا ظالمانہ نظام بدستور موجود رہتا ہے، تھانہ بکتارہتا ہے، جب تک نظام نہیں بدلیں گے' عمارتیں گرتی رہیں گی، عزتیں لٹتی رہیں گی اور ظالم ظلم کرتے رہیں گے۔

سانحہ سندر کی عمارت بھی اسی کرپٹ نظام کی وجہ سے گری تھی جس نے کمزور بنیادوں پر اگلی منزلیں تعمیر کرنے کی ''اجازت'' دی تھی۔ مگر یہ عمارت اپنے ساتھ 55 انسانی جانوں کا نذرانہ بھی لے گئی، ابھی گزشتہ سال بنگلہ دیش میں ایک کئی منزلہ فیکٹری منہدم ہوئی تو اس میں1130 افراد صرف اس وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے کہ بلڈنگ تعمیر کرتے ہوئے بلڈنگ کوڈز کی پابندی نہیں کی گئی تھی۔ یہ دنیا کے بدترین صنعتی حادثات میں سے ایک تھا۔ تب یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ کرپشن نے ہی بنگلہ دیشیوں کو یہ دن دکھایا تھا، کیونکہ اس بلڈنگ کا نقشہ بھی رشوت دے کر پاس کرایا گیا تھا۔

مانا کہ انسانی غفلت سے سانحہ سندر کی فیکٹری زمین بوس ہوگئی مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ ایک عمارت کا ملبہ اُٹھانے میں پورے ملک کی مشینری کو ایک ہفتے سے زائد کا وقت لگ گیا؟ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ایک عمارت کے نیچے دھنسے ہوئے لوگوں کی چیخوں تک نہیں پہنچ سکے؟ سانحہ سندر کے پچاس گھنٹوں بعد جب یہ خبر آئی تھی کہ ایک شاہد نامی شخص زندہ نکل آیا ہے تو میرے ذہن میں فوراََ یہ بات آئی کہ جانیں بچائی جا سکتی تھیں! اگر ہمارے پاس مناسب آلات و سازو سامان ہوتا تو بہت سی زندگیاں جو سسکتے سسکتے اور چیخ و پکار میں ختم ہوگئیں انھیں بچایا جا سکتا تھا۔ حیرانگی یہ ہے کہ UNDP کے پروگرام کے تحت جب عملے کو تربیت دے کر کراچی، کے پی، اسلام آباد اور گلگت میں ٹیمیں بنا دی گئی ہیں جو ایسی صورت حال کا مقابلہ کرے حالانکہ وہ فعال ہیں یا نہیں یہ بعد کی بات ہے لیکن اس جیسی کسی ٹیم کا پنجاب میں وجود ہی نہیں ہے۔

امریکا، یورپ، چین، جاپان حتیٰ کہ پسماندہ ترین ممالک جہاں سسٹم موجود ہے میں یہ اصول ہے کہ تعمیرات کا کام ریاستی قوانین کے تابع رہ کرہوتا ہے' خواہ کسی کا ذاتی مکان ہی کیوں نہ ہولیکن ایسی تعمیرات میں حکومت اورمتعلقہ اداروں کی ذمے داری اوربڑھ جاتی ہے، جنھیں کمیونٹی کے لوگوں نے مشترکہ طورپراستعمال میں لانا ہو۔ ہمارے ملک میں انسانی جان کی قدروقیمت اس لیے نہیں کہ یہاں پر بڑی سے بڑی غفلت، بدعنوانی اورذاتی مفادات کے لیے اجتماعی مفادات پر سمجھوتہ پر سزا کا کوئی تصور موجود نہیں۔

ہمارے ہاں عمارتیں پہلے بھی زمیں بوس ہوئی ہیں، لیکن کیا اس سلسلے میں جامع پالیسی بنائی گئی اوراگربنائی گئی تو کیا اس پرعمل درآمد ہوسکا۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (LDA) محض پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے؟ یا امیر لوگوں کی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کو تحفظ دینے اور غریبوں کی کپڑے اتارنے کے لیے بنائی گئی ہے؟ یا غریبوں مسکینوں کے گھروں پر قابض ہونے اور وہاں سوسائٹیاں قائم کرنے کے لیے اپنی حدود لاہور سے لاہور ڈویژن تک بڑھا دی ہیں؟ جو LDA لاہور میں اپنی بلڈنگ کو آگ سے نہیں بچا سکا (جہاں بے بسی سے لوگ مرتے رہے اور کرپشن کا 'ریکارڈ' جلتا رہا) وہ عوام یا عمارات کے تحفظ کے لیے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے یا ایسے سانحات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ساز و سامان کیا خریدے گا؟

اس ادارے نے سالانہ اربوں روپے نقشہ فیس اور کمرشلائزیشن فیس کی مد میں اکٹھا کیے جب کہ یہ ادارہ جدید آلات سے ''پیدل'' ہے اور یہ اس قابل ہی نہیں سانحہ سندر جیسے سانحات سے نمٹ سکے بلکہ پرائیویٹ اور دیگر اداروں کا محتاج ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ محکمہ لیبر اور سوشل سیکیورٹی والوں کی کارکردگی بھی میرے خیال میں منتھلیاں لینے کے سوا کچھ نہیں رہ گئی، حالیہ سانحے میں محکمہ لیبر اور سوشل سیکیورٹی کی بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ فیکٹری میں کام کرنے والے سیکڑوں مزدوروں میں سے صرف 40 مزدور سوشل سیکیورٹی کے تحت رجسٹرڈ تھے۔ جب کہ محکمہ لیبر کی جانب سے ڈیڑھ سال سے فیکٹری کی انسپکشن نہیں کی گئی تھی۔ البتہ آپ سوشل سیکیورٹی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے افسران کے اثاثہ جات چیک کروا لیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیا یہ اس ملک کے شہری ہیں؟ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جن لوگوں کو عوام کی ویلفئیر کے لیے تعینات کیا گیا وہ کس قدر شرمناک کھیل کھیل رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ لاہور میں گزشتہ تین چار سال میں آگ لگنے اور عمارات گرنے کے کئی اندوہناک واقعات ہو چکے ہیں سب کی کہانی ایک جیسی ہے۔ کسی بلڈنگ میں بلڈنگ لاز کی پابندی نہیں کی گئی تھی۔ کسی بلڈنگ میں حادثے کی صورت میں آگ بجھانے کے آلات، پانی کا بندوبست نہیں تھا، کسی بلڈنگ میں ایمرجنسی جان بچانے کا راستہ نہیں بنایا گیا تھا۔ لاہور میں ایل ڈی اے پلازہ، شاہ عالمی کی آگ، انارکلی بلڈنگ کی آگ، اْردو بازار بلڈنگ کی آگ۔ کل کی باتیں ہیں۔

الغرض صرف لاہور میں گزشتہ 11سالوں میں چھتیں گرنے سے 6سو سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں افراد جسم کی ہڈیاں تڑوا بیٹھے،،، یہ عمارتیں غیر معیاری تعمیر ہونے، چھتوں پر زیادہ لوڈ ہونے، ناقص مٹیریل استعمال کرنے اور دیگر وجوہات کی بنا پر زمین بوس ہوئیں۔ جب کہ ہر حادثے کے بعد یہی سوال اُٹھائے گئے تھے۔ ہر حادثے پر اس مجرمانہ غفلت کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دہرایا ہے اور ثابت ہوا کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا خصوصاً حکومتی ذمے داروں نے اسے پرکاہ جتنی اہمیت نہیں دی اور وہی حادثہ دوبارہ ہو گیا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں